اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں ہر وقت رب کریم کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ رب کریم نے ہمیں اتنا پیارا دین اسلام عطا فرمایا یہی وہ کامل مذہب ہے جس نے قرآن مجید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کے ذریعے  دنیا میں پیش آنے والے ہر قسم کے معاملات میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ان ہی معاملات میں سے ایک معاملہ میزبانوں کے حقوق ہیں اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح میزبان پر مہمان کے حقوق لازم ہیں اس طرح مہمان پر بھی میزبان کے حقوق لازم ہیں۔

میزبان کے حقوق درج ذیل ہیں :

(1) حسن سلوک:مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ۔یعنی بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ میزبان تو مہمان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے لیکن مہان کے نخرے تو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ۔لہذا مہمان کو چاہئے کے وہ حسن اخلاق سے کام لے۔

(2) مہمان پر بوجھ نہ بنے:اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مہمان کو چاہیے کہ میزبان پر بوجھ نہ بنے یعنی ایسا نہ ہو کہ مہمان میزبان کے گھر آ کر ہفتوں یا مہینوں رہنا شروع کر دے ایسے کرنے سے میزبان آزمائش میں بھی آ سکتا ہے۔

(3) نجی معاملات میں دخل سے گریز: اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے نجی معاملات میں دخل نہ دے اس کے گھر کےمعاملات میں نہ پڑے ایسا کرنے سے دونوں کے درمیان جھگڑا ہو سکتا ہے

(4) خامیاں نکالنے سے بچنا :مہمان کو چاہئے کہ میزبان جیسا بھی اس کو کھانے کھلائے کھا لے اس میں خامیاں نہ نکالے۔ جیسی بھی رہائش مہیا کرے صبر و شکر سے رہ لے غلطیاں ،خامیاں نہ نکالے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میزبان کی دل آزاری کا سبب بن جائے۔

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمیں ہر کام میں اعتدال و صبر و تحمل سے کام لینا چاہے صبر سے ہی کام بنتے ہیں اور بے صبری سے کام بگڑتے ہیں ۔اسی لیے مہمان کو چاہیے کہ اگر میزبان سے مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کو صبر سے برداشت کر لے یوں ہی رشتے قائم اور معاشرہ پر امن رہتا ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔  مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو اور حال یہ ہو کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔

پنجتن پاک کی نسبت سے میزبان کے حقوق احادیث کی روشنی میں درج ذیل ہیں۔

1:نفل روزے کو توڑنا کیسا ہے ؟نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوۂ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔( ’’ الدرالمختار ‘‘ و ’’ ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج 3 ، ص 75 ۔ 77)

2:میزبان خاطر داری کیسے کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔( الفتاوی الہندیۃ ‘‘ ،کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات،ج 5 ،ص 3۴۴ ۔ 35)

3: اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا“(تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: (3672) (صحیح)» ‏‏‏‏

4:عرض کی گئی، یا امیرالمومنین! ایام تشریق میں روزے کیوں حرام ہیں ؟ فرمایا کہ وہ لوگ اﷲ (عزوجل) کے زوّار و مہمان ہیں اور مہمان کو بغیر اجازت میزبان روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ عرض کی گئی، یا امیرالمومنین! غلافِ کعبہ سے لپٹنا کس لیے ہے؟ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ کسی نے دوسرے کا گنا ہ کیاہے وہ اس کے کپڑوں سے لپٹتا اور عاجزی کرتا ہے کہ یہ اُسے بخش دے۔

(شعب الإیمان ‘‘ ، باب فی المناسک، فضل الوقوف بعرفات ۔ إلخ، الحدیث : ۴۰8۴، ج3، ص8)

5:مہمان کو چاہیے کہ تین دن سے زیادہ میزبان کے ہاں نہ ٹھہرے، البتہ اگر میزبان قریبی تعلق یا دوستی کی وجہ سے زیادہ ٹھہرنے میں تکلیف محسوس نہ کرے یا مزید ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو ٹھہرنا بھی درست ہے۔(سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3675)

میزبان اگر مطالبہ کرے یا کوئی اضطراری کیفیت ہو توتین دن سے زیادہ بھی ٹھہر سکتا ہے۔ مگر یہ خدمت میزبان کی طرف سے صدقہ ہوگی۔


میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو!  مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے پیارے اسلامی بھائیوں اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کے ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیو! ہمیں اس کا حل تلاش کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں دو نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں)

(1)مومن کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جزِ دین ہے۔

(2)تکلفات سے پرہیز۔مہمان نوازی کی ایک آفت اسراف کا شکار ہوجانا ہے اس آفت کا شکار فقط آج کا ہی انسان نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہی ہر مہمان نواز اس آفت کا شکار رہا ہے، البتہ آج کل کے دور میں ریاکاری، خودنمائی اور نمود و نمائش کی بیماری ماضی کی نسبت بڑھ گئی ہے. اسلام نے حکم دیا ہے کہ مہمان کو نہ صرف تکلفات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے بحیثیتِ مہمان حکم دیا گیا ہے کہ وہ میزبان سے تقاضا کرے کہ وہ تکلفات میں نہ پڑے. امام رضا نقل کرتے ہیں: ایک شخص نے حضرت علی کو دعوت دی تو امام نے اسے فرمایا: میں تمہاری دعوت قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میری تین باتیں قبول کرنا ہوں گی، اس شخص نے کہا کہ وہ تین باتیں کون سی ہیں یا امیرالمومنین؟ امام نے فرمایا: ہمارے لیے باہر سے کوئی چیز نہیں لاؤگے، جو بھی گھر میں موجود ہو اسے لانے میں نہیں کتراؤ گے اور تیسرا یہ کہ اپنے گھر والوں کو کسی زحمت میں نہیں ڈالو گے. یہ سن کر اس شخص نے کہا مجھے آپ کی تینوں باتیں قبول ہیں پس امام نے بھی اس کی دعوت قبول کر لی۔

(3)کھانے میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب تمہارا مومن بھائی آپ سے کھانا کھانے کا تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام ارشاد فرماتے ہیں:ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتا چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔

(4)میزبان کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا ، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ تمہارے کے لیے اب خرچ کرے۔

(5)جہاں میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔امام باقر کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے کہ جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان سے بہتر جانتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)


ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام ہمیں میزبانی کے کیا کیاآداب سکھاتا ہے۔ اور اپنے مہمانوں کے ساتھ کس طرح کے سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام جو دین برحق اور دین کامل ہے وہ ہمیں مہمان کے کیا کیا آداب سکھاتا ہے۔     اسلامی طریقہ جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے :

(1)وہ یہ ہے کہ کسی کے یہاں مہمان بن کر جب آپ جائیں تو اپنی استطاعت کے مطابق میزبان یا میزبان کے بچوں کے لیے کچھ تحفے تحائف لیتے جائیں جہاں تک ممکن ہو تحفے تحائف میں میزبان کی پسند اور ذوق کا خیال ضرور رکھیں۔ تحفوں اور ہدیوں کے تبادلے سے محبت اور تعلق خاطر میں اضافہ ہوتا ہے۔

(2)جس کے یہاں بھی مہمان بن کر جائیں پوری کوشش کریں کہ تین دن سے زیادہ نہ رکیں۔ اگر کوئی خاص کام اور ضرورت ہو تو اور بات ہے۔

اہل عرب کی میزبانی ضرب المثل ہے۔ عرب میں اب تک یہ قاعدہ باقی ہے کہ جو مسافر ان کے ہاں آئے اس کی خاطر کرتے ہیں اس کے ہاتھ ،پاؤں دھلاتے اور اس کو کھانا کھلاتے ہیں۔ مہمان نوازی کرنا ان کے ہاں ایسا ضروری ہے کہ اگر کوئی میزبانی نہ کرے تو وہ خاندان (قبیلہ) سے نکال دیا جاتا ہے اور وہ شخص شرم کے مارے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔

ابوشریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا۔ (صحیح ،باب :حَقِّ الضَّيْفِ،حدیث: 3675)

