مہمان کو چاہیے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ، جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔ اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے. مہمان کو چاہیے کہ بن بلائے دعوت پر نہ جائے ۔ جس سے اس کو تکلیف ہو۔ اور میزبان کے ہاں اتنا نہ بیٹھے کہ اس کے لیے خرچ اور تکلیف کا سبب   ہو۔ میزبان کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن بیوقوف مہمان اس بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میزبان نے یہ جتنا اہتمام کیا ہے اسے رخصت کے وقت اس کو ساتھ لے جانے کے لیے دے دے۔جہاں مہمان کے حقوق ہیں وہی میزبان کے بھی حقوق ہیں۔

آئیے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔

1 ؛ میزبان کے ہاں دیر تک نہ ٹھہرنا ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتناقیام کرے کہ اسے گناہ گار کر دے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہ گار کرے گا ؟تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔ (ایمان کی شاخیں ،ص، 601)

2 ؛ فرمائش نہ کرنا :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان بن کر) جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔( شعب الایمان، ایمان کی شاخیں ،ص ، 600 ) (طبرانی)

3 ؛ میزبان کے لیے دعا کرنا.حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو (میزبان کے لیے ) دعا کرے اور اگر روزہ نہ ہو تو کھانا کھالے ۔(مسلم ، کتاب النکاح ، باب الامر باجابة الداعی الی دعوۃ ، ص576 ،حدیث :3520)

4 ؛ آخر تک بیٹھنا ۔روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تاآنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراة المناجیح ج ،6، ص 75،حدیث 4069 )

5 ؛ دعوت قبول کرنا ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی دعوت قبول کرے اس کے دل میں خوشی داخل کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یعنی جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الامر با جابة الداعي إلى دعوة الحديث :1432،ص750)

6 ؛ بغیر دعوت کے نہ جانا :کسی کے ہاں بغیر دعوت (یعنی بن بلائے ) نہیں جاناچاہیے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :من مشى إلى طَعَامٍ لم يُدْع الَيْهِ مشی فا سِقًا و اكل حراما یعنی جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا ۔(مسندابی داؤد الطیالسی، الحدیث : 2332، ص306 )

7 ؛ میزبان کی غیبت نہ کرنا : مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی غیبت مت کرے ۔ اس کے کھانے کی برائی بیان نہ کرے ۔حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے ، لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہ آیا۔ ایک شخص بولا وہ موٹا بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمۃ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے : افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس(یعنی بیٹھک/ دعوت) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین ( اور بروایت دیگر سات) دن تک کھانا نہ کھایا۔( تنبيه الغافلين ،ص،89)


مہمان کی جیسی عزت کی جاتی ہے ویسے ہی مہمان کو  میزبان کی عزت کرنی چاہیے ۔میزبان کی دل آزاری نہ کی جائے اس کے لیے دعا کی جائے ۔بن بلائے دعوت پر نہ جایا جائے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اس نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ۔ ایک شخص ان افراد کے پیچھے آ گیا ۔ جب دروازے پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میزبان سے فرمایا یہ شخص ہمارے پیچھےآگیا ہے اگر تم چاہو تو اجازت دو اور اگر چاہو تو لوٹا دو۔ میزبان نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ میں نے اُسے اجازت دے دی۔(مسلم - کتاب الاطعم ص-862- حدیث ۔ 5309)

(1) میزبان کے لیے دعا ۔حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے۔اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے )دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے-(مسلم کتاب النکاح ص، 576, حدیث 352)

2 ; حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میزبانی : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور کھائیے اور کھا ئیے اور جب مہمان خوب آسوده ہو جاتا اور انکار کرتا تو تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے ۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان مترجم)

3 ; بغیر اجازت نہ جانا : ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کافر آیا اس کے لیے بکری کا دودھ لایا گیا وہ سارا کا سارا پی گیا اس کے بعددوسری بکری پھر تیسری حتی کے سات بکریوں کا دودھ پی گیا مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا برا نہ منایا، اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور سو گیا ۔ رات کو بستر پر پاخانہ کر دیا شرم کے مارے صبح اٹھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر نکل گیا راستے میں پہنچا تو اسے خیال آیا کہ میں اپنی تلوار بھول آیا ہوں تلوار لینے کیلئے واپس گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے۔ کہ امام الانبیاء حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم اس کی غلاظت کو خود صاف فرمارہے ہیں۔ اس عادت کریمہ کو دیکھ کر ا کر اس سے رہا نہ گیا فوراً کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں آگیا۔( ایمان کی شاخیں شعب الایمان مترجم )

4 ; سخاوت کرنا: حضرت سید نا ملحان طائی رحمہ اللہ تعالی علیہ سے منقول ہے حاتم طائی کی زوجہ "نوار" سے کہا گیا : ہمیں حاتم طائی کےمتعلق کچھ بتاؤ ۔ اس نے کہا: حاتم طائی کا ہر کام عجیب تھا۔ ایک مرتبہ قحط سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آسمان سے پورا سال بارش نہ ہوئی۔ بھوک اور کمزوری نے دودھ پلانے والیوں کو دودھ پلانے سے روک دیا۔ اونٹ سارا سارا دن پانی کی تلاش میں پھرتے لیکن انہیں ایک قطرہ پانی نہ ملتا۔ ہر ذی روح بھوک و پیاس سے بے تاب تھا۔ ایک رات سردی نے اپنا پور ازور دکھا رکھا تھا اور ہمارے گھر میں کھانے کے لئے ایک لقمہ بھی نہ تھا۔ ہمارے بچے عبداللہ ،عدی ، اور سفانہ بھوک سے بلبلا رہے تھے۔ واللہ (اللہ کی قسم ) ہمارے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ بچوں کی آوو بکا سن کر ایک کو حاتم طائی اور دوسرے کو میں نے گود میں اٹھالیا ، ہم انہیں کافی دیر تک بہلاتے رہے۔ لیکن بھوک نے ان کا برا حال کر رکھا تھا-بالآخرت کافی دیر بعدتھک ہار کر دونوں بچے سو گئے ۔ ہم نے انہیں ایک چٹائی پرلٹا دیا پھر تیسرے کو بہلانے لگے بالآخر وہ بھی سو گیا۔ حاتم طائی نے کہا : آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟ پھر وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ رات کی سیاہی کو آسمان پر چمکنے والے ستارے دور کر رہے تھے جنگلی جانوروں کے چیخنے کی آوازیں فضا میں بلند ہو رہی تھیں ۔ ہر چلنے والا مسافر ٹھہر چکا تھا ، با ہر کسی کی آہٹ سنائی دی، حاتم طائی نے بلند آواز سے کہا:” کون ہے؟" لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔میں نے کہا :"ہمارے ساتھ یا تو کسی نے مذاق کیا ہے یا کوئی دھو کہ ہونے والا ہے ۔ میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس آئی تو حاتم طائی نے پوچھا:کون ہے؟ میں نے کہا: آپ کی فلاں پڑوسن ہے، اس کڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا جس کے پناہ لیتی ۔ اپنے بھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے خود اس طرح بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چھینتے ہیں۔ یہ سن کر حاتم طائی نے کہا : اسے جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ میں نے کہا : ہمارے اپنے بچے بھوک سے مرے جا رہے ہیں، انہیں دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچوں کی ہم کیا مدد کریں گے؟ حاتم طائی نے کہاں " خاموش رہو، اللہ تعالٰی ضرور تمہارا اور ان سب کا پیٹ بھرے گا۔ جاؤ! جلدی سے اس دکھیاری ماں کو اندر بلا لاؤ۔ میں اسے بلالائی ۔ اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے اس طرح آرہے تھے جیسے مرغی کے بچے مرغی کے گرد جمع ہو کر چلتے ہیں۔ حاتم طائی نے انہیں کمرے میں بٹھایا اور گھوڑے کی طرف بڑھا، برچھی سے گھوڑا ذبح کر کے آگ جلائی گئی۔

جب شعلے بلند ہونے لگے تو چھری لے کر گھوڑے کی کھال اتاری پھر اس عورت کی طرف چھری بڑھاتے ہوئے کہا : " کھاؤ! اور اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا: " تم بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی جگا دو تا کہ وہ بھی اپنی بھوک مٹا سکیں ۔ ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گوشت کھا رہی تھی اس کی جھجک کو محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا: کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان ہو کر تھوڑا تھوڑا کھارہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا۔ ہم سب کھانے میں مصروف تھے اور حاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا لیکن بخدا! حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ (عیون الحکایات، حصہ دوم، ص:241)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو شریعت مطہرہ ہمیں ہر اس کام سے منع کرتی ہے جو کسی بھی پہلو سے معیوب ہو اور لوگ بھی اسے ناپسند کرتے ہوں مثال کے طور پر کسی کے گھر بن بلائے دعوت پر چلے جانا یا جن کو دعوت دی گئی ہے ان کے ساتھ چلے جانا یہ اخلاقا نامناسب فعل ہے ہو سکتا ہے اس طرح بن بلائے جانا میزبان کو ناگوار لگے اور وہ واپس لوٹا دے اور پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اسی لیے ہمیں بن بلائے مہمان نہیں بننا چاہیے تاکہ ہم میزبان کی ناراضگی سے بچ سکیں آئیے میزبان کے کچھ اور حقوق سنتے ہیں

(1) میزبان کے لیے دعا کرنا:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو میزبان کے لیے دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے۔(ریاض الصالحین جلد 6 ص 185)

(2) میزبان کے کھانے پر خوش ہونا:جو کچھ مہمان کے سامنے پیش کیا جائے اسے چاہیے کہ اس پر خوش ہو اور یہ نہ کہے کہ اس سے اچھا تو میں اپنے گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے کوئی دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں

(بہار شریعت جلد 3 جزء الف ص 394)

(3) میزبان کی عیب جوئی نہ کرنا:کسی بھی مہمان کو میزبان کی عیب جوئی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کا وبال بہت زیادہ ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اگر کوئی بد نصیب اللہ کے محبوبوں کو عیب لگائے تو اس کے سارے عیب کهول دینا سنت الہیہ ہے دیکھو ولید بن مغیرہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہا تو رب تعالی جو عیبوں کو چھپانے والا ہے اس نے سورۃ ن میں اس کے دس عیب کھولے حتی کہ آخر میں فرمایا (عتل بعد ذلک زنیم) ترجمہ: وہ حرام کا تخم ہے

(مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 3 ص 120)

اسی وجہ سے ہمیں کسی بھی مسلمان میزبان کی عیب جوئی نہیں کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس ہمارے اس سے زیادہ راز ہوں اگر اس نے عیب کھول دیے تو ہمارا کیا بنے گا

(4) میزبان کی دعوت کو قبول کرنا:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرو (مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد 3 ص 135)

اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میزبان دعوت دے تو قبول کرو بشرطیکہ دعوت ممنوعات شرعیہ سے خالی ہو لہذا جس ولیمہ میں ناچ گانا خاص کھانے کی جگہ ہو وہاں نہ جائے۔

(5) میزبان کے ساتھ حسن سلوک کرنا:حضرت سیدنا مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم !میں کسی شخص کے ہاں جاؤں اور وہ مجھے مہمان بنائے اور مہمان نوازی نہ کرے پھر وہ میرے یہاں آئے تو کیا اس سے بدلہ لوں پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلکہ تم اس کی مہمان نوازی کرو۔(اللہ والوں کی باتیں جلد 7 ص 176)

اللہ پاک ہمیں میزبانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو !آپ کو پتا ہے کہ جیسا کہ مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین دن سے زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس کے بارے میں کچھ حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔  اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین

(میزبان کے لیے دعا کرنا ) ۔عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ کے پاس تشریف لاۓ اور افطار کیا اور فرمایا تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے (ترجمہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھلانے والوں سے فرمایا یعنی اے اللہ جو روزی تو نے انہیں دی ہے اس میں برکتیں عطا فرما انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما ۔

(ترجمہ) اے اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا -- (حوالہ) 47. سنن ابی داودکتاب الاطعمتہ باب فی ادعاء لرب الطعام اذاآکل عندہ جلد5صفحہ661رقم الحدیث3854 48سنن ابی داود جلد5صفحہ560رقم الحدیث3729

49مسندآحمد جلد39صفحہ228رقم الحدیث23809۔

(مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا ) (ترجمہ) نمبر 1 ۔مہمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے (ترجمہ)نمبر2۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔( 51الفتاوی الھندیتہ 52الآثار. صفحہ83)

(میزبان کا کم سے کم وقت لینا)مہمان کو چاہیے کہ میزبان کا کام سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں اسکے بیٹھنے سے میزبان کا کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرےکہ گناہگار کر دے کہ وہ اسکے پاس ٹھہرا رہےاور اس کے پاس اسے پیش کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم آمین


