اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں سب سے افضل امت یعنی حضور علیہ السلام کا امتی بنایا  دین اسلام ایسا پاکیزہ دین ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں انہیں بیان فرماتا ہے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں انہیں حقوق میں سے میزبان کے حقوق بھی ہیں دین اسلام ہمیں میزبان کے حقوق بتاتا ہے ۔ میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیت مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ

(1) بغیر دعوت کے مت جائیں: بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، ، یہ چیز اخلاقیات کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا، اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا ہو۔

متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتے ہیں:

2۔کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔

3۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے

4- میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔

5۔ کھانے میں عیب نہ نکالے۔

6۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین