سید احمد رضا (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دنیا میں ہر چیز
کے کچھ نہ کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ میزبانی سنت انبیاء
علیہم السلام ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ جب بھی کھانا
تناول فرمانے لگتے تو اپنے ساتھ کسی کو کھانے کے لیے بٹھا لیتے اور جب تک کوئی
مہمان نہ آتا تناول نہ فرماتے ۔ احادیث مبارکہ میں بھی جگہ جگہ میزبان اور میز بانی کا ذکر ہے۔ مہمان
کو بھی چاہیے کہ وہ میزبان کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے ۔ اور اگر میزبان کچھ بھی لائے تو مہمان صبر
و شکر کے ساتھ تناول کریں اگر میزبان
مہمان کے ذوق کے مطابق کھانا کھلائے تو
اس پر بہت بڑا اجر ہے۔
(1) (میزبانی قرآن پاک کی رو سے ) (ترجمہ
کنز العرفان :) بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔ (پارہ 6 سورت النساء )
شان نزول : اس کا شان نزول یہ
ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا اور
انہوں نے اچھی طرح کی میز بانی نہ کی جب وہاں سے نکل رہا تو ان کی شکایت کرتا
ہوا نکلا۔ 148(بیضاوی النساء آیت )
(ایک نصیحت 2)
پہلے یعنی
مہمان نوازی والے شان نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان
کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا
اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرارلی رشتہ داروں میں مہمان
نوازی پر شکوہ عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض کے دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے
تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کے میٹھا کیوں نہیں بنایا
؟الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ
داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے حدیث مبارک میں
مہمان کو حکم دیا گیا کہ کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی
کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ
نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اس سے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا
ارشاد فرمایا وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی
ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم ( ضیافت ونحوھا ص 951 الحدیث 15( 1726
3فرمان مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم)
تاجدار رسالت شہنشاہ رسالت مخزن جود و سخاوت پیکرعظمت
و شرافت ) محبوب رب العزت صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان عالیشان ہے "جنت میں ایسے
بالا خانے ہیں. جن کا اندر باہر سے اور ان کا باہر اندر سے نظر آتا ہے ان کو اللہ
عزوجل نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو نرمی سے گفتگو کرتے کھانا کھلاتے اور
رات کو اس وقت نماز پڑھتے ہیں جب لوگ سوئے ہوتے ہیں( السنن الکبری للبیہقی کتاب
الصیام باب من لم یردبسردالصیام باسا۔۔۔آلخ الحدیث8479ص495 )
(4) کس دعوت
میں جانا چاہیے ہے اور کس میں نہیں؟ بندے
کو چاہیے کہ اس دعوت میں نہ جائے جس میں اسے نہ بلایا گیا ہو حدیث پاک میں
ہے(ترجمہ) جو شخص ایسی دعوت میں گیا جہاں سے نہیں بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا( فردوس
الاخبار لدیلمی باب المیم 6117)البتہ جب اسے معلوم ہو کہ دعوت آمد پر وہ خوش ہوگا تو جا سکتا ہے۔ قول ہےکہ حضرت سیدنا
حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بندہ جو کچھ اپنے اوپر اپنے ماں باپ پر اور
دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کا بروز قیامت حساب لیا جائے گا البتہ جو کچھ وہ اپنے
بھائیوں پر خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہ ہوگا اور یہ اس کے لیے آڑ بن جائے گا۔ لباب
الاحیاء ص132 )