مہمان کو چاہیے کہ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے ، جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔ اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے. مہمان کو چاہیے کہ بن بلائے دعوت پر نہ جائے ۔ جس سے اس کو تکلیف ہو۔ اور میزبان کے ہاں اتنا نہ بیٹھے کہ اس کے لیے خرچ اور تکلیف کا سبب   ہو۔ میزبان کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن بیوقوف مہمان اس بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے کہ میزبان نے یہ جتنا اہتمام کیا ہے اسے رخصت کے وقت اس کو ساتھ لے جانے کے لیے دے دے۔جہاں مہمان کے حقوق ہیں وہی میزبان کے بھی حقوق ہیں۔

آئیے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔

1 ؛ میزبان کے ہاں دیر تک نہ ٹھہرنا ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتناقیام کرے کہ اسے گناہ گار کر دے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہ گار کرے گا ؟تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے۔ (ایمان کی شاخیں ،ص، 601)

2 ؛ فرمائش نہ کرنا :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان بن کر) جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔( شعب الایمان، ایمان کی شاخیں ،ص ، 600 ) (طبرانی)

3 ؛ میزبان کے لیے دعا کرنا.حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو (میزبان کے لیے ) دعا کرے اور اگر روزہ نہ ہو تو کھانا کھالے ۔(مسلم ، کتاب النکاح ، باب الامر باجابة الداعی الی دعوۃ ، ص576 ،حدیث :3520)

4 ؛ آخر تک بیٹھنا ۔روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تاآنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراة المناجیح ج ،6، ص 75،حدیث 4069 )

5 ؛ دعوت قبول کرنا ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی دعوت قبول کرے اس کے دل میں خوشی داخل کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یعنی جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الامر با جابة الداعي إلى دعوة الحديث :1432،ص750)

6 ؛ بغیر دعوت کے نہ جانا :کسی کے ہاں بغیر دعوت (یعنی بن بلائے ) نہیں جاناچاہیے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :من مشى إلى طَعَامٍ لم يُدْع الَيْهِ مشی فا سِقًا و اكل حراما یعنی جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا ۔(مسندابی داؤد الطیالسی، الحدیث : 2332، ص306 )

7 ؛ میزبان کی غیبت نہ کرنا : مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی غیبت مت کرے ۔ اس کے کھانے کی برائی بیان نہ کرے ۔حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے ، لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہ آیا۔ ایک شخص بولا وہ موٹا بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمۃ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے : افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس(یعنی بیٹھک/ دعوت) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین ( اور بروایت دیگر سات) دن تک کھانا نہ کھایا۔( تنبيه الغافلين ،ص،89)