محمد عبدالله چشتی (درجۂ سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ
زار لاہور، پاکستان)
عربی زبان میں
مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو مضیف، اردو اصطلاح میں میزبان سے مراد وہ شخص
ہے جو کسی کی ضیافت کا اہتمام کرے، مثلا جو مہمان کا خیال رکھے اسے کھانے پینے اور
آرام کا سامان مہیا کرے۔ دین اسلام ہمیں جہاں بہت ساری باتوں کا درس دیتا ہے وہیں
ہمارا پیارا دین میزبان کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔
اکثر اوقات ہم
مہمان نوازی کے حقوق کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں آئیں آج ہم میزبان کے حقوق کے
بارے میں بات کرتے ہیں کہ مہمان پر میزبان کے کیا کیا حقوق ہوتے ہیں ، جن کا ہمیں
دعوت قبول کرتے وقت اور دعوت پر جاتے وقت خیال رکھنا چاہیے ہم یہاں کچھ حقوق پر
گفتگو کرتے ہیں:
1۔ جب میزبان
آپ کو دعوت دے تو قبول کریں اور جو ٹائم دیا ہے کوشش کر کے اسی وقت پر جانے کی ترکیب
بنائیں۔
2۔ کوئی بھی
اسلامی بھائی بغیر بلائے دعوت میں نہ جائے ، دعوت دیے جانے پر گیا ہے تو پھر بلا
اجازتِ میزبان اپنے ساتھ کسی اور اسلامی بھائی کو لے کر نہ جائے ،اور بعض دفعہ تو
ایسا موقع ہوتا ہے کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا
ہوتا ہے، ایسی صورت میں بغیر بلائے مہمان میزبان کیلئے آزمائش کھڑی کر دیتے ہیں۔
3۔ میزبان
اپنے گھر میں جہاں مہمان کو بٹھا دے وہیں بیٹھ جائے اس کے گھر تاکا جھانکی کرنے سے
بچے اور اس کے گھر کی ترتیب اور اشیاء میں نقص نہ نکالے۔
4۔ مہمان
کھانا کھاتے وقت کسی آ جانے والے شخص کو دعوتِ طعام نہ دے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ
مہمان کھانے کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ اس طرح کسی کو بھی کھانے کیلئے نہیں کہہ
سکتا۔
اور دوسرا یہ
کہ مہمان نہیں جانتا کہ میزبان کے پاس آنے والے شخص کیلئے کھانا ہے بھی یا نہیں۔
5۔ میزبان کے
بنائے گئے کھانے میں نقص نہ نکالے اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو چپ رہیں جو بھی پسند
ہے اس میں کوئی چیز کھالیں اور اسی طرح میزبان کے گھر سے واپس آ کر اس کی چیزوں،
گھر کی ترتیب اور کھانے میں نقص نہ نکالے اس میں غیبت میں پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے
اور اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا گویا اس کا مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
6۔ جب کسی کے
ہاں مہمان جائیں تو موسم کے مطابق کوئی پھل یا کوئی اور چیز لےکر جائیں اس طرح آپ
کے میزبان کے دل میں خوشی پیدا ہوگی اور وہ آپ سے خوش ہوگا اور اس کو خوش کرنے کی
برکت سے اللہ پاک آپ کو بھی خوشیاں عطا کرے گا۔
7۔ مہمان جب میزبان
کے گھر جائے تو میزبان کی اچھی بات ہی بیان کرے اگر ان کی برائی دیکھے تو برائی بیان
نہ کرے بلکہ صبر کرے۔
8۔میزبان کے
ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرا جائے، ہر کسی کی اپنی زندگی ہے اور اپنی اپنی مصروفیات ہوتی
ہیں ، میزبان کو آزمائش میں نہ ڈالا جائے جتنی جلدی ہو سکے واپس آ جانا چاہیے۔
اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے دلوں میں خوشیاں داخل
کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں حقوق العباد احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھی توفیق
دے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
عباس رضوی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
الحمد لله عز
وجل ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان پر چند علوم سیکھنا فرض ہے جنہیں ہم فرض علوم کا
نام دیتے ہیں۔
ان میں سے چند
علوم یہ بھی ہیں جیسا کہ کاروبار کے مسائل سیکھنا ۔ عقائد کے مسائل سیکھنا اور اگر
شادی شدہ بھی ہے تو بیوی بچوں کے حقوق و مسائل سیکھنا جہاں پر یہ علوم سیکھنا فرض
ہے وہیں ہم پر میزبان کے حقوق سیکھنا بھی فرض ہے ، میزبان کے چند حقوق درج ذیل ہیں۔
(1)
دوست کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کھانا*
۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آدمی
اپنے دوست کے گھر جائے اور اس کی غیرموجودگی
میں بیٹھ کر کھاۓ یہ اس
صورت میں ہے جب اسے یقین ہو کہ دوست اس کے کھانے سے خوش ہو گا۔(احیاء علوم الدین
13/2 مکتبہ المدینہ)
(2)
میزبان پر لازم ہے ۔میزبان پر یہ
بھی لازم ہے کہ وہ مہمان کو بیت الخلا
دکھا دے تاکہ بوقت ضرورت آسانی رہے ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں و مترجم ج 1 ص
434 مکتبہ المدینہ)
(3)
دیر تک بیٹھا ۔روایت ہے حضرت ابن
عمر سے فرماتے ہیں ۔ فرمایا حضرت محمد نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص
نہ اٹھے تا آنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو
جائے۔ (مراۃ المناج شرح مشکوۃ المصابیح
جلد6 ص 75)
(4)
دعوت میں غیبت نہ کرنا ۔حضرت سیدنا
ابراہیم بن ادہم کہیں کھانے کی دعوت پر
تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا ۔ ایک شخص بولا
وہ موٹا تو بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادم اپنے آپ کو ملامت کرتے
ہوئے فرمانے لگے۔ افسوس میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی
مجلس میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف
لے گئے اور (اس سے صدمے) میں تین (اور بروایت دیگر سات) دن تک کھانا نہ کھایا۔ تنبیہ الغافلین ص (89) (غیبت کی تباہ کاریاں)
(5)
دعوت قبول کرنا ۔سرکار مکہ مکرمہ
سلطان مدینہ منورہ نے ارشاد فرمایا. اگر مجھے بکری کے پاۓ کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔(صحیح
بخاری کتاب الھبہ ٫ باب القلیل من الھبہ ،الحدیث 2568 ص202)
عمر رضا
(درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
پیارے مسلمان
بھائیو! ہم زندگی میں اکثر مرتبہ اپنے
دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر مہمان بن کر جاتے ہیں لیکن کسی کے ہاں مہمان بن کر
جانا برا کام نہیں ہے لیکن شریعت اسلامیہ نے جس طرح مہمان کے حقوق بیان کیے اس طرح ہی میزبان کے حقوق بیان کیے ہیں
(1)
زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔مہمان کو چاہیے
کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لیے حرج اور تکلیف کا سبب
نہ ہو۔ (تفسیر صراط الجنان جلد:8، ص73
مکتبہ المدینہ )
(2)
حساب نہیں ہوگا۔ حضرت سیدنا جعفر بن محمد علیہ رحمتہ اللہ الصمد فرماتے ہیں
جب تم دسترخوان پر اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھو تو زیادہ دیر بیٹھو کیونکہ یہ ساعتیں
تمہاری عمر میں شمار نہیں ہوتیں (یعنی ان کا حساب نہیں ہوگا)(احیاء العلوم جلد 2
صفحہ 30 مکتبۃ المدینہ )
(3)
کھانے کی فرمائش نہ کرنا ۔مہمان کو
چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے
جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سنت ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی مصطفی
جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔صحیح مسلم کتاب الفضائل باب
مباعدتہ صلی اللہ علیہ وسلّم( اللاثام ۔۔۔الخ، الحدیث:2327 ص 1270,1271
(4)
شرعی مسئلہ ۔نفل روزہ بلا عذر توڑ
دینا جائز ہے مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان
اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر
ہے بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور ضحوہ کبری (یعنی زوال) سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں
دعوت کے سبب ضحوہ کبری سے پہلے نفل روزہ توڑ سکتا ہے جب دعوت کرنے والا محض اس کی
موجودگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو
کہ بعد میں رکھ لے گا لہذا اب روزہ توڑ لے اور اس کی قضا رکھے لیکن اگر دعوت کرنے
والا محض اس کی موجودگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے نفل روزہ
زوال کے بعد ماں ماں باپ کی ناراضی کے سبب
توڑ سکتا ہے اور اس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔ (فیضانِ ریاض
الصالحین ج 6 ص 186مکتبہ المدینہ)
(5)
روزے کا عذر ۔مروی ہے کہ کسی نے
دعوت پر روزے کا عذر کیا تو حُسن اَخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: تیرے بھائی نے تیرے لیے اہتمام کیا اور تو کہتا ہے میں روزے
دار ہوں۔(سنن دار قطنی ,کتاب الصیام )
محمد عثمان
عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃالمدینہ فیضان جمال مصطفیٰ واڑہ گجراں
لاہور ، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہمیں ایسا دین اسلام عطا فرمایا جو ایک مکمل دین ہے
اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہماری اصلاح کا سامان کرتا
ہے- دین اسلام میں ہر شخص کے حقوق کو بیان فرمایا گیا چاہے کوئی استاد ہو یا شاگرد
، شوہر ہو یا بیوی ، والدین ہوں یا اولاد ، مہمان ہو یا میزبان الغرض ہر صاحب حقوق
کے حقوق کو بیان فرمایا -
دین اسلام میں
جس طرح مہمان کے میزبان پر جو حقوق ہیں اسے قرآن وحدیث میں بالتفصیل بیان فرمایا
اسی طرح میزبان کے جو حقوق مہمان پر ہیں انہیں بھی با لتفصیل بیان فرمایا -
ہمارے معاشرے
میں میزبان کے حقوق کی طرف اس قدر توجہ نہیں دی جاتی جس قدر توجہ مہمان کے حقوق پر
دی جاتی ہے حالانکہ یہ دونوں چیزیں ہی اہمیت کی حامل ہیں - اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
میزبان کے درج
ذیل حقوق ہیں جنہیں قرآن وحدیث میں بیان فرمایا گیا-
1- مہمان میزبان
کی دعوت کو قبول کرے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ
صَائِمًا، فَلْيُصَلِّ، وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا، فَلْيَطْعَمْ» (صحیح مسلم،كِتَابُ النِّكَاحِ،بَابُ
الْأَمْرِ بِإِجَابَةِ الدَّاعِي إِلَى دَعْوَةٍ،حدیث نمبر 3520) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ
دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے۔
لہٰذا جب بھی
مہمان کو دعوت دی جائے تو خوش دلی سے قبول کرے
2- مہمان جب میزبان
کے گھر پر جاۓ تو سب سے پہلے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرے - چنانچہ اللّہ پاک
نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ
تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ النور الآیۃ
27)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو
جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں رہنے والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر
ہے تاکہ تم نصیحت مان لو۔
اس آیت کریمہ
کا شانِ نزول یہ ہے: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے،
چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو
اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا
کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ سب سے پہلے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرے میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں اجازت لینے کا
طریقہ بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا چنانچہ حضرت ربیع سے روایت ہے قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مَنْ بَنِي عَامِرٍ
أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ
فِي بَيْتٍ، فَقَالَ: أَلِجُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: >اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الِاسْتِئْذَانَ
فَقُلْ لَهُ: قُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ. فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ،
فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ.(سنن ابی داؤد ،كِتَابُ النَّومِ،بَابُ كَيْفَ الِاسْتِئْذَانُ،حدیث
نمبر5177)
ترجمہ: کہ بنو
عامر کے ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی جبکہ آپ ﷺ گھر کے اندر تھے ۔ اور اس
نے کہا : ” کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ “ تو نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا ”
اس کی طرف جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا ادب سکھاؤ اسے کہو کہ ( اس طرح ) کہے : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی تو بولا : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اسے اجازت دے دی اور
وہ اندر آ گیا ۔
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ پہلے سلام کرے پھر تین مرتبہ اجازت طلب کرے اگر اجازت مل جائے تو گھر
میں داخل ہو وگرنہ واپس لوٹ جاۓ-
بعض اوقات ایسا
ہوتا ہے کہ جب بندہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو آواز آتی ہے کون؟ تو آگے سے دروازہ
کھٹکھٹانے والا کہتا ہے”میں“ ایسا نہیں کہنا چاہیے بلکہ یا تو اپنا نام بتائیں
مثلاً محمد عثمان حاضر ہوا ہوں یا کوئی مشہور کنیت کو ذکر کریں جس سے صاحب خانہ
پہچان لیں-
3- مہمان میزبان
کے پیش کردہ کھانے میں عیب نہ نکالے - مہمان کو چاہیئے کہ میزبان جو بھی کھانا پیش
کرے تو صبر و شکر کے ساتھ تناول کرے اس میں اگرچہ کوئی عیب ہو اسے بیان نہ کرے کیونکہ
ہوسکتا ہے اس سے میزبان کو تکلیف ہو اور کسی مسلمان کو تکلیف دینا کبیرہ گناہ ہے -
چنانچہ مشہور تابِعی بزرگ حضرت مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
جہنّمیوں پرخارش مُسلّط کردی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّی کہ ان میں
سے ایک کی (کھال اور گوشت اُترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اُسے پکارکر کہا جائے
گا:اے فُلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا:
تُو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔(احیاء العلوم،ج2،ص242)
اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے کہ آپ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے قَالَ: «مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، إِنْ رَضِيَهُ، أَكَلَهُ، وَإِلَّا
تَرَكَهُ»(سننِ ابن ماجه،كِتَابُ
الْأَطْعِمَةِ،بَابُ النَّهْيِ أَنْ يُعَابَ الطَّعَامُ،حدیث نمبر3259)ترجمہ:انہوں
نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے
ورنہ چھوڑ دیتے۔
اور میزبان کو
بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کا سوال نہ کرے جس سے مہمان جھوٹ میں مبتلا ہو مثلاً کھانا
کیسا بنا؟ اب مہمان تو یہی کہے گا کہ اچھا بنا ہےاب اگر مہمان کو کھانا اچھا نہیں
لگا تو یہ جھوٹ ہوجاۓ گا -
لہٰذا میزبان
کو بھی حتی الامکان اس طرح کے سوالات سے بچنا چاہیے -
4- مہمان تین
دن سے زائد میزبان کے گھر نہ رہے کیونکہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میزبان آزمائش میں
مبتلا ہو جائے نبی کریم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کی مدت تین دن بیان فرمائی
چنانچہ عَنْ
أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ
قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ
جَائِزَتَهُ قَالُوا وَمَا جَائِزَتُهُ قَالَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ
ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَمَنْ كَانَ
يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ (سنن ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ
وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ إِلَى كَمْ هِيَ،حدیث نمبر1967)
ترجمہ : ابوشریح
عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ یہ حدیث بیان فرمارہے تھے تو میری
آنکھوں نے آپ کو دیکھا اورکانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: جوشخص اللہ اوریوم
آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ، صحابہ
نے عرض کیا: مہمان کی عزت وتکریم اورآؤ بھگت کیاہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن اورایک
رات ، اورمہمان نوازی تین دن تک ہے اورجو اس کے بعدہووہ صدقہ ہے ، جوشخص اللہ اوریومِ
آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے -
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ان مذکورہ حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
فیضان حیدر (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ضیافت و مہمان
نوازی تمام انبیاء و رسل اور اولیاء و صلحا کا طریقہ رہا ہے سیدنا ابراہیم خلیل
الله علیہ السلام کے متعلق آیا ہے کہ عموما اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک
ان کے پاس کوئی نہ کوئی مہمان نہ آ جاتا تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرشتے انسانی
شکل میں آپ کے پاس آئے تو آپ نے بچھڑا بھون کر ان کی ضیافت آئے میزبان کے حقوق کے
بارے میں کچھ ملاحظہ کرتے ہیں
(1)
میزبان کو تکلیف سے بچانا :- کسی
آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کر
دے ۔ عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا۔ تو
فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش
کرے ( شعب الایمان ، مترجم ، ص601 مكتبه نوریه رضویه)
(2)
میزبان سے کسی چیز کی فرمائش نہ کرے :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے
پاس (مہمان بن کر جائے) تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے
متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے(کتاب، شعب الایمان ، مترجم ص 600 مكتبه نوريه رضویه)
3)
میزبان کو صلہ دینا :- حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کو صلہ دو۔ صحابہ نے پوچھا کیا صلہ دیں یا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب آدمی اپنے بھائی کے ہاں جائے اور وہاں
کھائے پیئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے یہ اس کا صلہ ہے۔ (مکتبہ نوریہ
رضویه ،شعب الایمان، مترجم ، ص 598 )
4) میزبان کے پاس زیادہ دیر رکنے کی ممانعت مہمان کیلئے یہ درست نہیں کہ وہ کسی کے ہاں اتنا
ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ دل کر دے (شعب الایمان ، مترجم میں 600 مکتبہ نور به رضویه)
5)
خوش کرنا :- صاحب خانہ گھر پر نہ
ہو اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو آگے بڑھ کر کھانا کھائے ۔
(کتاب ، لباب الاحیاء مترجم )(ص، (133) مكتبة المدينة قرآن و آحادیث میں میزبان کے
جو حقوق بیان فرمائے گئے ہیں اللہ تعالٰی اس پر عمل کرنے اور
دوسری تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تجمل حسین (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اسلام دین
فطرت ہے.اس نے ہماری ہر معاملے میں رہنمائی کی ہے. اسلام نے ہمیں لوگوں کے حقوق
ادا کرنے کا حکم دیا ہے. اسلام نے ہر مسلمان کے حقوق بیان کیے ہیں خواہ وہ شوہر ہو
یا باپ،حاکم ہو یا محکوم الغرض اسلام نے سب کے حقوق مقرر کیے ہیں. اسی طرح دین
