اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان زندگی کے تمام مراحل احسن انداز میں گزار سکتا ہے جہاں اسلام نے نماز ،روزہ،حج،وغیرہ کے بارے تعلیمات سے بنی نوع آدم کو باور کرایا وہاں ان امور کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے معاملے میں بھی رہنمائی فرمائی حقوق العباد میں سے ایک اہم پہلو مہمان نوازی اور میزبانی بھی ہے جہاں اسلامی تعلیمات میں ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے ساتھ میزبان کے حقوق کے بارے میں بھی رہنمائی ملتی یعنی جس طرح سے مہمان کے حقوق ہیں اسی طرح سے میزبان کے بھی حقوق ہیں جو کہ مہمان پر لازم ہیں ان میں سے چند ایک میزبان کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں

کھانے کے وقت نا جانا ۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں  کھانا کھانے نہ جائے یعنی کھانے کے وقت کسی کے پاس مہمان بن نہیں جانا چاہئے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰـكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہوں۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

میزبان کے گھر بے مقصد نہ رکنا ۔میزبان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جیسے مہمان کھانا کھا لے تو کوشش کرے کہ گھر میں بیٹھنے اور فضول باتوں میں مشغول ہونے سے گریز کرے تاکہ اس کے لئے حَرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕترجمہ کنزالایمان: اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

میزبان کے لیے دعا کرنا ۔مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے لیے اس کا بطور شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کےلیے برکت و وسعت کی دعا کرے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے اور افطار کیا اور فرمایا تمھارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا،تمھارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا،تمھارے لیے فرشتوں نے دعا کی۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الاطعمۃ،،جلد نمبر5،صفحہ نمبر 661،حدیث نمبر3854)

گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا ۔مہمان کو چاہئے کہ جب بھی کسی میزبان کے ہاں جائے تو اجازت لے کر جائے بے اجازت میزبان کے گھر داخل نہ ہو ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُم

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔(الاحزاب:آیت نمبر 53)

آیت کے اس حصے ’’اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ‘‘ سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر پردہ لازم ہے اور غیر مردوں کو کسی گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں  یاد رہے کہ یہ آیت اگرچہ خاص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حق میں  نازل ہوئی ہے لیکن اس کاحکم تمام مسلمان عورتوں  کے لئے عام ہے۔

مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا ۔جیسے مہمان کے لیے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب میزبان کے ہاں جائے تو اجازت لے کر جائے ویسے ہی اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے کہ جب واپس جائے تو میزبان سے اجازت لے کر جائے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔ (الآثار ،لابی یوسف یعقوب بن ابرہیم الانصاری ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،صفحہ نمبر 83)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت اور احکام اسلامی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم