محمد
عبداللہ حسین (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان کنزالایمان رائیونڈ ، پاکستان)
میزبان کے
حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب
سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور
ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے
دعا کرنا وغیرہ اللہ تعالی قرآن پاک میں
فرماتا ہے ۔ سورہ النور آیت نمبر 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا
بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى
اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(27) ترجمہ: کنزالایمان۔ اے ایمان والو اپنے گھروں کے
سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور اُن کے ساکِنوں پر سلام نہ
کرلو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان
والو!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے گھروں میں جانے کے آداب اور احکام بیان
فرمائے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے،
چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو
اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا
کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)
دوسروں کے گھر جانے سے متعلق 3شرعی احکام:
یہاں اس آیت کے حوالے سے 3 شرعی احکام ملاحظہ ہوں ،
(1)…اس آیت سے
ثابت ہوا کہ غیر کے گھرمیں کوئی بے اجازت
داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بلند آواز سے سُبْحَانَ اللہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا اللہ اَکْبَرْ کہے، یا کَھنکارے جس سے مکان
والوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی آنا چاہتا
ہے (اور یہ سب کام اجازت لینے کے طور پر ہوں ) یا یہ کہے کہ کیا مجھے اندر آنے کی
اجازت ہے۔ غیر کے گھر سے وہ گھر مراد ہے جس میں غیر رہتا ہو خواہ وہ اس کا مالک ہو یا نہ ہو۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ:
۲۷، ۶ / ۱۳۷،
ملخصاً)
(2) …غیر کے
گھر جانے والے کی اگر صاحبِ مکان سے پہلے ہی ملاقات ہوجائے توپہلے سلام کرے پھر
اجازت چاہے اور اگر وہ مکان کے اندر ہو تو سلام کے ساتھ اجازت لے اور اس طرح کہے:
السلام علیکم، کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سلام کو کلام پر مُقَدَّم کرو۔( ترمذی،
کتاب الاستئذان والآداب عن رسول اللّٰہ، باب ما جاء فی السلام قبل الکلام، ۴ / ۳۲۱، الحدیث: ۲۷۰۸)
(3)… اگر دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں بے پردگی کا اندیشہ ہو تو دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب کرے۔ حدیث شریف میں ہے اگرگھرمیں ماں ہوجب بھی اجازت طلب کرے(موطا
امام مالک, کتاب الاستءاذن, باب الاستئذان, 2/446, الحدیث: 1847)
ایک
بُری رسم۔ایک اور رسم جو ہمارے یہاں
بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مدعو کردیا تو وہ اپنے ساتھ بچوں
کو بھی ساتھ لے چلتا ہے جبکہ میزبان کی جانب سے فقط ایک فرد کو مدعو کیا گیا تھا،
ہم اگرچہ بچے کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ لے جانا چاہ رہے ہیں لیکن پھر بھی بچہ ایک
پورا فرد ہے اور یہ آداب کے خلاف ہے کہ بغیر دعوت کے ہم بچے کو بھی ساتھ لے جائیں.
ایک روایت میں وارد ہوا ہے جس میں امام فرماتے ہیں: «جب تم میں سے کسی کو کھانے پر
مدعو کیا جائے تو اپنے بچے کو ساتھ میں مہمانی پہ نہ ملا لے، اگر کوئی ایسا کرے تو
حرام کا مرتکب ہوا اور نافرمانی کرتے ہوئے دعوت میں وارد ہو گا۔[۱۴][۱۵] لیکن اگر کسی محفل میں بچوں کو ساتھ لانے کا
تقاضا میزبان کی جانب سے کیا گیا ہو تو بچوں کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں،
اس روایت کا مخاطب فقط وہ شخص ہے جسے اکیلے کو دعوت تھی اور وہ بچے کو بھی ساتھ لے
گیا۔