دینِ اسلام نے جہاں مہمان کے حقوق کا ذہن دیا وہیں میزبان کو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کیسے کرنی ہے کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے خاطر تواضع کیسی کرنی ہے مہمان کا اعزاز و اکرام کیسے کرنا ہے جب مہمان آتا ہے استقبال کیسے کرناہےہمارا اسلام تنگ دلی ، بے رخی، سرد مہری اور کڑھن کا مظاہرہ نہیں سیکھاتا۔

میزبان اپنے مہمان کی طبیعت کے مطابق اپنی میزبانی کا حق ادا کرے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ علیه الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہِ عالیہ کاشانۂ اقدس میں مہمان حاضر ہوتے تو پیارے آقا صلی اللہ علیه وآلہ وسلم خود بنفس نفیس میزبانی فرماتے ان کی خاطر داری فرمایا کرتے۔ جیسا کہ

(1)…حضرت ابو رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان بنا ، اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں  کہ (میرے پاس مہمان آیا ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  آسمان میں بھی امین ہوں  زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا یا بیچ دیتا تو میں  ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری زرہ لے جاؤ (اور اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں  وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللہ بن قسیط عن ابی رافع ج1 / ص331، الحدیث: 989، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع،ج1/ص 241 الحدیث: 865، ملتقطاً)

(2)مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوااور بھوک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کےگھروں میں تشریف لے گئے ،پھر باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں  میں  تیرے لئے کوئی چیز نہیں  ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے)آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسےدیہاتی کےسامنے رکھ دیا گیا۔

تاجدارِرسالت صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےاس سے فرمایا :تم کھاؤاس نے کھایا، پھر عرض کی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی تکلیف پہنچی تو اللہ پاک نےآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے مجھے رزق دےدیااگرپھر کبھی ایسا ہو اورمیں آپ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوں تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو :’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحمَتِکَ فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘ اے اللّٰہ!میں  تجھ سے تیرےفضل اورتیری رحمت کا سوال کرتاہوں کیونکہ فضل و رحمت کاصرف تو ہی مالک ہے۔‘‘تو بےشک اللہ پاک تجھے رزق دینے والا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)

بعدِ وصالِ ظاہری میں بھی میزبانی فرمانا۔شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حُسن و جمال، دافعِ رنج و ملال بی بی آمنہ کےلال صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کا اپنی حیاتِ ظاہری میں تو میزبانی فرماتے ہی تھے مگر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے درِ اقدس پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت ابو الخیر حماد بن عبداللہ اقطع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےشہر (مدینہ منورہ) میں  داخل ہوا اور (اس وقت) میں فاقے کی حالت میں  تھا، میں  نے پانچ دن قیام کیا اور اتنے دن میں  کھانے پینےکی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا(بالآخر)میں قبرِ انور کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اورمُسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرتِ سیدنا عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کی بارگاہ میں  سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آج کی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان ہوں پھر میں اپنی جگہ سےہٹ کر منبرِاقدس کے پیچھے سو گیا تو میں  نے خواب میں نبئ پاک صَلَّی اللہ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی مسلمانوں کے پہلےخلیفہ جنابِ حضرت سیدنا ابوبکر آپ کے دائیں  طرف، اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیه وآلہ وسلم کے بائیں طرف اور مسلمانوں کے چوتھےخلیفہ جنابِ حضرتِ سیدنا علیّ المرتضیٰ شیرِخداکَرَّمَ اللہ وَجہَہُ الکَرِیم آپ علیه الصلٰوۃ والسلام کے سامنے تھے، مُسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیم  نے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں میں کھڑے ہوکر بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں  آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےمجھےایک روٹی عطا فرمائی تو میں نےآدھی روٹی کھا لی،پھر میں  خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ دمشق،ابوالخیرالاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱)

یہ واقعہ علامہ ابن عساکر  علیه الرحمہ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحمَۃُاللہ عَلَیہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر، علامہ عمر بن علی شافعی علیه الرحمہ  نے طبقاتِ اولیا،ص192/191پر اورعلامہ ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین علیه الرحمہ نےطبقاتِ صوفیہ ص 281پر بھی ذکر فرمایاہے۔

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا یعنی مہمانوں  کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے مہمانوں  کے ساتھ بُرا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ج3ص69 / 106، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ:69، ص 585 ملتقطاً)

مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کےاحترام میں  میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں  کوئی مہمان آیاہوتو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی اُس کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقارقائم رہےاورمہمان کی بےعزتی کرنےیاکوئی ایساکام کرنےسے بچے جس سےمہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیزمیزبان کےلئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔

دعا ہے کہ اللہ کریم اپنے محبوبِ کریم ﷺ کی پیاری پیاری میزبانی کے صدقے ہمیں بھی شریعت و سُنّت کے مطابق میزبانی کا شرف پانے کی سعادت نصیب فرمائے رکھے آمین ۔

فاقہ کشی بھی ہو پر اتنا تَو دے مجھے

شرمندگی نہ ہو کسی مہماں کے سامنے