مہمان کے جس طرح بہت سارے حقوق اور آداب ہیں اسی طرح میزبان کے بھی حقوق اور آداب ہیں۔بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص951، الحدیث: 15(1726))

آئیے پہلے میزبان کے حقوق اور آداب کے بارے میں چند حدیثیں ملاحظہ کیجیئے۔

1:-صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’جب کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے، چاہے نہ کھائے۔‘‘(صحیح مسلم ‘‘ ،کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعی ۔ إلخ، الحدیث: 105۔(1430))

2:-ایک حدیث میں ہے کہ۔مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(المرجع السابق،الحدیث: 6135)

3:-امام احمد و ابو داود نے ایک صحابی سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:جب دو شخص دعوت دینے بیک وقت آئیں تو جس کا دروازہ تمھارے دروازہ سے قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو اور اگر ایک پہلے آیا تو جو پہلے آیا اس کی قبول کرو۔

(المرجع السابق، باب اذا إجتمع داعیان ۔ إلخ، الحدیث: 3756 ،ج 3 ،ص 484۔)

بیہقی نے شعب الایمان میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا۔ (شعب الإیمان، باب في المطاعم والمشارب، فصل في طیب المطعم ۔ إلخ، الحدیث: 5803 ،ج 5 ،ص 68۔

آئیے مختصراً میزبان کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں۔میزبان کے حقوق:-

1:-مہمان کو چاہیئے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

2:-جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

میزبان سے طرح طرح کے مطالبے نہ کیجیے، وہ آپ کی خاطر مدارت اور دل جوئی کے لئے ازخود جو اہتمام کرے اسی پر میزبان کا شکریہ ادا کیجیے، اور اس کو کسی بے جامشقت میں نہ ڈالیے۔

3:-اگر کسی کی دعوت ہو اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص بغیر بلائے چلا آئے تو ظاہر کردے کہ میں نہیں لایا ہوں اور صاحب خانہ کو اختیار ہے، اسے کھانے کی اجازت دے یا نہ دے، کیونکہ ظاہر نہ کرے گا تو صاحبِ خانہ کو یہ ناگوار ہوگا کہ اپنے ساتھ دوسروں کو کیوں لایا۔

4:-مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے،(بہار شریعت،ص،1013)

5:-مہمان کو چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ رکھے۔

6:-بغیر اجازت کے مہمان نہ بنیے اور بے وقت بھی نہ جائے۔

7:-جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یااُس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتے جائیے۔(550 سنتیں اور آداب)

8:-مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔(550 سنتیں اور آداب)

9:-بغیر اجازتِ صاحبِ خانہ وہاں سے نہ اٹھے۔(بہار شریعت حصہ 16،ص397)

10:-اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ (بہار شریعت حصہ 16،ص397)