1۔میزبان کے لئے دعا کرنا ۔جب میزبان کے گھر سے چلنے لگیں ،تو یہ دعا پڑھیں:اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْترجمہ:اے اللہ ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔(الجامع الترمذی، حدیث نمبر: 3576

2۔دل آزاری نہ کرنا ۔جو بھی میزبان کھانا پیش کرے اس پر منہ نہ بنانا اور اسکی دل آزاری نہ کرنا ۔۔ رسول اللہ نے فر مایا: ’’ تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔‘‘( مسند احمد)۔ مومن کو ستانا اور توبہ نہ کرنا سخت عذاب کا باعث

3۔گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینا ۔میزبان کے گھر داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ۔پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا :اِذَا اسْتَاْذَنَ اَحَدُكُمْ ثَلَاثاً فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ ترجمہ : جب کوئی تین بار اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔

4۔کھانے میں عیب نہ نکالنا جو ملے اسکو صبر تحمل کے ساتھ کھا لینا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3564


دنیا میں ہر چیز کے کچھ نہ کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ میزبانی سنت انبیاء علیہم السلام ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ جب بھی کھانا تناول فرمانے لگتے تو اپنے ساتھ کسی کو کھانے کے لیے بٹھا لیتے اور جب تک کوئی مہمان نہ آتا تناول نہ فرماتے ۔ احادیث مبارکہ میں بھی  جگہ جگہ میزبان اور میز بانی کا ذکر ہے۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ وہ میزبان کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے ۔ اور اگر میزبان کچھ بھی لائے تو مہمان صبر و شکر کے ساتھ تناول کریں اگر میزبان مہمان کے ذوق کے مطابق کھانا کھلائے تو اس پر بہت بڑا اجر ہے۔

(1) (میزبانی قرآن پاک کی رو سے ) (ترجمہ کنز العرفان :) بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔ (پارہ 6 سورت النساء )

شان نزول : اس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا اور انہوں نے اچھی طرح کی میز بانی نہ کی جب وہاں سے نکل رہا تو ان کی شکایت کرتا ہوا نکلا۔ 148(بیضاوی النساء آیت )

(ایک نصیحت 2)

پہلے یعنی مہمان نوازی والے شان نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرارلی رشتہ داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض کے دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کے میٹھا کیوں نہیں بنایا ؟الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے حدیث مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا کہ کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اس سے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ارشاد فرمایا وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم ( ضیافت ونحوھا ص 951 الحدیث 15( 1726

3فرمان مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم)

تاجدار رسالت شہنشاہ رسالت مخزن جود و سخاوت پیکرعظمت و شرافت ) محبوب رب العزت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے "جنت میں ایسے بالا خانے ہیں. جن کا اندر باہر سے اور ان کا باہر اندر سے نظر آتا ہے ان کو اللہ عزوجل نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو نرمی سے گفتگو کرتے کھانا کھلاتے اور رات کو اس وقت نماز پڑھتے ہیں جب لوگ سوئے ہوتے ہیں( السنن الکبری للبیہقی کتاب الصیام باب من لم یردبسردالصیام باسا۔۔۔آلخ الحدیث8479ص495 )

(4) کس دعوت میں جانا چاہیے ہے اور کس میں نہیں؟ بندے کو چاہیے کہ اس دعوت میں نہ جائے جس میں اسے نہ بلایا گیا ہو حدیث پاک میں ہے(ترجمہ) جو شخص ایسی دعوت میں گیا جہاں سے نہیں بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا( فردوس الاخبار لدیلمی باب المیم 6117)البتہ جب اسے معلوم ہو کہ دعوت آمد پر وہ خوش ہوگا تو جا سکتا ہے۔ قول ہےکہ حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بندہ جو کچھ اپنے اوپر اپنے ماں باپ پر اور دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کا بروز قیامت حساب لیا جائے گا البتہ جو کچھ وہ اپنے بھائیوں پر خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہ ہوگا اور یہ اس کے لیے آڑ بن جائے گا۔ لباب الاحیاء ص132 ) 


  ایک بندہ مہمان بن کر جب کسی کے ہاں جاتا ہے تو اگلا بندہ اس کی مہمان نوازی کرتا ہے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے یا اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے تو اسے میزبان کہتے ہیں ۔ یہاں میزبان کے حقوق اس لیے بتائے گئے ہیں تاکہ لوگ اگر کسی کے ہاں مہمان بن کر جائیں تو اپنے میزبان کے حقوق کا خیال رکھیں.