اسلام نے میزبان کے بھی کچھ حقوق مقرر کیے ہیں جو کہ مہمان پر لازم ہیں. آئیے میزبان
کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں:
(1)
مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرنا ۔ مہمان
کو چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان
پر دشوار ہوتا ہے. (احیاء العلوم،جلد 2،ص 37)
(2) اگر میزبان
دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر
آسان ہو کہ یہی سنت ہے. (احیاء العلوم،جلد 2،ص 38)
(3) نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے مہمان کا استقبال دروازے سے باہر نکل
کر کرے اور رخصت کے وقت گھر کے دروازے تک پہنچائے. (ایمان کی شاخیں،ص 495)
(4) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور
کھائیے اور کھائیے اور جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا تو تب آپ اصرار
سے رک جاتے.(ایمان کی شاخیں،ص 496)
(5) نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان
بن کر) جائے تو اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال
کرے،نہ فرمائش کرے اور نہ کوئی جستجو کرے.(ایمان کی شاخیں،ص 496)
اللہ عزوجل ہمیں
ان حقوق کو بجالانے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم
صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
جس طرح مہمان
کے میزبان کے ذمے حقوق ہیں اسی طرح میزبان
کے مہمان کے اوپر بھی حقوق ہیں۔ زندگی میں تقریبا ہر انسان کو کسی نہ کسی کا مہمان بننے کا موقع ملتا ہے۔ مگر جب بھی کسی کے ہاں مہمان بن کر جانا ہو۔ تو
ایسا انداز اختیار کیا جاۓ کہ میزبان دوبارہ مہمان بنانے کی خواہش کرے۔ نہ
کہ یہ میزبان کے لئے ضرر کا سبب بنے اور وہ اس کی وجہ تکلیف میں مبتلا ہو۔ اور ایسے
ہی مہمان کو چاہئے کہ اس کے عیوب کو
دوسروں پر ظاہر نہ کرے۔ کیونکہ مہمان نوازی سے خوش نہ ہوکر میزبان کے عیبوں کا
اظہار کرنے اور اس کی برائی بیان کرنے والوں کے بارے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
لَا یُحِبُّ
اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
سَمِیْعًا عَلِیْمًا۔ (سورۃ النساء,آیت: 148) ترجمۂ کنز العرفان:- بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر
مظلوم سے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق تفسیرِ صراط
الجنان میں ہے:۔ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے
اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا۔
تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفتی
صاحب آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: اس سے
ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے
اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں
اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا
بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں
بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ
فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے
باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع
ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے
حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں
مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ
!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا
کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس
کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(تفسیرِ صراط
الجنان سورۃ النساء تحت آیۃ: 148)
یہاں مہمان کے
لئے میزبان کے حقوق سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابۂ و
تابعین اور یگر بزرگانِ دین کے انداز اور فرامین کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں:۔
(1)۔۔میزبان
کی دعوت قبول کرنا:- جب بھی کوئی
دعوت پر بلاۓ تو ممکن ہو تو اس کی دعوت کو رد نہ کیا جائے ۔کیونکہ
جس طرح دعوت دینے والے کے فقر اور کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے انکار کرنا منع ہے ایسے
ہی سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے دعوت قبول کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اگر
عادتاً یہ سفر ممکن ہو تو انکارکرنا مناسب نہیں۔
بعض آسمانی کتابوں میں مذکور ہےکہ’’ایک میل چل
کر مریض کی عیادت کرو،دومیل چل کر جنازہ میں شرکت کرو،تین میل چل کردعوت میں جاؤ
اور چار میل چل کر(رضائے الٰہی کے لئے) اپنے مسلمان بھائی کی زیارت(اور اس سے
ملاقات) کرو۔‘‘
دعوت قبول کرنے اور ملاقات کرنے کومریض کی عیادت
کرنے اور جنازے میں حاضر ہونے پر فضیلت دی گئی ہے کیونکہ اس میں زندہ کے حق کو
پورا کرنا ہے جو کہ میّت سے اولیٰ ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 138)چنانچہ،
محسن کائنات،فخرموجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعِ الْغَمِیْمِ
لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے مقامِ غَمِیْم میں بھی بکری کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں
قبول کروں گا۔(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
غَمِیْم ‘‘مدینہ سے کئی میل دور ایک جگہ کا نام
ہے۔(صحيح البخاری ، کتاب المغازی ، باب مقام النبی بمکة زمن … الخ ، ۳ / ۱۰۶، الحديث : ۴۲۹۸، ۴۲۹۷)
دعوت قبول کرنے کا حکم:- (عام طور
پر)دعوت قبول کرنا سنّتِ مؤَ کدہ ہے۔ البتہ، بعض مواقع پر واجب بھی کہا گیا
ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 136)
چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ وَلَوْ
اُھْدِیَ اِلَیَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی
جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفۃً دیا جائے تو میں
قبول کروں گا۔‘‘(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
دعوت قبول کرنے کے آداب:- دعوت قبول کرنے میں امیر وغریب کا فرق ملحوظِ
خاطر نہ ہو کہ یہ تکبر ہے جو کہ ممنوع ہے۔اسی وجہ سے بعض لوگوں نے سرے سے ہی دعوت
قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا:’’ شوربے کا انتظار ذلت ہے۔‘‘ بعض نے کہا
کہ’’اگر میں اپنا ہاتھ دوسرے کے پیالے میں ڈالوں تو گویامیں نے اس کے سامنے اپنی
گردن جھکا دی۔‘‘بعض متکبرین صرف اغنیا کی دعوت قبول کرتے ہیں فقرا کی نہیں یہ
خلافِ سنت ہے کہ پیارے مصطفٰے صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے۔(سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب رقم :
۳۲، ۲ / ۳۱۱، الحديث : ۱۰۱۹ قوت القلوب لابی طالب المکی ، ۲ / ۳۱۲)(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ:138,137)
دعوت قبول نہ کرنے کی صورتیں: اگر کھانا شبہ والا ہویادعوت مغصوبہ(غصب کی گئی)
زمین میں ہویا بچھائی جانے والی چٹائی حلال نہ ہویا اُس جگہ کوئی ناجائز کام
ہو۔مثلاً :چٹائی کی جگہ ریشم کا کپڑا بچھایا گیا ہو یا برتن چاندی کے ہوں یا چھت یا
دیوار میں جاندار کی تصویر لگی ہو یاموسیقی کی محفل سجی ہویا ناجائز کھیل تماشا ہو
یا جھوٹ، غیبت، چغلی اور بہتان وغیرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہویا اس کے علاوہ کوئی بھی
ناجائز کام ہو تو ان سب صورتوں میں دعوت قبول نہیں کرنی چاہئے۔یہ تمام کام دعوت کو
مستحب ہونے سے نکال کر حرام ومکروہ کی طرف لے جاتے ہیں۔یونہی اگر دعوت دینے والا
ظالم، بدعتی، فاسق یا شریر ہو یا فخرو مباہات کے طور پر دعوت کرتا ہوتو بھی دعوت
قبول نہیں کرنی چاہئے۔(احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ: 140)
(2)....
میزبان کے پاس ٹھہرنے کی مدت:- مہمان
کو چاہئے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر واپس نہ لوٹے اور وہاں رکنے میں بھی اس کے دل
کی رعایت رکھے(کہ اگر وہ دلی طور پر خوش ہو اور مکان وسیع ہوتو ٹھہرے ورنہ لوٹ
جائے)۔نیز جب بھی کسی کے ہاں بطورِمہمان جائے تو تین دن سے زیادہ نہ ٹھہرے کہ بعض
اوقات زیادہ رکنے میں میزبان کو پریشانی ہوتی ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور
ہوجاتا ہے(یعنی کوئی ایساحیلہ اختیارکرتا ہے کہ مہمان چلاجائے)۔نیز مہمان نوازی تین
دن تک ہی سنت ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 155,156)چنانچہ
سرکار عالی
مقام ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام
کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت
تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی
کہ اسے تنگ کردے۔
مرآۃ المناجیح
میں ہے:اگر صاحب خانہ خود ہی بخوشی روکے تو رک جانے میں حرج نہیں (کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
اسی سے متعلق ایک اور مقام پر فرمایا:- مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے مسلمان
بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ اُسے
گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ! وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے پاس
مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
میزبان کی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت:- اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف
نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی
فرماتے ہیں:مہمان کے لیے کسی شخص کے پاس تین دن سے زِیادہ ٹھہرکر اُسے گُناہ میں
مبتَلاکردیناجائزنہیں ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے زِیادہ قِیام کی وجہ
سے میزبان اُس کی غیبت کرنے لگتا ہے یا ایسے کام کرتا ہے جس سے مہمان کو اَذِیَّت
پہنچتی ہےیا میزبان،مہمان کےمُتعلِّق بدگمانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کااِرشادہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ( پ۲۶ ، الحجرات :۱۲) ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ اُس
وَقت ہے جب خود میزبان مہمان سے زیادہ قِیام کے لیے نہ کہے اور جب میزبان خودمہمان
سے زِیادہ قِیام کی خواہش کرےیامہمان کو( کسی قَوِی قرینے سے) اِس کا عِلم یا
گُمان ہوکہ اس کا ٹھہرنامیزبان کو برا نہیں لگے گا تو تین دن سے زیادہ میں کوئی
حرج نہیں کیونکہ مُمانَعت اِس وجہ سے تھی کہ اُس کے زِیادہ قیام کی وجہ سے میزبان
گناہ میں مبتلا ہو جائے گا اوریہ وجہ خَتْم ہوچکی ہےاور اگر مہمان کو شک ہو کہ پتا
نہیں میزبان اِس کے زِیادہ قِیام پر خوش ہے یا نہیں؟تو اِس حدیث کے ظاہِر کی وجہ
سے میزبان کی اِجازت کے بِغیراِس کا زِیادہ قِیام کرنا جائز نہیں ہے۔(کتاب:فیضان ریاض
الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(3)۔
میزبان سے فرمائش کرنا:- مہمان: کو
چاہئے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے۔ اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار
کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہوکہ یہی سنت ہے۔ (احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ:
128)
چنانچہ، مروی
ہے کہ جب بھی مصطفٰے جان رحمت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔(صحيح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب مباعدته صلی الله عليه وسلم للاثام … الخ ، الحديث : ۲۳۲۷، ص۱۲۷۱، ۱۲۷۰)
البتہ مخصوص
کھانے کی فرمائش اس صورت میں منع ہے جب میزبان پرمطلوبہ چیز پیش کرنا دشوار ہو یا
اسے نا گوارگزرے۔ البتہ، اگر یقین ہو کہ میزبان فرمائش سے خوش ہوگا اور مطلوبہ چیز
پیش کرنا اس کے لئے آسان ہے تو پھر فرمائش کرنے میں حرج نہیں۔ (احیاء العلوم جلد,2 صفحہ : 129)
(4)۔۔۔
مہمان کو بچا ہوا کھانا لے کر جانا :- مہمانوں
کو بچا ہوا کھانا لے جانے کی اجازت نہیں۔ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام
(دین میں)اسے لغزش شمار کرتے ہیں۔البتہ، اگر صاحبِ خانہ بخوشی اجازت دے دے یا ایسا
قرینہ پایا جائے جس سے اجازت سمجھی جارہی ہو تو لے جا سکتے ہیں اور اگرگمان ہو کہ
اسے ناپسند ہوگا تو لے جانا مناسب نہیں اگرچہ اس نے اجازت دے دی ہو۔ اگر میزبان کی
رضا مندی معلوم ہو تو بھی اپنے رفقا کے ساتھ عدل و انصاف ضروری ہے کہ جب تک دوسرا
رفیق اپنا حصہ نہ نکال لے اس وقت تک نہ لے، اگر وہ خوش دلی سے اجازت دے تولےسکتا
ہے اور اگر شرم و حیا کی وجہ سے اجازت دےتو لینے میں پہل نہ کرے۔ (احیاء العلوم
جلد,2 صفحہ: 153)
(5)۔۔۔
مہمان کے لیے آداب" صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔
(بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)(5)...
کھانے میں کسی قسم کا عیب نہ لگاۓ اگر پسند آئے تو کھا لے ورنہ چھوڑ دے۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
” رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
کبھی کسی کھانے کو عیب نہ لگایا، پسند آیا تو تناول فرمالیا پسند نہ آیاتوچھوڑ دیا۔(کتاب:فیضان
ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:736)
مہمان کے لئےاچھی نیتیں! …
کسی کے ہاں مہمان بننے سے مقصود صرف پیٹ کی خواہش پوری کرنا نہ ہو کہ اس طرح یہ دنیاوی
کام ہو گا بلکہ چاہئے کہ کوئی اچھی نیت کرلے تاکہ یہ بھی دینی کام ہو جائے۔مثلاً :
.…سنّت پر عمل کی نیت سے دعوت قبول کرے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے
تو میں قبول کروں گا۔(صحيح البخاری
، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۴۵۵ / ۳، الحديث : ۵۱۷۸)
..…اپنے
مسلمان بھائی کی بات مان کر اس کے اِکرام کی نیت کرے کہ مصطفٰے جان رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ مَنْ اَکْرَمَ اَخَاہُ الْمُؤْمِنَ فَکَاَنَّمَا اَکْرَمَ
اللہ یعنی جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی گویا
اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا اکرام کیا۔‘‘ ( المعجم الاوسط ، ۲۴۲ / ۶، الحديث : ۸۶۴۵ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ، ۲۳۰ / ۲، الرقم : ۲۸۷، بحر بن کنيز السقاء )
..…اس کے ساتھ
ساتھ اپنے بھائی کی زیارت کی نیت کرے تاکہ رضائے الٰہی کی خاطر محبت کرنے والوں میں
ہو جائے کیونکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
اس(یعنی کسی سے ملاقات کے معاملے) میں دو چیزوں کوشرط قرار دیا ہے:(۱)…رضائے الٰہی کی خاطر ہو اور(۲)…مال وغیرہ خرچ کرنا پایا جائے۔(الموطا امام مالک ، کتاب الشعر ، باب ماجاء فی المتحابين فی الله ، ۴۳۹ / ۲، الحديث : ۱۸۲۸)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اچھا
مہمان بننے اور میزبان کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد محسن محسنی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام
کامل و اکمل اور مکمل ضابطہ حیات ہے دین اسلام نے جس طرح والدین اساتذہ اور اولاد
کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح میزبان کے
حقوق بیان کیے چنا نچہ آپ بھی میزبان کے 5
حقوق پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجیے ۔
(1)
اپنی بیٹھائی گئی جگہ پر بیٹھنا : مہمان کو چاہیے کہ اس کو جہاں بٹھایا جائے وہاں
بیٹھے۔ميزبان کے دل کو مایوس نہ کیجئے ۔ (
بہار شریعت جلد : 3 ،حصہ 16 ،صفحہ نمبر : 397 )
(2)
کھا نے میں عیب نہ نکالنا : جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس پر خوش ہو یا
نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے
دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں کہا کرتے ہیں۔ ( بہار شریعت
جلد :3 ، حصہ : 16 ، صفحہ نمبر :397 )
(3) بغیر اجازت نہ اٹھتا : بغیر اجازتِ صاحب خانہ وہاں سے نہ اٹھے۔ اگرچہ
کھانا کھا چکا ہو۔ جس کی وجہ سے اس کی دل آزاری نہ ہو۔ نہ اس کے گھر سے بغیر اجازت
جائے۔ ( بہار شریعت جلد 3 ،حصہ : 16 ، صفحہ نمبر: 397 )
(4)
میزبان کے لیے دعا کرنا : جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔
میزبان کو چاہیے
کہ مہمان کی خاطر داری میں مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ
حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سنت
ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے
مروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے
میں مشغول ہو۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔(
بہار شریعت جلد نمبر: 3 ،حصہ نمبر: 16 ،صفحہ نمبر: 397 )
(5)
دعوت میں شرکت کے آداب : (1) اگر
مہمان رات گزارنے کے لیے آئے تو میزبان اسے قبلہ ، قضائے حاجت اور وضو کی جگہ بتا
دے کہ حضرت سیدنا امام مالک رحمتہ الله تعالٰی علیہ نے حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ
تعالیٰ علیہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا ۔
(2) اگرمیزبان
عزت کرتے ہوئے اسے بلند جگہ بیٹھنے کا اشارہ کریں تو عاجزی کرے کیونکہ حدیث مبارکہ
میں ہے کہ مجلس میں ادنی جگہ پر بیٹھنا بھی اللہ کے لیے عاجزی کرنا ہے۔
( 3) اہل خانہ کو نہ تو زیادہ انتظار کرائے اور
نہ ہی تیاری سے قبل حاضر ہو۔
( 4)جس طرف سے
کھانا لایا جا رہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کہ یہ حرص کی علامت ہے۔
(5) گھر میں
داخل ہو کر کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ عاجزی اپنائے۔
(احیاء العلوم
جلد نمبر : 2 ،صفحہ نمبر : 52 )
اختتامیہ :
مہمان کو چاہیے
کہ میزبان کا ادب کرے ۔اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اس کے بغیر بلانے پر نہ
آئے کہ جس کی وجہ سے اس کی دل آزاری نہ ہو۔ اللہ ہم سب کو میزبان کے ساتھ بھلائی کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔آمین
سید علی شاہ (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دعوت قبول
کرنے میں امیر و غریب کا فرق ملحوظ خاطر نہ ہو کہ یہ تکبر ہے جو کہ ممنوع ہے۔ اس
وجہ سے بعض لوگوں نے سرے سے ہی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: "
شوربے کا انتظار ذلت ہے۔ بعض نے کہا کہ ”اگر میں اپنا ہاتھ دوسرے کے پیالے میں
ڈالوں تو گویا میں نے اس کے سامنے اپنی گردن جھکا دی۔ بعض متکبرین صرف اغنیا ءکی
دعوت قبول کرتے ہیں فقرا کی نہیں یہ خلاف سنت ہے کہ پیارے مصطفى صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسلم غلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے۔
مہمان کو بچا ہوا کھانا لے جانا کیسا (1) مہمانوں کو بچا ہوا کھانا لے جانے کی اجازت نہیں۔ صوفیائے
کرام منظم الله السلام (دین میں ) اسے لغزش کرتے ہیں۔ البتہ اگر صاحب خانہ کو ئی
اجازت دے دے یا ایسا قرینہ پایا جائے جس سے اجازت سمجھی جارہی ہو تو لے جاسکتے ہیں
