دین اسلام کامل و اکمل اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دین اسلام نے جس طرح نماز ، روزہ کا حکم دیا اسی طرح تمام مسلمانوں  کے حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی آتے ہیں۔ چنانچہ آپ بھی میزبان کے 5 حقوق پڑھیے اور علم میں اضافہ کیجیے ۔

(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور میزبانی:. صحابہ کرام کو بھی میزبانی کا عمل بے حد پسند تھا ایک دفعہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے پوچھا: اے علی رضی اللہ عنہ تمہیں کون کونسے عمل پسند ہیں حضرت علی کی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ گرمیوں کے روزے رکھنا اور میزبان کی ضیافت کرنا۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان صفحہ نمبر 599 )

(2) میزبان کے لیے دعا : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے ) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے۔( فیضان ریاض الصالحین جلد :6 ، صفحہ نمبر : 185 )

(3) رات کا کچھ وقت مہمانوں کے ساتھ گزارے :رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ وانوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھر پور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے ( لیکن خلاف شرع اور حد زیادہ نہ ہوں)۔ میزبان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا دکھا دے ( تاکہ بوقت ضرورت آسانی رہے ) ۔( دین ودنیا کی انوکھی باتیں جلد ،1 صفحہ نمبر : 434 )

(4) کھانے میں عیب نہ نکالنا :اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عليه رحمتہ اللہ کھانے میں عیب نکانے کے متعلق فرماتے ہیں : کھانے میں عیب نکالنا اپنے گھر پر بھی نہ چاہیے مکروہ و خلاف سنت ہے ۔ ( فیضان رياض الصالحين جلد ، 6 ، ص: 181)

(5) دعوت میں شرکت کے آداب :

(1) گھر میں داخل ہو کر کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ عاجزی اپنائے

(2) عورتوں کے کمرے کے دروازے یا پردے کے سامنے نہ بیٹھے

(3) اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسااوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اسے دشواری ہوگی

(4) جس طرف سے کھانا لایا جارہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کہ یہ حرص کی علامت ہے ۔

(5) اہل خانہ کو نہ تو زیادہ انتظار کرائے اور نہ ہی تیاری سے قبل حاضر ہو۔( احیاء العلوم جلد : 2 ،صفحہ نمبر: 52 )