محمد مبین رمضان (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو جس طرح اسلامی تعلیمات نے ہمیں مہمان کے حقوق کے بارے میں تعلیمات دی
ہیں اسی طرح میزبان کے بھی بہت سارے حقوق بیان کیے ہیں دورِ اولین میں مہمان کے لیے
پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جائے اجازت لے کر جائے اور اس کے پاس زیادہ دن
نہ رہے۔(حدیث )
( مہمان کو میزبان کے گھر زیادہ دن نھیں
ٹھہرنا چاہیے ۔)آپ صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مہمان کو میزبان کے گھر تین دن سے زیادہ نہیں
ٹھہرنا چاہیے اگر وہ ٹھہرا تو اس کے لیے صدقہ ہوگا تو مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
بھائی کے ہاں اتنی دیر مہمانی میں نہ رہے کہ وہ میزبان کو گناہ میں ڈال دے صحابہ
کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیادہ دیر مہمانی پر رہنے
سے میزبان کو کون سے گناہ میں ڈالتے ہیں؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا اس طرح کہ اس کے ہاں مہمان اتنی دیرٹھہر ا رہے ہیں کہ اس کے پاس مہمان کے لیے
خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہ بچے
پیارے اسلامی
بھائیو! پتا چلا کہ میزبان کے ہاں تین دن سے زیادہ دن نہیں ٹھہرنا چاہیے اگر ٹھہرا
تو مہمان کے لیے صدقہ ہوگا۔ اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مہمان پر چار چیزیں
واجب ہیں :
مہمان کو جہاں
میزبان بٹھائے وہاں بیٹھے ۔میزبان جو کھانے کے لیے پیش کرے اس کو قبول کرے ۔اس پر
خوش ہو میزبان کی اجازت کے بغیر نہ اٹھے ۔اور مہمان کے رخصت کے وقت وہ میزبان کو دعا دے۔( فتاوی عالمگیری)
اسی طرح میزبان
کے اور بھی کئی حقوق ہیں جن میں سے کچھ
عرض کرتے ہیں ۔
(1)جب انسان
کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول
کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش
رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے
لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جزِ دین ہے۔
(2) اسی طرح
مہمان کو چاہیے کہ زیادہ چیزوں کا اصرار نہ کرے جو میزبان کے لیےآزمائش ہو جو میزبان
پیش کرے اس پر راضی ہو ۔
(3) مہمان کو
چاہیے کہ وہ میزبان کے گھر کے روایات کا احترام کرے کوشش کرے کہ میزبان کی روایات
کے مطابق چلے بسا اوقات لوگ جلد سونے کے عادی ہوتے ہیں صبح جلد اٹھتے ہیں اور بعض
لوگ تہجد کے وقت ہی اٹھ جاتے ہیں تو مہمان کو چاہیے کہ ان کے مطابق چلنے کی کوشش
کریں ۔
(4)نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا،
تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں
ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں
ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب
بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی
نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔
(5) یاد رکھیں
کہ گھر میں عموما مختلف عمر اور مختلف مزاج کے میزبان ہوتے تو ان کے مزاج کا خیال
رکھیں اور اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو
کرنے سے پرہیز کریں کوشش کرکے اس کی باتوں سے کسی کی دلا زاری نہ ہو۔
ان کے علاوہ
بھی بہت سی اعلی روایات اور عادات ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیے لیکن
اگر ان پر عمل کر لیا جائے تو یقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے
اور گھر کے بچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتظر رہیں گے۔
اور اگر ان پر
عمل نہ کیا جائے تو شاید وہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے نہ آنے کی دعا کریں ۔
(اللہ پاک ہمیں
مہمان نوازی کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ مہمان
نوازی کرنے یو عطا فرمائے۔)
(امین)