کھانے میں عیب نہ نکالنا: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو عیب نہ لگا یا پسند آیا تو تناول فرما لیا پسند نہ آیا تو چھوڑ دیا ۔

میزبان کے ہاں دیر تک نہ ٹھہرنا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گنہگار کر دے ،عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اسے کیسے گنہگار کرے گا ؟تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔(ایمان کی شاخیں ص601) ( مسلم)

میزبان کو دعا دینا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر و ہ روزه دار ہو تو ( میزبان کے لیے دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے ۔

دعوت میں بن بلائے مہمان بن کرجائے تو: حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سمیت اس نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ا ایک شخص ان افراد کےپیچھے آگیا جب دروازے پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میزبان سے فرمایا : یہ شخص ہمارے پیچھے آگیا ہے اگر تم اجازت دو اگر چاہو تو لوٹا دو ؟ میزبان نے عرض کی یارسول اللہ میں نے اسے اجازت دے دی .

میزبان کی دل آزاری سے بچنے کیلئے چاہیے کہ میزبان کیلئے دعائے خیر کرے وہاں کچھ دیر نماز پڑھ لے اس سے میزبان بھی خوش ہو جائے گا اور روزہ بھی نہ توڑنا پڑے گا مدعو ا فراد کے ساتھ زائد افراد ہو تو انہیں چاہیے کہ ان کی میزبان سے اجازت لے لیں ۔ پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! اگر ہمیں کہیں مدعو کیا جائے تو میزبان کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے جانا چاہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں احترام مسلم اور حقوق مسلم ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین


اسلامی ثقافت میں ،مہمان نوازی ایک مقدس اور معزز روایت ہے، جو سخاوت،احترام اور مہربانی کی اقدار کو مجسم کرتی ہے،جہاں مہمان کے کچھ حقوق ہیں ،وہاں میزبان کے بھی ایسے حقوق ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ بندے پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی لازم ہیں لہٰذا تمام حقوق ادا کرنے ضروری ہیں ۔ آئیے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے اور میزبان کے حقوق پڑھیے۔

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهٗ ومَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ والْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ. (رَوَاہُ الْبُخَارِی وَمُسْلِم) ترجمہ:حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہےاور جو شخص اللہ پاک اور قیام کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہےاسے چاہئے کہ اپنےمہمان کا احترام کرے۔(بخاری، كتاب الادب، باب من كان يؤمن ب اللہ ...الخ، ۴/ ۱۰۵،حدیث:۶۰۱۸ ۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار...الخ، ص۴۸، حدیث:۱۷۳)

شرح اربعین نوویہ (اردو ) میں اس حدیثِ پاک پاک کے تحت میزبان کے کچھ حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔

1: مہمان كو چاہئے کہ وہ میزبان کی مصروفیات اور ذمہ داریوں کا لحاظ رکھے ۔ (یعنی ایسا نہ ہو کہ میزبان کے گھر کوئی مسئلہ ہو یا کوئی ایسا کام ہو جس کی وجہ سے اسکو آپکے لئے وقت نکالنے میں مشقّت کا سامنا کرنا پڑے لہذا اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے) ۔ 

٭2:جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مناسب ہے کہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا اُس کے بچوں کے لیے تحفے لیتے جائیں ۔( تحفہ دینے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اگر جیب اجازت دے تو میزبان یا اُس  کے بچوں کے لئے ضرور تحفہ لے کر جانا چاہیے ) 

٭3: حضرت علّامہ مولانا   مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ’’بہار شریعت، حصہ 16، جلد3، صفحہ 394‘‘ پر نقل فرماتے ہیں کہ مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں

 (1) جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ۔ (2) جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ نہ کہے۔ (3) بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر) وہاں سے نہ اُٹھے ۔    (4) جب وہاں سے جائے تو اس (میزبان) کے لیے دُعا کرے۔ (فتاوی ھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ۵/ ۳۴۴، ۳۴۵)

(اللہ تعالیٰ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیقِ عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین  ﷺ


دین اسلام کامل و اکمل اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دین اسلام نے جس طرح نماز ، روزہ کا حکم دیا اسی طرح تمام مسلمانوں  کے حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی آتے ہیں۔ چنانچہ آپ بھی میزبان کے 5 حقوق پڑھیے اور علم میں اضافہ کیجیے ۔

(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور میزبانی:. صحابہ کرام کو بھی میزبانی کا عمل بے حد پسند تھا ایک دفعہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے پوچھا: اے علی رضی اللہ عنہ تمہیں کون کونسے عمل پسند ہیں حضرت علی کی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ گرمیوں کے روزے رکھنا اور میزبان کی ضیافت کرنا۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان صفحہ نمبر 599 )

(2) میزبان کے لیے دعا : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے ) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے۔( فیضان ریاض الصالحین جلد :6 ، صفحہ نمبر : 185 )

(3) رات کا کچھ وقت مہمانوں کے ساتھ گزارے :رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ وانوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھر پور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے ( لیکن خلاف شرع اور حد زیادہ نہ ہوں)۔ میزبان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا دکھا دے ( تاکہ بوقت ضرورت آسانی رہے ) ۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں جلد ،1 صفحہ نمبر : 434 )

(4) کھانے میں عیب نہ نکالنا :اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عليه رحمتہ اللہ کھانے میں عیب نکانے کے متعلق فرماتے ہیں : کھانے میں عیب نکالنا اپنے گھر پر بھی نہ چاہیے مکروہ و خلاف سنت ہے ۔ ( فیضان رياض الصالحين جلد ، 6 ، ص: 181)

(5) دعوت میں شرکت کے آداب :

(1) گھر میں داخل ہو کر کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ عاجزی اپنائے

(2) عورتوں کے کمرے کے دروازے یا پردے کے سامنے نہ بیٹھے

(3) اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسااوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اسے دشواری ہوگی

(4) جس طرف سے کھانا لایا جارہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کہ یہ حرص کی علامت ہے ۔

(5) اہل خانہ کو نہ تو زیادہ انتظار کرائے اور نہ ہی تیاری سے قبل حاضر ہو۔( احیاء العلوم جلد : 2 ،صفحہ نمبر: 52 )


اللہ تعالی نے جس طرح مہمان کے حقوق رکھے ہیں اسی طرح اللہ تعالی نے میزبان کے حقوق بھی رکھے ہیں جو کہ احادیث طیبہ سے ثابت ہیں تو لہذا جو بھی مہمان کسی کے ہاں جائے تو اسے میزبان کے حقوق کامل طور پر ادا کرنے چاہیے اگر کوئی اضافی بندہ لے کر گیا تو اس کی میزبان سے اجازت طلب کرے جو کہ حدیث طیبہ سے ثابت ہے آئیے میزبان کے کچھ حقوق پیش کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1) میزبان کے لیے دعا کرنا ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر روزہ دار ہو تو میزبان کے لیے دعا کریں اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے ۔(مسلم کتاب نکاح صفحہ نمبر 576 حدیث 352)

2) میزبان کے پاس ٹھہرنا ۔3) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے زیادہ نہ ٹھہرے اگر مہمان کی خواہش پر تین دن ٹھہرے تو پھر حرج نہیں۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد نمبر6 صفحہ نمبر 77)

3) میزبان کو صلہ دینا ۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کو صلہ دو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی صلہ کیا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم؟ تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب آدمی اپنے بھائی کے ہاں جائے تو وہاں کھائے پیے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے یہ اس کا صلہ ہے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 598 حدیث ابو داؤد) ۔

4) میزبان کی دعوت قبول کرنا ۔مسلمان بھائی کی دعوت کو اس کی دل جوئی کے لیے عذر نہ ہونے کی صورت میں قبول کر لینا چاہیے

(فیضان ریاض الصالحین جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 186) ۔

5) میزبان کو فرمائش نہ کرنا ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس سے متعلق نہ سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)


فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان  نوازی کرنا آدابِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔میزبان کے حقوق کے متعلق پانچ چیزیں :

1 اجازت طلب کرنا : میزبان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جب کسی کے گھر پر داخل ہو تو اسکی اجازت طلب کرے اگر وہ اجازت دے تو گھر میں داخل ہوجاۓ ورنہ رہنے دے حدیث پاک میں بھی ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے اِرشاد فرمایا :اِذَا اسْتَاْذَنَ اَحَدُكُمْ ثَلَاثاً فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ ترجمہ : جب کوئی تین بار اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ (بخاری ، 4 / 170 ، حدیث : 6245)

2 سلام کرنا:میزبان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جب کسی کے پاس جائے تو سب سے پہلے انہیں سلام کرے ۔

سلام سنّت ہے: سلا م کر نا ہمارے پیارے آقا، مد ینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بہت ہی پیاری سنّت ہے (بہارِ شریعت،ج3،ص459،ماخوذاً) سلام کرنا حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کی بھی سنّت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص313)

3 خاص کھانے کی فرمائش نہ کرنا : جب کسی کے پاس مہمان بنے تو جو میزبان کھانے یا پینے کو پیش کرے وہ خاموشی کے ساتھ تناول یا نوش کرلے کسی خاص کھانے کی فرمائش نہ کیجئے کہ فلان کھانا لے آئے یہ مناسب نہیں ہے۔

4 کھانے کو عیب نہ لگاۓ: جب کسی کے پاس مہمان بنے تو جو میزبان کھانے کھلائے وہ کھا لے اگر کھانا اچھا نہ لگے یا نمک مرچ کم زیادہ ہو تو کھانے کو عیب نہ لگائے ۔ اگر میزبان اصرار کرے اور کوئی مجبوری بھی نہ ہو تو بھوک باقی ہونے کی صورت میں تھوڑا مزید کھا لے کہ مسلمان کا دل خوش کرنا ثواب ہے ۔

5 غیبت نہ کرنا: کسی کے گھر مہمان بنے دوبارہ اپنے گھر واپس آ کر اس کی غیبتیں نہ کرنا کہ کھانا اچھا نہیں تھا نمک مرچ کم یا تیز تھی صفائ نہیں تھی انکے بچوں نے تنگ کیا انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا وغیرہ۔ غیبت کے متعلق آیت مبارکہ : اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ- ترجَمۂ کنزالایمان : اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ۔کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے؟ تو یہ تمھیں گوارا نہ ہو گا۔


مہمان کے جس طرح بہت سارے حقوق اور آداب ہیں اسی طرح میزبان کے بھی حقوق اور آداب ہیں۔بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص951، الحدیث: 15(1726))

آئیے پہلے میزبان کے حقوق اور آداب کے بارے میں چند حدیثیں ملاحظہ کیجیئے۔

1:-صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’جب کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے، چاہے نہ کھائے۔‘‘(صحیح مسلم ‘‘ ،کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعی ۔ إلخ، الحدیث: 105۔(1430))

2:-ایک حدیث میں ہے کہ۔مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(المرجع السابق،الحدیث: 6135)

3:-امام احمد و ابو داود نے ایک صحابی سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:جب دو شخص دعوت دینے بیک وقت آئیں تو جس کا دروازہ تمھارے دروازہ سے قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو اور اگر ایک پہلے آیا تو جو پہلے آیا اس کی قبول کرو۔

(المرجع السابق، باب اذا إجتمع داعیان ۔ إلخ، الحدیث: 3756 ،ج 3 ،ص 484۔)

بیہقی نے شعب الایمان میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا۔ (شعب الإیمان، باب في المطاعم والمشارب، فصل في طیب المطعم ۔ إلخ، الحدیث: 5803 ،ج 5 ،ص 68۔

آئیے مختصراً میزبان کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں۔میزبان کے حقوق:-

1:-مہمان کو چاہیئے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

2:-جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

میزبان سے طرح طرح کے مطالبے نہ کیجیے، وہ آپ کی خاطر مدارت اور دل جوئی کے لئے ازخود جو اہتمام کرے اسی پر میزبان کا شکریہ ادا کیجیے، اور اس کو کسی بے جامشقت میں نہ ڈالیے۔

3:-اگر کسی کی دعوت ہو اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص بغیر بلائے چلا آئے تو ظاہر کردے کہ میں نہیں لایا ہوں اور صاحب خانہ کو اختیار ہے، اسے کھانے کی اجازت دے یا نہ دے، کیونکہ ظاہر نہ کرے گا تو صاحبِ خانہ کو یہ ناگوار ہوگا کہ اپنے ساتھ دوسروں کو کیوں لایا۔

4:-مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے،(بہار شریعت،ص،1013)

5:-مہمان کو چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ رکھے۔

6:-بغیر اجازت کے مہمان نہ بنیے اور بے وقت بھی نہ جائے۔

7:-جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یااُس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتے جائیے۔(550 سنتیں اور آداب)

8:-مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(550 سنتیں اور آداب)

9:-بغیر اجازتِ صاحبِ خانہ وہاں سے نہ اٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

10:-اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ (بہار شریعت حصہ 16،ص397)


اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں سب سے افضل امت یعنی حضور علیہ السلام کا امتی بنایا  دین اسلام ایسا پاکیزہ دین ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں انہیں بیان فرماتا ہے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں انہیں حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی ہیں دین اسلام ہمیں میزبان کے حقوق بتاتا ہے ۔ میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیت مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ

(1) بغیر دعوت کے مت جائیں: بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، ، یہ چیز اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا، اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا ہو۔

متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:

2۔کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔

3۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے

4- میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔

5۔ کھانے میں عیب نہ نکالے۔

6۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


  مہمان نوازی کی دین اسلام میں بڑی قدر و منزلت ہے، مگر آج کے پرفتن دور میں مسلمان اس صفت سے عاری نظر آتے ہیں۔ اب تو بہت کم لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو مہمان کا اکرام اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اس صفت سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو مضیف کہتے ہیں جبکہ اردو زبان میں مہمان داری کرنے والے، دعوت کرنے والے، یا مہمان کو کھانا کھلانے والے کومیزبان کہتے ہیں۔

دین اسلام بہت پیارا دین ہے جہاں میزبان پر مہمان کے حقوق کی تلقین فرمائی گئی ہے وہاں مہمان پر بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے ہیں، اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ احزاب میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- (پ 22، الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اےایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

اس آیت مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ہمارے لیے اس آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والی معلومات: 1۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھاناکھانے نہ جائے 2۔ مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔

متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:

1۔ کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔

2۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے ۔

3۔ میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔

4۔ کھانے میں عیب نہ نکالے۔

5۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


دین اسلام بہت پیارا دین ہے؛ یہ دین انسان کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملات میں انسان کو manners کا درس دیتا ہے۔ جہاں دین اسلام والدین کے حقوق بیان کرتا ہے تو وہیں اولاد کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔ جہاں حاکم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے وہیں رعایا کے حقوق کا خیال رکھنے کا شعور بھی دیتا ہے۔ ایسے ہی دین اسلام جہاں مہمان کی میزبانی کرنے کے فضائل بیان کرتا ہے وہیں میزبان یعنی host کے حقوق کا خیال رکھنے کا شعور بھی پیدا کرتا ہے۔

میزبانی (hosting) ۔ میزبانی کرنا انبیاء کرام علیھم السّلام کا بہت ہی پسندیدہ عمل رہا ہے ۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جو اہم ذکر ملتا ہے وہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ہے ۔ آپ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے کہ آپ مہمان کے بغیر کھانا تناول نہ فرماتے تھے ۔اسی طرح حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عادت کریمہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صحابہ کرام علیھم الرضوان کو کھانے کے اوقات میں invite کرتے ۔ جب میزبان کسی اسلامی بھائی کو invite کرے تو اسے چاہئے کے میزبان (Host) کے حقوق کا خیال رکھیں۔ مہمان کو چاہئے کہ درج ذیل manners کو مد نظر رکھے:

1 بن بلائے نہ جائے۔ کسی کے بن بلائے اسکے پاس نہیں جانا چاہئے۔ اور نہ ہی ان لوگوں سے زیادہ کو جانا چاہئے جن کو بلایا گیا۔یعنی کہ دو کو بلایا گیا تو تین کا چلے جانا۔ بن بلائے دعوت میں شرکت کرنے والے کے بارے حدیث مبارک میں ہے : " عن عبد الله بن عمر: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم : "من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله، ومن دخل على غير دعوة ‌دخل ‌سارقا وخرج مغيرا" ترجمہ: عبداﷲبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس کو دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہ کی اس نے اﷲو رسول (عزوجل وصلَّی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی نافرمانی کی اور جو بغیر بلائے گیا وہ چور ہو کر گھسا اورلٹیرابن کر نکلا۔(سنن أبي داود،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ،ج5،ص569،دارالرسالۃ العالمیہ)

2 وقت کا خیال رکھنا۔ جب کوئی دعوت دے تو مہمان کوچاہئے کہ اسی وقت اسکے پاس حاضر ہو جس وقت میں اسے بلایا گیا ہے۔ بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ مہمان دیر سے میزبان کے پاس پہنچتا ہے جسکی وجہ سے مہمان، میزبان کی تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ اور کسی مسلمان کو تکلیف دینے کے بارے میں روایات میں آتا ہے ۔ عن أبي صِرْمة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:

«مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللهُ عَلَيْهِ». [حسن] - [رواه أبوداود والترمذي وابن ماجه وأحمد] ابو صرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”جس نے دوسرے کا نقصان کیا، اللہ اس کا نقصان کرے گا اور جس نے دوسرے کو مشقت میں ڈالا، اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا“۔ اسے ابنِ ماجہ نےبھی روایت کیا-

3 جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھ جانا۔ میزبان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھ جانا۔ میزبان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ پر کھینچا تانی نہ کریں، بلکہ وہ آپ کو جہاں بٹھائے وہیں بیٹھیں، کیونکہ اگرآپ اپنی مرضی کی جگہ بیٹھیں گے توممکن ہے کہ ایسی جگہ بیٹھیں جہاں سے مستورات پر نظر پڑتی ہو،یاصاحب خانہ وہاں بیٹھنے سے بوجھ محسوس کرے،لہذا آپ اپنے میزبان کی فرمائش کے مطابق بیٹھیں اوراس کے اکرام کوقبول کریں۔

4جو ملے وہ کھا لے ۔ مہمان کو چاہئے کو وہ فرمائش نہ کرے، بلکہ جو ملے وہ کھا لے۔ بسا اوقات مہمان فرمائش کر دیتا ہے ، جبکہ وہ چیز میزبان کے پاس موجود نہیں ہوتی ، یوں میزبان کیلئے آزمائش ہو جاتی ہے ۔

5زیادہ دیر نہ رکے۔ مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے پاس زیادہ دیر نہ رکے ۔ بسا اوقات میزبان نے کسی کام کیلئے جانا ہوتا ہے ۔جبکہ مہمان باتوں میں لگا رہتا ہے ۔اور میزبان بار بار گھڑی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوتا ہے ۔لیکن مہمان کی لاشعوری اور عدم توجہ کی وجہ سے میزبان کیلئے آزمائش کا سبب بنتا ہے-اگر مذکورہ بالا طریقے سے کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں گے تو انشاء اللہ میزبان کے دل میں محبت بڑھے گی ۔

اللہ پاک سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان اور میزبان کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


اللہ پاک کی نعمتوں کو اگر انسان شمار کرنا چاہے تو یقیناً نہیں کر سکتا ان بے شمار نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اس کو ماں باپ بہن بھائی اور دیگر خوش دل اور اچھے اخلاق سے آراستہ پیارے پیارے دوستوں سے سجا خوبصورت معاشرہ بھی دیا پھر ایک دوسرے سے محبتوں کے اظہار کے لیے ہم ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے بھی ہیں یوں سمجھیں کہ کبھی ہم مہمان بنتے ہیں تو کبھی میزبان اب چونکہ ہمیں کبھی خوش قسمتی سے مہمان بھی بننا ہوتا ہے تو ہمیں میزبان کی کن باتوں میں رعایت رکھنی چاہیے اور کن حقوق کا خیال رکھنا چاہیے آہیے اس بارے میں سنتے ہیں اور جانتے ہیں   کہ اسلام اس حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے ۔

(1) بغیر دعوت کے مت جائیں: بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، ، یہ چیز اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا، اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا ہو۔

متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:

2۔کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔

3۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے

4- میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔

5۔ کھانے میں عیب نہ نکالے

6۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔

7۔ میزبان کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جانے سے پہلے میزبان سے آنے کا پوچھ لیا جائے کہ ہم آپ کی طرف آ سکتے ہیں

8۔ ہو سکے تو واپسی پر محبت کے طور پر کچھ تحفہ بھی پیش کر کے آئیں

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین