پیارے پیارے   اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کئی سے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں دور اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے محترم اسلامی بھائیو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس جس طرح کا بھی مہمان آتا آپ اس کی خوب خاطر تواضع فرمایا کرتے تھے اور چاہے وہ کسی شعبے کے ساتھ بھی تعلق رکھتا یہ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑا مہمان ہے یا یہ بڑی ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے تو اس کا احترام اس طرح کرنا چاہیے بلکہ ادنی و اعلی حاکم و محکوم اور چھوٹا بڑا جو بھی آتا میرے آقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے اور میزبانی کے حقوق ادا فرمایا کرتے تھے۔

( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں ٹھہرنا چاہیے )آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمانی پر ٹھہر ا رہے کہ اس کے پاس مہمان پرخرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔

پیارے اسلامی بھائیو پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ کہ مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں :

مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے، میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے اس پر خوش ہو ،میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔ ( فتاوی عالمگیری)

اسی طرح میزبان کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں (1) مہمان کو چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو (2) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کی روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں(3) اس طرح ان سے اس طرح کا مزاج اپنائے کہ وہ آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گےاور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں۔ اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین