آصف علی (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مہمان کی جیسی
عزت کی جاتی ہے ویسے ہی مہمان کو میزبان کی
عزت کرنی چاہیے ۔میزبان کی دل آزاری نہ کی جائے اس کے لیے دعا کی جائے ۔بن بلائے
دعوت پر نہ جایا جائے چنانچہ حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم
روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت اس
نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ۔ ایک شخص ان افراد کے پیچھے آ گیا ۔ جب دروازے پر
پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میزبان سے فرمایا یہ شخص ہمارے پیچھےآگیا
ہے اگر تم چاہو تو اجازت دو اور اگر چاہو تو لوٹا دو۔ میزبان نے عرض کیا ۔ یا رسول
اللہ میں نے اُسے اجازت دے دی۔(مسلم - کتاب الاطعم ص-862- حدیث ۔ 5309)
(1)
میزبان کے لیے دعا ۔حضرت سیدنا ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو
اسے چاہیے کہ قبول کرے۔اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لئے )دعا کرے اور
اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھالے-(مسلم کتاب النکاح ص، 576, حدیث 352)
2
; حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میزبانی : جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار
بار فرماتے اور کھائیے اور کھا ئیے اور جب مہمان خوب آسوده ہو جاتا اور انکار کرتا
تو تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے ۔ (ایمان کی شاخیں شعب الایمان مترجم)
3
; بغیر اجازت نہ جانا : ایک مرتبہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کافر آیا اس کے لیے بکری کا دودھ لایا گیا وہ
سارا کا سارا پی گیا اس کے بعددوسری بکری پھر تیسری حتی کے سات بکریوں کا دودھ پی
گیا مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا برا نہ منایا، اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور سو گیا ۔ رات کو بستر
پر پاخانہ کر دیا شرم کے مارے صبح اٹھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم سے
اجازت لیے بغیر نکل گیا راستے میں پہنچا تو اسے خیال آیا کہ میں اپنی تلوار بھول آیا
ہوں تلوار لینے کیلئے واپس گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے۔ کہ امام الانبیاء حبیب کبریا
صلی اللہ علیہ وسلم اس کی غلاظت کو خود صاف فرمارہے ہیں۔ اس عادت کریمہ کو دیکھ کر
ا کر اس سے رہا نہ گیا فوراً کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں آگیا۔( ایمان کی شاخیں
شعب الایمان مترجم )
4
; سخاوت کرنا: حضرت سید نا ملحان
طائی رحمہ اللہ تعالی علیہ سے منقول ہے حاتم طائی کی زوجہ "نوار" سے کہا
گیا : ہمیں حاتم طائی کےمتعلق کچھ بتاؤ ۔ اس نے کہا: حاتم طائی کا ہر کام عجیب تھا۔ ایک مرتبہ قحط
سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آسمان سے پورا سال بارش نہ ہوئی۔ بھوک
اور کمزوری نے دودھ پلانے والیوں کو دودھ پلانے سے روک دیا۔ اونٹ سارا سارا دن پانی
کی تلاش میں پھرتے لیکن انہیں ایک قطرہ پانی نہ ملتا۔ ہر ذی روح بھوک و پیاس سے بے
تاب تھا۔ ایک رات سردی نے اپنا پور ازور دکھا رکھا تھا اور ہمارے گھر میں کھانے کے
لئے ایک لقمہ بھی نہ تھا۔ ہمارے بچے عبداللہ ،عدی ، اور سفانہ بھوک سے بلبلا رہے
تھے۔ واللہ (اللہ کی قسم ) ہمارے پاس انہیں
دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ بچوں کی آوو بکا سن کر ایک کو حاتم طائی اور دوسرے کو
میں نے گود میں اٹھالیا ، ہم انہیں کافی دیر تک بہلاتے رہے۔ لیکن بھوک نے ان کا
برا حال کر رکھا تھا-بالآخرت کافی دیر بعدتھک ہار کر دونوں بچے سو گئے ۔ ہم نے انہیں
ایک چٹائی پرلٹا دیا پھر تیسرے کو بہلانے لگے بالآخر وہ بھی سو گیا۔ حاتم طائی نے
کہا : آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟ پھر وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ رات کی
سیاہی کو آسمان پر چمکنے والے ستارے دور کر رہے تھے جنگلی جانوروں کے چیخنے کی
آوازیں فضا میں بلند ہو رہی تھیں ۔ ہر چلنے والا مسافر ٹھہر چکا تھا ، با ہر کسی کی آہٹ سنائی دی، حاتم طائی نے بلند
آواز سے کہا:” کون ہے؟" لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔میں نے کہا
:"ہمارے ساتھ یا تو کسی نے مذاق کیا ہے یا کوئی دھو کہ ہونے والا ہے ۔ میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس
آئی تو حاتم طائی نے پوچھا:کون ہے؟ میں نے کہا: آپ کی فلاں پڑوسن ہے، اس کڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا
جس کے پناہ لیتی ۔ اپنے بھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے خود اس طرح
بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چھینتے ہیں۔ یہ سن کر حاتم طائی نے کہا : اسے
جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ میں نے کہا : ہمارے اپنے بچے بھوک سے مرے جا رہے ہیں، انہیں
دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچوں کی ہم کیا مدد
کریں گے؟ حاتم طائی نے کہاں " خاموش رہو، اللہ تعالٰی ضرور تمہارا اور ان سب
کا پیٹ بھرے گا۔ جاؤ! جلدی سے اس دکھیاری ماں کو اندر بلا لاؤ۔ میں اسے بلالائی ۔
اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے
اس طرح آرہے تھے جیسے مرغی کے بچے مرغی کے گرد جمع ہو کر چلتے ہیں۔ حاتم طائی نے
انہیں کمرے میں بٹھایا اور گھوڑے کی طرف بڑھا، برچھی سے گھوڑا ذبح کر کے آگ جلائی
گئی۔
جب شعلے بلند ہونے لگے تو چھری لے کر گھوڑے کی
کھال اتاری پھر اس عورت کی طرف چھری بڑھاتے ہوئے کہا : " کھاؤ! اور اپنے بچوں
کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا: " تم بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی جگا دو تا کہ وہ
بھی اپنی بھوک مٹا سکیں ۔ ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گوشت کھا رہی تھی اس کی جھجک کو
محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا: کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان ہو کر تھوڑا
تھوڑا کھارہی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا۔ ہم سب کھانے میں مصروف
تھے اور حاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا لیکن بخدا!
حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ (عیون
الحکایات، حصہ دوم، ص:241)