اور اگر گمان ہو کہ اسے نا پسند ہو گا تو لے جانا مناسب نہیں اگر چہ اس نے اجازت
دے دی ہو۔ اگر میزبان کی رضا مندی معلوم ہو تو بھی اپنے رفقا کے ساتھ عدل و انصاف
ضروری ہے کہ جب تک دو سرا رفیق اپنا حصہ نہ نکال لے اس وقت تک نہ لے ، اگر وہ خوش
دلی سے اجازت دے تو لے سکتا ہے اور اگر
شرم و حیا کی وجہ سے اجازت دے تو لینے میں پہل نہ کرے۔ احیاءالعلوم جلد 2 صفحہ
نمبر 62
(2)
میزبان اگر اشارہ کرے۔اگر میزبان
کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں
ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اسے تشویش ہو گی۔ احیاءالعلوم
جلد نمبر 2 صفحہ نمبر52
(3)
کھانے کی طرف نہ دیکھنا۔جس طرف سے
کھانالا یا جارہا ہو اس جانب بار بار نہ دیکھے کیونکہ یہ حرص کی علامت ہے۔ احیاءالعلوم
جلد نمبر 2 صفحہ نمبر ۵۲
عبدالمنان
عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
جو میزبان کی
مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام
کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی
پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے
تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟
میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی
اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی
طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی
مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ
اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا
رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں
کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو
گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم،
کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص951، الحدیث: 15(1826)
(1)مخصوص
کھانے کی فرمائش نہ کرنا:مہمان کو
چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان کسے اختیار کرے
جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سمجھ آتا ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی
مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو
آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔ (صحیح مسلم
کتاب الفضائل باب صلی اللہ علیہ والہ وسلم للاثام۔۔الخ،الحدیث،2327،ص1271,1270)
(2)اذیت نہ دینا۔نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان
نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت
ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا
رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوۂ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد
ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور
اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد
عصر نہیں ۔(الدرالمختار ‘‘ و ’’ ردالمحتار ‘‘ ، کتاب الصوم، فصل في العوارض،
ج 3 ، ص 575 ۔ 477۔ و ’’ الفتاوی الھندیۃ ‘‘ ، کتاب
الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج 1، ص 208)
(3)بوجھ
نہ بننا۔مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے
میزبان پر بوجھ نہ بن جائیں نیز ایسی فرمائش بھی نہ کریں جس کو میزبان پورا نہ کر
سکے ہاں اگر یہ معلوم ہے کہ فرمائش کرنا میزبان پر بوجھ نہیں ہوگا بلکہ اس سے میزبان
خوش ہوگا تو اب اپنی پسند کا کھانا وغیرہ مانگنے میں حرج نہیں۔ جیسا کہ کیميائے سعادت میں ہے کہ حضرت سیدنا
امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بغداد معلّی میں حضرت سیدنا زعفرانی رحمۃ اللہ
تعالی علیہ کے دولت خانے پر بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے زعفرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
روزانہ مختلف قسم کے کھانوں کی فہرست باورچی کے حوالے کر دیتے ایک دن سیدنا امام
شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس فہرست میں ایک قسم کا کھانا بڑھا دیا اور اس پر
دستخط فرمادیا جب زعفرانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایک کنیز کے ہاتھ میں وہ تحریر
دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور شکرانے میں اس کنیز کو آزاد کر دیا۔(فیضان
سنت،ص823،مکتبۃ المدینہ)
عیب
نہ لگانا ۔اعلی حضرت امام اہل سنت
مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کھانے میں عیب نکالنے کے متعلق
فرماتے ہیں کھانے میں عیب لگانا اپنے گھر پر بھی نہ چاہیے مکروہ ہے سرکار دو عالم
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی عادت کریمہ یہ تھی کہ پسند آیا تو تناول فرما لیا
ورنہ نہیں اور پرائے گھر عیب لگانا تو اس میں مسلمان کی دل شکنی ہے اور اس کمال
حرص بے مروتی پر دلیل ہے
(ریاض الصالحین
ج، 6،ص181، مکتبۃالمدینہ)
میزبان کے پانچ حقوق از بنت راجہ واجد حسین، ھدی للناس اکیڈمی راولپنڈی
جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے
مہمان کا احترام کرے، مہمان کا احترام یہ
ہے کہ اسے مسکرا کر اچھی طرح ملے۔اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پرمسرت محسوس
کرتے ہیں، مہمان کو زحمت نہیں رحمت اور برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مہمان کو ایذا
نہ دیں جب کوئی
مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر
آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ (گھر والے) کے گناہ بخشے جانے
کا سبب ہوتا ہے، حدیث پاک میں ہے: جس نے نماز قائم
کی، زکوة ادا کی، حج کیا رمضان کے روزے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کی وہ جنت
میں داخل ہوگا۔ (معجم کبیر، 12/136، حدیث: 12692)
میزبان کے حقوق:
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کو
چار باتیں ضروری ہیں: 1۔ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے 2۔
جو کچھ اسکے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش
ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے گھر ہی کھایا کرتا ہوں یا اس قسم
کے دوسرے الفاظ3۔ میزبان سے اجازت لیے بغیر وہاں سے نہ اٹھے 4۔ جب وہاں سے جائے
تو اس کےلیے دعا کرے۔ (بہار شریعت، 3/349)
گھر یا کھانے وغیرہ کے معاملے میں مہمان کسی قسم کی
تنقید کرے نہ جھوٹی تعریف کرے۔ میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے
خطرے میں ڈالنے والےسوالات نہ کرے، مثلاً کہنا کہ ہماراگھر کیسا لگا؟ یا کہا:
ہمارا کھانا آپکو پسند آیا یا نہیں؟ ایسے موقع پر اگر پسند نہ ہونے کے باوجود
مہمان مروت میں گھر یا کھانے کی جھوٹی تعریف کرےگا تو گناہگار ہوگا۔
میزبان اسطرح کا سوال بھی نہ کرے کہ آپ نے پیٹ بھر
کر کھایا یا نہیں؟ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ
کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کےباوجود
اصراروتکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑجائے
کہ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے۔
حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساتھی کم کھاتا ہو تو رغبت دلاتے ہوئے
اس سے کہے : کھائیے! لیکن تین
بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیونکہ یہ اصرار کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا۔
میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چائیے
اور یہ بھی نہ کرنا چائیے کہ کھانا
رکھ کر غائب
ہو جائے
بلکہ وہاں حاضر رہے میزبان کو چائیے کہ مہمان
کی خاطر داری میں خود مشغول ہو خادموں کے ذمے اسکو نہ چھوڑے، مہمان کی آؤ بھگت
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔
حضرت امام غزالی فرماتے ہیں: جو شخص کم خوراک ہو جب
وہ لوگوں کے ساتھ کھائے تو کچھ دیر بعد کھانا شروع کرے اور چھوٹے لقمے
اٹھائے
اور آہستہ کھائے
تاکہ آخر تک لوگوں کا ساتھ دے سکے۔ اگر کسی نے اس لیے جلدی ہاتھ روک لیا تاکہ
لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا ہو اور اسکو بھوک سے کم کھانے والا تصور کریں تو
ریاکار اور عذاب کا حقدار ہے۔ اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے
ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے
گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس
صورت میں بھی کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہےجبکہ اتنی ہی زیادتی ہو جس سے معدہ
خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
اللہ پاک ہمیں سنت کو اپنانے اور مہمان کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق دے۔ آمین
مہمان نوازی کی دین اسلام میں بڑی قدر و منزلت ہے،
مگر آج کے پرفتن دور میں مسلمان اس صفت سے عاری ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب تو بہت کم
لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو مہمان کا اکرام اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے
ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اس صفت سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔ میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! آئیے
مہمان اور میزبان کے بارے میں جانتی ہیں۔ عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور
میزبان کو مضیف کہتے ہیں جبکہ اردو زبان میں میزبان کہتے ہیں مہمان داری کرنے
والا دعوت کرنے والا یا مہمان کو کھانا
کھلانے والا۔
دین اسلام بہت پیارا دین ہے جہاں میزبان پر مہمان
کے حقوق کی تلقین فرمائی گئی ہے وہاں مہمان پر بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے ہیں،
اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ احزاب میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ
لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ
فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ
لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ
اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- (پ 22،
الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اےایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک
اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں
جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں
دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ
حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔
اس آیت مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ کے آداب
بیان فرمائے گئے ہیں۔ ہمارے لیے اس آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والی معلومات: 1۔ کوئی
شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھاناکھانے
نہ جائے 2۔ مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔
متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے
گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ
اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر
داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ
ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے
تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان
میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان
کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی
کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ
کرے۔
آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتی ہیں:
1۔ کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ
جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔
2۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے ۔
3۔ میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔
4۔ کھانے میں عیب نہ نکالے۔
5۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور
ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے
اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین