پیارے پیارے اسلامی بھائیو! لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔  مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو اور حال یہ ہو کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔

پنجتن پاک کی نسبت سے میزبان کے حقوق احادیث کی روشنی میں درج ذیل ہیں۔

1:نفل روزے کو توڑنا کیسا ہے ؟نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوۂ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔( ’’ الدرالمختار ‘‘ و ’’ ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج 3 ، ص 75 ۔ 77)

2:میزبان خاطر داری کیسے کرے:میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔( الفتاوی الہندیۃ ‘‘ ،کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات،ج 5 ،ص 3۴۴ ۔ 35)

3: اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا“(تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: (3672) (صحیح)» ‏‏‏‏

4:عرض کی گئی، یا امیرالمومنین! ایام تشریق میں روزے کیوں حرام ہیں ؟ فرمایا کہ وہ لوگ اﷲ (عزوجل) کے زوّار و مہمان ہیں اور مہمان کو بغیر اجازت میزبان روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ عرض کی گئی، یا امیرالمومنین! غلافِ کعبہ سے لپٹنا کس لیے ہے؟ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ کسی نے دوسرے کا گنا ہ کیاہے وہ اس کے کپڑوں سے لپٹتا اور عاجزی کرتا ہے کہ یہ اُسے بخش دے۔

(شعب الإیمان ‘‘ ، باب فی المناسک، فضل الوقوف بعرفات ۔ إلخ، الحدیث : ۴۰8۴، ج3، ص8)

5:مہمان کو چاہیے کہ تین دن سے زیادہ میزبان کے ہاں نہ ٹھہرے، البتہ اگر میزبان قریبی تعلق یا دوستی کی وجہ سے زیادہ ٹھہرنے میں تکلیف محسوس نہ کرے یا مزید ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو ٹھہرنا بھی درست ہے۔(سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3675)

میزبان اگر مطالبہ کرے یا کوئی اضطراری کیفیت ہو توتین دن سے زیادہ بھی ٹھہر سکتا ہے۔ مگر یہ خدمت میزبان کی طرف سے صدقہ ہوگی۔