محمد
ابوبکر (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان بلھے شاہ قصور ، پاکستان)
اسلامی ثقافت میں ،مہمان
نوازی ایک مقدس اور معزز روایت ہے، جو سخاوت،احترام اور مہربانی کی اقدار کو مجسم
کرتی ہے،جہاں مہمان کے کچھ حقوق
ہیں ،وہاں میزبان کے بھی ایسے حقوق ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ بندے پر
حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی لازم ہیں لہٰذا تمام حقوق ادا کرنے ضروری
ہیں ۔ آئیے حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے اور میزبان کے
حقوق پڑھیے۔
عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضيَ اللهُ عَنْهُ
عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: ’’مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ
وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ
بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهٗ ومَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ
والْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ. (رَوَاہُ الْبُخَارِی وَمُسْلِم) ترجمہ:حضرت
سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے
ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک اور
قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہےاور جو شخص اللہ پاک اور قیام کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے
پڑوسی کی عزت کرے اور جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہےاسے
چاہئے کہ اپنےمہمان
کا احترام کرے۔(بخاری، كتاب الادب،
باب من كان يؤمن ب اللہ ...الخ، ۴/ ۱۰۵،حدیث:۶۰۱۸ ۔
مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار...الخ، ص۴۸،
حدیث:۱۷۳)
شرح اربعین نوویہ (اردو ) میں اس حدیثِ پاک
پاک کے تحت میزبان کے کچھ حقوق بیان کیے
گئے ہیں ۔
1: مہمان كو چاہئے کہ وہ میزبان کی مصروفیات اور ذمہ داریوں کا لحاظ رکھے ۔ (یعنی
ایسا نہ ہو کہ میزبان کے گھر کوئی مسئلہ ہو یا کوئی ایسا کام ہو جس کی وجہ سے اسکو
آپکے لئے وقت نکالنے میں مشقّت کا سامنا کرنا پڑے لہذا اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری
ہے) ۔
٭2:جب آپ کسی کے پاس بطورِ
مہمان جائیں تو مناسب ہے کہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا اُس کے
بچوں کے لیے تحفے لیتے جائیں ۔( تحفہ دینے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اگر
جیب اجازت دے تو میزبان یا اُس کے بچوں کے لئے ضرور تحفہ لے کر جانا چاہیے
)
٭3: حضرت علّامہ
مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ
اللہ علیہ’’بہار شریعت، حصہ 16، جلد3، صفحہ 394‘‘ پر نقل فرماتے ہیں کہ مہمان کو
چار باتیں ضَروری ہیں:
(1)
جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ۔ (2) جو
کچھ اس کے سامنے پیش
کیا جائے اس پر خوش ہو۔یہ نہ
ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے
الفاظ نہ کہے۔ (3) بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان
سے اجازت لئے بِغیر) وہاں سے نہ اُٹھے ۔ (4) جب
وہاں سے جائے تو اس
(میزبان) کے لیے دُعا کرے۔ (فتاوی
ھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ۵/ ۳۴۴، ۳۴۵)
(اللہ تعالیٰ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے
کی توفیقِ عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