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان زندگی کے تمام مراحل احسن انداز میں گزار سکتا ہے جہاں اسلام نے نماز ،روزہ،حج،وغیرہ کے بارے تعلیمات سے بنی نوع آدم کو باور کرایا وہاں ان امور کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے معاملے میں بھی رہنمائی فرمائی حقوق العباد میں سے ایک اہم پہلو مہمان نوازی اور میزبانی بھی ہے جہاں اسلامی تعلیمات میں ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے ساتھ میزبان کے حقوق کے بارے میں بھی رہنمائی ملتی یعنی جس طرح سے مہمان کے حقوق ہیں اسی طرح سے میزبان کے بھی حقوق ہیں جو کہ مہمان پر لازم ہیں ان میں سے چند ایک میزبان کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں

کھانے کے وقت نا جانا ۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں  کھانا کھانے نہ جائے یعنی کھانے کے وقت کسی کے پاس مہمان بن نہیں جانا چاہئے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہوں۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

میزبان کے گھر بے مقصد نہ رکنا ۔میزبان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جیسے مہمان کھانا کھا لے تو کوشش کرے کہ گھر میں بیٹھنے اور فضول باتوں میں مشغول ہونے سے گریز کرے تاکہ اس کے لئے حَرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕترجمہ کنزالایمان: اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

میزبان کے لیے دعا کرنا ۔مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے لیے اس کا بطور شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کےلیے برکت و وسعت کی دعا کرے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور افطار کیا اور فرمایا تمھارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا،تمھارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا،تمھارے لیے فرشتوں نے دعا کی۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الاطعمۃ،،جلد نمبر5،صفحہ نمبر 661،حدیث نمبر3854)

گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا ۔مہمان کو چاہئے کہ جب بھی کسی میزبان کے ہاں جائے تو اجازت لے کر جائے بے اجازت میزبان کے گھر داخل نہ ہو ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُم

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

آیت کے اس حصے ’’اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ‘‘ سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم ہے اور غیر مردوں کو کسی گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں  یاد رہے کہ یہ آیت اگرچہ خاص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حق میں  نازل ہوئی ہے لیکن اس کاحکم تمام مسلمان عورتوں  کے لئے عام ہے۔

مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا ۔جیسے مہمان کے لیے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب میزبان کے ہاں جائے تو اجازت لے کر جائے ویسے ہی اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ جب واپس جائے تو میزبان سے اجازت لے کر جائے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ (الآثار ،لابی یوسف یعقوب بن ابرہیم الانصاری ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،صفحہ نمبر 83)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت اور احکام اسلامی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ   اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے ۔ سورہ النور آیت نمبر 27

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(27) ترجمہ: کنزالایمان۔ اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور اُن کے ساکِنوں پر سلام نہ کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو۔

تفسیر: صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے گھروں میں جانے کے آداب اور احکام بیان فرمائے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے، چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)

دوسروں کے گھر جانے سے متعلق 3شرعی احکام:

یہاں اس آیت کے حوالے سے 3 شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،

(1)…اس آیت سے ثابت ہوا کہ غیر کے گھرمیں کوئی بے اجازت داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سُبْحَانَ اللہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا اللہ اَکْبَرْ کہے، یا کَھنکارے جس سے مکان والوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی آنا چاہتا ہے (اور یہ سب کام اجازت لینے کے طور پر ہوں ) یا یہ کہے کہ کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ غیر کے گھر سے وہ گھر مراد ہے جس میں غیر رہتا ہو خواہ وہ اس کا مالک ہو یا نہ ہو۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۶ / ۱۳۷، ملخصاً)

(2) …غیر کے گھر جانے والے کی اگر صاحبِ مکان سے پہلے ہی ملاقات ہوجائے توپہلے سلام کرے پھر اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت لے اور اس طرح کہے: السلام علیکم، کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سلام کو کلام پر مُقَدَّم کرو۔( ترمذی، کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰہ، باب ما جاء فی السلام قبل الکلام، ۴ / ۳۲۱، الحدیث: ۲۷۰۸)

(3)… اگر دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں بے پردگی کا اندیشہ ہو تو دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کرے۔ حدیث شریف میں ہے اگرگھرمیں ماں ہوجب بھی اجازت طلب کرے(موطا امام مالک, کتاب الاستءاذن, باب الاستئذان, 2/446, الحدیث: 1847)

ایک بُری رسم۔ایک اور رسم جو ہمارے یہاں بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مدعو کردیا تو وہ اپنے ساتھ بچوں کو بھی ساتھ لے چلتا ہے جبکہ میزبان کی جانب سے فقط ایک فرد کو مدعو کیا گیا تھا، ہم اگرچہ بچے کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ لے جانا چاہ رہے ہیں لیکن پھر بھی بچہ ایک پورا فرد ہے اور یہ آداب کے خلاف ہے کہ بغیر دعوت کے ہم بچے کو بھی ساتھ لے جائیں. ایک روایت میں وارد ہوا ہے جس میں امام فرماتے ہیں: «جب تم میں سے کسی کو کھانے پر مدعو کیا جائے تو اپنے بچے کو ساتھ میں مہمانی پہ نہ ملا لے، اگر کوئی ایسا کرے تو حرام کا مرتکب ہوا اور نافرمانی کرتے ہوئے دعوت میں وارد ہو گا۔[۱۴][۱۵] لیکن اگر کسی محفل میں بچوں کو ساتھ لانے کا تقاضا میزبان کی جانب سے کیا گیا ہو تو بچوں کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں، اس روایت کا مخاطب فقط وہ شخص ہے جسے اکیلے کو دعوت تھی اور وہ بچے کو بھی ساتھ لے گیا۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ کو پتاہے کہ مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہیں کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو تین دن سے زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس  بارے میں کچھ حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ اللہ پاک مجھے حق سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین

(میزبان کے لیے دعا کرنا ) عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ کے پاس تشریف لاۓ اور افطار کیا اور فرمایا تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا اور تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے (ترجمہ) اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھلانے والوں سے فرمایا یعنی اے اللہ جو روزی تو نے انہیں دی ہے اس میں برکتیں عطا فرما انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما ۔ (ترجمہ) اے اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا -) (سننن ابی داودکتاب الاطعمتہ باب فی ادعاء لرب الطعام اذاآکل عندہ جلد5صفحہ661رقم الحدیث3854 ۔ 48سنن ابی داود جلد5صفحہ560رقم الحدیث3729 49مسندآحمد جلد39صفحہ228رقم الحدیث23809)

(مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا )

(ترجمہ) نمبر 1 مہمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے

(ترجمہ)نمبر2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ 51الفتاوی الھندیتہ 52الآثار. صفحہ83

(میزبان کا کم سے کم وقت لینا) مہمان کو چاہیے کہ میزبان کا کام سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں اسکے بیٹھنے سے میزبان کے کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرےکہ گناہگار کر دے کہ وہ اسکے پاس ٹھہرا رہےاور اس کے پاس اسے پیش کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم آمین


پیارے پیارے اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے۔(حدیث )

( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا ۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے

پیارے اسلامی بھائیو پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں :

مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے اس پر خوش ہو۔ میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری) اسی طرح میزبان کے اور بھی کیسی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں ۔

(1) مہمان کو چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو۔

(2) اسی طرح مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیے آزمائش ہو جو میزبان پیش کرے اس پر راضی ہو ۔

(3) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں ۔

(4) اسی طرح یاد رہے کہ آپ مہمان ہیں مالک نہیں کھانے کا انتظار کریں جب میزبان کہے تب شروع کریں خود شروع نہ ہو کھانے کی تعریف کریں الحمدللہ ماشاءاللہ کہہ کر حوصلہ افزائی کریں اگر کھانا نہ بھی پسند ائے پھر بھی ہلکا پھلکا ضرور لیں ۔

(5) یاد رکھیں کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو کرنے سے پرہیز کریے کوشش کے اس کی باتوں سے کسی کی دل آ زاری نہ ہو۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔اور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(امین)


دینِ اسلام نے جہاں مہمان کے حقوق کا ذہن دیا وہیں میزبان کو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کیسے کرنی ہے کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے خاطر تواضع کیسی کرنی ہے مہمان کا اعزاز و اکرام کیسے کرنا ہے جب مہمان آتا ہے استقبال کیسے کرناہےہمارا اسلام تنگ دلی ، بے رخی، سرد مہری اور کڑھن کا مظاہرہ نہیں سیکھاتا۔

میزبان اپنے مہمان کی طبیعت کے مطابق اپنی میزبانی کا حق ادا کرے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ علیه الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہِ عالیہ کاشانۂ اقدس میں مہمان حاضر ہوتے تو پیارے آقا صلی اللہ علیه وآلہ وسلم خود بنفس نفیس میزبانی فرماتے ان کی خاطر داری فرمایا کرتے۔ جیسا کہ

(1)…حضرت ابو رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان بنا ، اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں  کہ (میرے پاس مہمان آیا ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  آسمان میں بھی امین ہوں  زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا یا بیچ دیتا تو میں  ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری زرہ لے جاؤ (اور اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں  وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللہ بن قسیط عن ابی رافع ج1 / ص331، الحدیث: 989، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع،ج1/ص 241 الحدیث: 865، ملتقطاً)

(2)مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوااور بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کےگھروں میں تشریف لے گئے ،پھر باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں  میں  تیرے لئے کوئی چیز نہیں  ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے)آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسےدیہاتی کےسامنے رکھ دیا گیا۔

تاجدارِرسالت صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےاس سے فرمایا :تم کھاؤاس نے کھایا، پھر عرض کی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی تکلیف پہنچی تو اللہ پاک نےآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے مجھے رزق دےدیااگرپھر کبھی ایسا ہو اورمیں آپ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوں تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو :’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحمَتِکَ فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘ اے اللّٰہ!میں  تجھ سے تیرےفضل اورتیری رحمت کا سوال کرتاہوں کیونکہ فضل و رحمت کاصرف تو ہی مالک ہے۔‘‘تو بےشک اللہ پاک تجھے رزق دینے والا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)

بعدِ وصالِ ظاہری میں بھی میزبانی فرمانا۔شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حُسن و جمال، دافعِ رنج و ملال بی بی آمنہ کےلال صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کا اپنی حیاتِ ظاہری میں تو میزبانی فرماتے ہی تھے مگر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے درِ اقدس پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت ابو الخیر حماد بن عبداللہ اقطع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےشہر (مدینہ منورہ) میں  داخل ہوا اور (اس وقت) میں فاقے کی حالت میں  تھا، میں  نے پانچ دن قیام کیا اور اتنے دن میں  کھانے پینےکی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا(بالآخر)میں قبرِ انور کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اورمُسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرتِ سیدنا عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کی بارگاہ میں  سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان ہوں پھر میں اپنی جگہ سےہٹ کر منبرِاقدس کے پیچھے سو گیا تو میں  نے خواب میں نبئ پاک صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی مسلمانوں کے پہلےخلیفہ جنابِ حضرت سیدنا ابوبکر آپ کے دائیں  طرف، اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کے بائیں طرف اور مسلمانوں کے چوتھےخلیفہ جنابِ حضرتِ سیدنا علیّ المرتضیٰ شیرِخداکَرَّمَ اللہ وَجہَہُ الکَرِیم آپ علیه الصلٰوۃ والسلام کے سامنے تھے، مُسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیم  نے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں میں کھڑے ہوکر بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں  آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےمجھےایک روٹی عطا فرمائی تو میں نےآدھی روٹی کھا لی،پھر میں  خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ دمشق،ابوالخیرالاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱)

یہ واقعہ علامہ ابن عساکر  علیه الرحمہ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحمَۃُاللہ عَلَیہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر، علامہ عمر بن علی شافعی علیه الرحمہ  نے طبقاتِ اولیا،ص192/191پر اورعلامہ ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین علیه الرحمہ نےطبقاتِ صوفیہ ص 281پر بھی ذکر فرمایاہے۔

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا یعنی مہمانوں  کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے مہمانوں  کے ساتھ بُرا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ج3ص69 / 106، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ:69، ص 585 ملتقطاً)

مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کےاحترام میں  میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں  کوئی مہمان آیاہوتو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی اُس کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقارقائم رہےاورمہمان کی بےعزتی کرنےیاکوئی ایساکام کرنےسے بچے جس سےمہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیزمیزبان کےلئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔

دعا ہے کہ اللہ کریم اپنے محبوبِ کریم ﷺ کی پیاری پیاری میزبانی کے صدقے ہمیں بھی شریعت و سُنّت کے مطابق میزبانی کا شرف پانے کی سعادت نصیب فرمائے رکھے آمین ۔

فاقہ کشی بھی ہو پر اتنا تَو دے مجھے

شرمندگی نہ ہو کسی مہماں کے سامنے


پیارے پیارے اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے۔(حدیث )

( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا تو مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے

پیارے اسلامی بھائیو! پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں :

مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے ۔اس پر خوش ہو میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے ۔اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری)

اسی طرح میزبان کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں ۔

(1)جب انسان کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جزِ دین ہے۔

(2) اسی طرح مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیےآزمائش ہو جو میزبان پیش کرے اس پر راضی ہو ۔

(3) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں ۔

(4)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔

(5) یاد رکھیں کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو کرنے سے پرہیز کریں کوشش کرکے اس کی باتوں سے کسی کی دلا زاری نہ ہو۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔

اور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔

(اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ مہمان نوازی کرنے یو عطا فرمائے۔)

(امین)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے۔(حدیث )

( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا تو مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے کہ ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے

پیارے اسلامی بھائیو! پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا ۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں واجب ہیں :مہمان کو جہاں میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے ۔اس پر خوش ہو میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے ۔اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری)

اسی طرح میزبان کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ عرض کرتے ہیں ۔

(1) مہمان کو چاہیے کہ ہمیشہ خیر سگالی اور اظہار محبت کے لیے اپنی حیثیت استطاعت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ میزبان کے لیے ضرور لے کر جائیں تاکہ میزبان خوش ہو۔

(2) اسی طرح مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیےآزمائش ہو جو میزبان پیش کرے اس پر راضی ہو

(3) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھنے کےاور بعض لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں ۔

(4) اسی طرح یاد رہے کہ آپ مہمان ہیں مالک نہیں ،کھانے کا انتظار کریں جب میزبان کہے تب شروع کریں خود شروع نہ ہوں کھانے کی تعریف کریں الحمدللہ ماشاءاللہ کہہ کر حوصلہ افزائی کریں اگر کھانا نہ بھی پسند ائے پھر بھی ہلکا پھلکا ضرور لیں ۔

(5) یاد رکھیں کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو کرنے سے پرہیز کریں کوشش کرکے اس کی باتوں سے کسی کی دلا زاری نہ ہو۔

ان کے علاوہ بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔اور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(امین)


الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہماری ہر معاملے میں رہنمائی فرماتا ہے زندگی کیسے اور کس طرح گزارنی ہے اس حوالے سے بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے جس طرح اسلام نے ہماری دیگر معاملات میں رہنمائی کی ہے وہیں پر میزبان کے حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کی ہے آئیں اس بارے میں کچھ احادیث مبارکہ سنتے ہیں

(1) میزبان کو گنہگار نہ کرنا: حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کر دے ۔ (شعب الایمان مترجم ص 601 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز) (المسلم)

(2) نخرے یا شکوے نہ کرنا: محترم مہمان کو بلاوجہ نخرے یا شکوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ ہی کھانے پینے والی چیز میں کیڑے نکالنے چاہیے ۔(شعب الایمان مترجم ص 601 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز)

(3) فرمائش اور جستجو نہ کرنا: حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کها پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔(شعب الایمان مترجم ص 600 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز)

(4) میزبان کا دل تنگ نہ کرنا:حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا مہمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ دل کر دے ۔(شعب الایمان مترجم ص 600 نوریہ رضویہ پبلی کیشنز) (المسلم)

(5) بن بلائے مہمان نہ بننا: حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص بن بلائے کسی کے پاس کھانے کی نیت سے جائے گا وہ گنہگار ہوگا اور جو کھائے گا وہ حرام کھائے گا اگر اتفاقا کھانے کے وقت جا پہنچے تو کہے بغیر نہ کھائے ۔(کیمیائے سعادت ص 181 باب معاملات مکتبہ رحمانیہ)

(6) میزبان کے کھانے سے دریغ نہ کرنا: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی کہ تکلف سے بچو اور جو حاضر ہوا اس سے دریغ نہ کرو ۔(کیمیائے سعادت ص 182 باب معاملات مکتبہ رحمانیہ)