(3) یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ آپ ہمیشہ دوسروں کے ہی مہمان نہ بنے۔ دوسروں کو بھی اپنے یہاں آنے کی دعوت دیں اور خوب دل کھول کر خاطر مدارت کریں۔

(4)مہمانی میں جاتے وقت موسم کے حساب سے تیاری کریں اگر سردی میں کسی کے مہمان بننے جا رہے ہوں تو حتی المقدور بستر اور جاڑے سے بچنے کے کپڑے وغیرہ ساتھ لے کر جائیں تاکہ میزبان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

(5) جس کے بھی آپ مہمان بنیں ان کی ذمہ داریوں اور ضرورتوں کا خاص خیال رکھیں اور اس بات کا اہتمام کریں کہ آپ کی وجہ سے ان کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

(6)ممکن ہے کہ آپ اپنے گھر میں بہت شان و شوکت اور عیش و آرام سے رہتے ہوں آپ کے گھر میں خدا کے فضل سے ساری سہولتیں میسر ہوں اور آپ جس کے مہمان بنے ہوں ان کے یہاں یہ سہولتیں نہ ہوں ایسی حالت میں آپ میزبان کو شرمندگی میں مبتلا نہ کریں۔

(7) طرح طرح کی فرمائشیں نہ کریں۔

(8) سہولتیں نہ ہونے کا ذکر نہ کریں۔

(9) آپ اپنے میزبان کے یہاں اس طرح رہیں کہ آپ کے قیام سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور نہ انہیں بے جا مشقت کا سامنا کرنا پڑے۔

(10)جب کسی کے یہاں دعوت میں جائیں تو کھانے پینے کے بعد میزبان کے لیے روزی میں برکتوں اور کشادگی اور رحمت و مغفرت کی دعائیں کریں۔

(11)جب ہم کسی کے یہاں مہمان بنیں تو اپنے اخلاق و اطوار کا ایسا مظاہرہ کریں کہ میزبان راحت محسوس کرے۔

(12)یوں بھی کہا گیا ہے کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب وہ اپنے کسی مومن بھائی سے ملنے جائے تو گلی اور محلے میں اس کی عزت میں اضافہ ہوجائے۔ معلوم یہ ہوا کہ جو لوگ اہل ایمان ہوتے ہیں وہ چاہے مہمان بنیں کہ میزبان وہ ایک دوسرے کے لیے رحمت بن جاتے ہیں۔


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کے اسلام نے اصول و ضوابط بیان نہ کیے ہوں اصول و ضوابط کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقہ چاہے وہ غلام ہو یا حکمران ،ان  کے حقوق مقرر کیے ہیں تاکہ ہر ایک کی اہمیت اجاگر ہو پچھلے ماہ ہم نے مہمان کے حقوق کا مطالعہ کیا تھا اس ماہنامہ میں میزبان کے حقوق شامل کیے گئے ہیں میزبان کے حقوق سے مراد وہ فرائض و ذمہ داری ہے جو میزبان کے حوالے سے مہمان پر لازم ہوتی ہے

میزبان کے حقوق

(1)عیب نہ نکالنا۔مہمان کو چاہیے کہ کھانے میں عیب نہ نکالے کہ مکی مدنی سلطان رحمت عالمیان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کھانے میں عیب نہ نکالتے اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے وگرنہ ہاتھ روک لیتے۔صحیح البخاری ،کتاب الاطعمہ ،باب ماعاب النبی طعاما،531/3 الحدیث :5409(

(2)جو کچھ سامنے ہو اسی پر قناعت کرنا۔مہمان کے سامنے جو کچھ پیش کیا جائے اس پر خوش ہو یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے تو اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اس قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں ۔

(3)ہاتھ دھونے میں احتیاط ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر میں اس احتیاط کے ساتھ ہاتھ دھوئے کہ پانی کا اسراف بھی نہ ہو اور پانی فرش پر گرنے کی وجہ سے کیچڑ کا سبب بھی نہ بنے ۔

(4)نیکی کی دعوت ۔مہمان کو چاہیے کہ اگر میزبان کے ہاں کوئی ناجائز کام دیکھے تو ہو سکے تو اس سے بدل دے اور میزبان کی اصلاح کرے مثلا وہاں دیواروں پر جاندار کی تصویر دیکھے گانے باجے سنے بے پردہ عورتوں کا سامناہو وغیرہ وغیرہ۔ ماخوذ احیاء العلوم مترجم جلد 2ص53

(5)دعا کرنا ۔مہمان کو چاہیے کہ جب جب میزبان سے رخصت ہونے لگے تو اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کرے۔ماخوذ بہار شریعت 394/3حصہ16

پیارے پیارے اسلام بھائیو !ہم آئے دن اپنے دوست احباب رشتہ داروں کے ہاں مہمان تو بنتے رہتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کے حقوق کا بھی لحاظ رکھیں تاکہ ہماری وجہ سے ان کو پریشانیوں و تنگی نہ ہو مذکورہ حقوق کے علاوہ بھی اور بھی بہت سارے حقوق ہیں مثلا اٹھنے میں جلدی نہ کرنا، کھانے کی فرمائش نہ کرنا، بغیر اجازت کے نہ لوٹنا ،میزبان سے اچھی گفتگو کرنا وغیرہ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں میزبان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح دین اسلام نے مہمان کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دی ہے اسی طرح ہمارے پیارے دین اسلام نے میزبان کے حقوق ادا کرنے کی بھی ترغیب دی ہے آئیے میں آپ کو میزبان کے حقوق بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں

میزبان کا کم سے کم وقت لینا ۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کا کم سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہیں اس کے بیٹھنے سے میزبان کے کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گنہگار کر دے کہ وہ اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔

مہمان کو جہاں ٹھہرایا جائے وہیں ٹھہرنا۔ حضرت ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں کہ مہمان چار چیزوں کا خیال رکھے اسے جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے، میزبان سے اجازت لے کر اٹھے، جب نکلے تو میزبان کے لیے دعا کرے۔ (فتاوی ہندیہ ج 5 ص344)

میزبان کے لیے دعا کرنا ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور افطار کیا اور فرمایا: تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی۔ (سنن ابی داؤد ج5 ص661)

مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے کہ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت بغیرکے باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ (الاثار ص83)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مہمان کے ساتھ ساتھ میزبان کے حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے امین


دنیا میں ہر چیز کے کچھ نہ کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ میزبانی سنت انبیاء علیہم السلام ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہم السلام کے بارے میں ہے کہ آپ جب بھی کھانا تناول فرمانے لگتے تو اپنے ساتھ کسی کو کھانے کے لیے بٹھا لیتے اور جب تک کوئی مہمان نہ آتا تناول نہ فرماتے ۔ احادیث مبارکہ میں بھی  جگہ جگہ میزبان اور میزبانی کا ذکر ہے۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ وہ میزبان کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے ۔ اور اگر میزبان کچھ بھی لائے تو مہمان صبر و شکر کے ساتھ تناول کریں اگر میزبان مہمان کی لذت کے مطابق کھانا کھلائے تو اس پر بہت بڑا اجر ہے

(1) (میزبانی قرآن پاک کی رو سے ) (ترجمہ کنز العرفان :)بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سنے والا جاننے 148 والا ہے۔ (پارہ 6 سورت النساء

شان نزول : اس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا انہوں نےاس کی اچھی طرح کی میز بانی نہ کی جب وہاں سے نکل رہا تو ان کی شکایت کرتا ہوانکلا( 148بیضاوی النساء آیت )

(2) (ایک نصیحت )پہلے یعنی مہمان نوازی والے شان نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرالی رشتہ داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا ؟الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے حدیث مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا کہ کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرار ہے کہ ا سے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ؟ارشاد فرمایا وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم باب ضیافت ونحوھا ص 951 الحدیث 15( 1726

(3) فرمان مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم:

تاجدار رسالت شہنشاہ رسالت محزن جود و سخاوت پیکر برادر. و شرافت محبوب رب العزت و عز و جل و صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:جنت میں ایسے بالا خانے ہیں. جن کا اندر باہر سے اور ان کا باہر اندر سے نظر اتا ہے ان کو اللہ عزوجل نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو نرمی سے گفتگو کرتے کھانا کھلاتے اور رات کو اس وقت نماز پڑھتے ہیں جب لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی کتاب الصیام باب من لم یردبسردالصیام باسا۔۔۔آلخ الحدیث8479ص495 )

(4) کس دعوت میں جانا چاہیے ہے اور کس میں نہیں

بندے کو چاہیے کہ اس دعوت میں نہ جائے جس میں اسے نہ بلایا گیا ہو حدیث پاک میں ہے(ترجمہ) جو شخص ایسی دعوت میں گیا جہاں سے نہیں بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا ۔(فردوس الاخبار لدیلمی باب المیم 6117) البتہ جب اسے معلوم ہو کہ دعوت آمد پر میزبان خوش ہوگا تو جا سکتا ہے۔ایک اور قول میں ہےکہ حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : بندہ جو کچھ اپنے اوپر اپنے ماں باپ پر اور دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کا بروز قیامت حساب لیا جائے گا البتہ جو کچھ وہ اپنے بھائیوں پر خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہ ہوگا اور یہ اس کے لیے آڑ بن جائے گا۔ لباب الاحیاء ص 132


اللہ کے پیارے حبیب کا فرمانِ عظیم ہےمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ

 یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے(بخاری،ج4،ص105، حدیث:6019)

اسلام کی تعلیمات میں جہاں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہاں اسلام کی تعلیمات میزبان کے حقوق و آداب کو بھی بیان کیا ہے ۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمان و میزبان دونوں کے حقوق کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ آئیے اللہ پاک اور اسکے رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے اور علم دین حاصل کرنے کی نیت سے میزبان کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں۔

اجازت لے کر گھر داخل ہو:جب کسی کے گھر جانا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اندر آنے کی اجازت حاصل کیجئے پھر جب اندر جائیں تو پہلے سلام کریں پھر بات چیت شروع کیجئے ۔ (ملخصاً بہار شریعت،حصہ۱۶،ص۸۳) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: تین مرتبہ اجازت طلب کرو اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الاستئذان والادب،الحدیث۲۱۵۳،ص۱۱۸۶)

اگر دروازے پر پر دہ نہ ہو تو ایک طر ف ہٹ کر کھڑے ہوں:حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم جب کسی کے دروازہ پر تشریف لاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،فصل کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستئذان ،الحدیث ۵۱۸۶،ج۴،ص۴۴۶)
"بہار شریعت" حصہ: 16 کے صفحہ 397 پر ہے کہ : مہمان کو چار باتیں ضروری ہیں۔

(1) جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے:مہمان کو چاہیے کہ میزبان اس کو جہاں پر بیٹھائے وہی بیٹھ جائے،

(2) جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو:میزبان مہمان کو جو پیش کرے اس کو خوشی خوشی قبول کرے، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔

(3) بغیر اجازتِ صاحبِ خانہ وہاں سے نہ اٹھے:جس جگہ مہمان کو بیٹھایا گیا ہے وہاں سے اگر کہیں جانے کا ارادہ ہو تو میزبان سے اجازت لے کر اٹھے ۔

(4) اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے: جب مہمان کے ہاں واپس جائے تو اس کے لیے دعا کرےکہ دعا مومن کا ہتھیار، دشمن سے نجات اور رزق میں برکت کا ذریعہ ہے: جیساکہ حدیث پاک میں ہے:کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق وسیع کر دے، رات دن اللہ پاک سے دعا مانگتے رہو کہ دعا سلاحِ مومن (یعنی مومن کا ہتھیار ) ہے۔(مسند ابی یعلی ،ج:2،ص:201-202، الحدیث:1806)

بے جاتنقید نہ کرے:گھر کے انتظامات پر بے جا تنقید نہ کریں جس سے میزبان کی دل آزاری ہو۔ہاں ، اگر ناجائز بات دیکھیں ، مثلاً جاندار وں کی تصاویر وغیر ہ آویزاں ہوں تو احسن طریقے سے سمجھا دیں ۔ہوسکے توکچھ نہ کچھ تحفہ پیش کریں خواہ کتنا ہی کم قیمت ہو، محبت بڑھے گی۔

اللہ پاک ہمیں ،جو سیکھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین ﷺ


میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے پیارے اسلامی بھائیو! اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیو!  ہمیں اس کاحل تلاش کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں د نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں۔)

(1)مومن کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جزِ دین ہے۔

(2)میزبان کی روایات کا احترام۔مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔

(3)کھانے میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب تمہارا مومن بھائی تم سے کھانا کھانے کا تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام ارشاد فرماتے ہیں: «ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتا چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔

(4)میزبان کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔

(5)جہاں میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔امام باقر کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے کہ جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان سے بہتر جانتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)


پیارے پیارے   اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کئی سے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں دور اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے محترم اسلامی بھائیو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس جس طرح کا بھی مہمان آتا آپ اس کی خوب خاطر تواضع فرمایا کرتے تھے اور چاہے وہ کسی شعبے کے ساتھ بھی تعلق رکھتا یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑا مہمان ہے یا یہ بڑی ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے تو اس کا احترام اس طرح کرنا چاہیے بلکہ ادنی و اعلی حاکم و محکوم اور چھوٹا بڑا جو بھی آتا میرے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے اور میزبانی کے حقوق ادا فرمایا کرتے تھے۔

( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں ٹھہرنا چاہیے )آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمانی پر ٹھہر ا رہے کہ اس کے پاس مہمان پرخرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔

پیارے اسلامی بھائیو پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ کہ مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں :

مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے، میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے اس پر خوش ہو ،میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔ ( فتاوی عالمگیری)

اسی طرح میزبان کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں (1) مہمان کو چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو (2) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کی روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں(3) اس طرح ان سے اس طرح کا مزاج اپنائے کہ وہ آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گےاور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں۔ اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین


پیارے پیارے اسلامی بھائیو آپ کو پتا ہے جیسا کہ  مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے اسی طرح میزبان کے حقوق بھی ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین دن سے زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس کے بارے میں کچھ حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

(1) متقین کی دعوت کرنا ۔متقی اور پا سا لوگوں کی دعوت کرنا اور ان کی خدمت کرنا باعث برکت اور حصول کا ذریعہ ہے۔۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔مومن کے علاوہ کسی اور کو اپنا دوست نہ بناؤ اور کھانا صرف متقی آدمی کو کھلانا چاہیے۔

(2) مہمان کو جس جا ٹھہرایا جائے وہیں ٹھہرنا چاہیے ۔ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔مہمان چار چیزوں کا خیال رکھے۔ جہاں اسے بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔میزبان سے اجازت لے کر اٹھے۔جب نکلے تو میزبان کے لیے دعا کریں۔

( 3) کھانا کھانے کے وقت نہ جانا ۔کھانے کے وقت کسی کے ہاں مہمان بن کر نہیں جانا چاہیے۔اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕپارہ 22 ۔سورۃ الاحزاب۔ آیت نمبر 53

ترجمہ۔ اے ایمان والو: نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ تو نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو جائے اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ۔

الضیف : اس زمانے میں دو قسم کے لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے ایک وہ جو کہیں سے ملنے آئے دوسرا بے ٹھکانہ مسافر پر الضیف کا لفظ بولا جاتا ہے پہلے زمانے میں ہوتا تھا کہ مسجد میں مسافرآ جاتے اور کہتے: میں مسافر ہوں تو لوگ ان کی مہمانی کر دیا کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے کہ جب تک کہ مہمان ساتھ نہ ہوتا اگر کوئی مہمان نہ آتا تو باہر گلی سے کسی مسافر کو گھر لے آتے کہ میرے ساتھ کھانا کھاؤ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر آدمی نہیں تھے تنگدستی کے ساتھ گزارا کیا کرتے تھے ۔

مہمان کی خدمت اور اکرام کے متعلق اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا: جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے مہمان کا اکرام کیا ہے مہمان کے اکرام میں اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے مختلف احادیث میں چار درجے بیان فرمائے ہیں : پہلی بات فرمائی ابو داؤد شریف کی روایت ہے [ لیلۃ الضیف حق علی کل مسلم ] مہمان کی پہلی رات ہر مسلمان پر حق واجب ہے کھانے کا ذکر نہیں فرمایا رات کا ذکر فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ مہمان کے رہنے آرام اور کھانے کا انتظام کرنا۔

اس سے اگلا درجہ آپ نے فرمایا : (یوم ولیلۃ)

اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہم جب بھی کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے تو ہمیں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اور ہمیں میزبان کے حقوق کا بھی خیال کیا جائے اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں میزبان اور مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


انبیاء ومرسلین علیھم السلام انتہائی اعلیٰ اور  عمدہ اوصاف کے مالک تھے قرآن وحدیث میں انبیاء ومرسلین علیھم السلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں  نبی اور رسول خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں، ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ صغیر و کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ، عالی نسب، عالی حسب (یعنی بلند سلسلہ خاندان)، انسانیت کے اعلی مرتبے پر پہنچے ہوئے، خوبصورت ، نیک سیرت ، عبادت گزار، پرہیز گار ، تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دور رہنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے انتہائی بلند و بالا ہوتی ہے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو قرآن و حدیث میں میزبان کے حقوق  بہت تفصیلا بیان کیے گئے مہمان کے لیے چاہیے کہ میزبان جہاں بھی بٹھایا جائے وہیں بیٹھے جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو یہ نہ ہو کہ وہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے گھر ہی کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی غیبت نہ کرے ۔

1)دل آزاری نہ کرنا:(۱۲) گھر کے انتظامات پر بے جا تنقید نہ کریں جس سے ان کی دل آزاری ہوں۔ ہاں ، اگر نا جائز بات دیکھیں، مثلاً جانداروں کی تصاویر و غیر آویزاں ہوں تو احسن طریقے سے سمجھا دیں۔ ہو سکے تو کچھ نہ کچھ تحفہ پیش کریں خواہ کتنا ہی کم قیمت ہو ، محبت بڑھے گی۔(سنتیں اور آداب صفحہ 40 مکتبہ المدینہ )

2) کھانے میں عیب نہ نکالنا:کھانے میں کسی قسم کا عیب نہ لگائیں مثلا یہ نہ کہیں کہ مزیدار نہیں، کچارہ گیا ہے، پھیکا ہوگیا کیونکہ کھانے میں عیب نکالنا مکروہ و خلاف سنت ہے اور اگر اس کی وجہ سے کھانا پکانے والے یا میزبان کی دل آزاری ہو جائے تو ممنوع ہے بلکہ جی چاہے تو کھائیں ورنہ ہاتھ روک لیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطان بحرو بر صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہیں لگایا (یعنی برا نہیں کہا) اگر خواہش ہوتی تو کھا لیتے اور خواہش نہ ہوتی تو چھوڑ دیتے۔(تربیت اولاد صفحہ نمبر 122)

3) میزبان کی اجازت سے روزہ رکھنا: مہمان میزبان کی اجازت سے روزہ رکھے گا کہ میرے نانا جان  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  جو شخص کسی قوم کے پاس بطور مہمان ٹھہرے تو وہ ان کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔(ترمذی کتاب الصوم  حدیث نمبر 789 )

4) زیادہ دیر نہ ٹھہرنا:حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کردے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا؟ تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 601)

5) شوق سے کھانا :مہمان کا شوق سے کھانا کھانا میزبان کو خوش کرتا ہے کہ میرا کھانا مہمان کو پسند آیا ہے ۔(امیر اہل سنت کی 786 نصیحتیں صفحہ نمبر 85)