محمد عثمان
عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃالمدینہ فیضان جمال مصطفیٰ واڑہ گجراں
لاہور ، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہمیں ایسا دین اسلام عطا فرمایا جو ایک مکمل دین ہے
اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہماری اصلاح کا سامان کرتا
ہے- دین اسلام میں ہر شخص کے حقوق کو بیان فرمایا گیا چاہے کوئی استاد ہو یا شاگرد
، شوہر ہو یا بیوی ، والدین ہوں یا اولاد ، مہمان ہو یا میزبان الغرض ہر صاحب حقوق
کے حقوق کو بیان فرمایا -
دین اسلام میں
جس طرح مہمان کے میزبان پر جو حقوق ہیں اسے قرآن وحدیث میں بالتفصیل بیان فرمایا
اسی طرح میزبان کے جو حقوق مہمان پر ہیں انہیں بھی با لتفصیل بیان فرمایا -
ہمارے معاشرے
میں میزبان کے حقوق کی طرف اس قدر توجہ نہیں دی جاتی جس قدر توجہ مہمان کے حقوق پر
دی جاتی ہے حالانکہ یہ دونوں چیزیں ہی اہمیت کی حامل ہیں - اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
میزبان کے درج
ذیل حقوق ہیں جنہیں قرآن وحدیث میں بیان فرمایا گیا-
1- مہمان میزبان
کی دعوت کو قبول کرے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ
صَائِمًا، فَلْيُصَلِّ، وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا، فَلْيَطْعَمْ» (صحیح مسلم،كِتَابُ النِّكَاحِ،بَابُ
الْأَمْرِ بِإِجَابَةِ الدَّاعِي إِلَى دَعْوَةٍ،حدیث نمبر 3520) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ
دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے۔
لہٰذا جب بھی
مہمان کو دعوت دی جائے تو خوش دلی سے قبول کرے
2- مہمان جب میزبان
کے گھر پر جاۓ تو سب سے پہلے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرے - چنانچہ اللّہ پاک
نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ
تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ النور الآیۃ
27)ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو
جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں رہنے والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ تمہارے لیے بہتر
ہے تاکہ تم نصیحت مان لو۔
اس آیت کریمہ
کا شانِ نزول یہ ہے: حضرت عدی بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے گھر میں میری حالت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے،
چاہے وہ میرے والد یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو
اورمیری اسی حالت میں گھر میں مردوں کا آنا جانا رہتا ہے تو میں کیا
کروں ؟ ا س پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( تفسیرطبری، النور، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۲۹۷)
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ سب سے پہلے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرے میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں اجازت لینے کا
طریقہ بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا چنانچہ حضرت ربیع سے روایت ہے قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مَنْ بَنِي عَامِرٍ
أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ
فِي بَيْتٍ، فَقَالَ: أَلِجُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: >اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِّمْهُ الِاسْتِئْذَانَ
فَقُلْ لَهُ: قُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ. فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ،
فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ.(سنن ابی داؤد ،كِتَابُ النَّومِ،بَابُ كَيْفَ الِاسْتِئْذَانُ،حدیث
نمبر5177)
ترجمہ: کہ بنو
عامر کے ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی جبکہ آپ ﷺ گھر کے اندر تھے ۔ اور اس
نے کہا : ” کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ “ تو نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا ”
اس کی طرف جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا ادب سکھاؤ اسے کہو کہ ( اس طرح ) کہے : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی تو بولا : ”
السلام علیکم “ کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اسے اجازت دے دی اور
وہ اندر آ گیا ۔
لہٰذا مہمان
کو چاہیئے کہ پہلے سلام کرے پھر تین مرتبہ اجازت طلب کرے اگر اجازت مل جائے تو گھر
میں داخل ہو وگرنہ واپس لوٹ جاۓ-
بعض اوقات ایسا
ہوتا ہے کہ جب بندہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو آواز آتی ہے کون؟ تو آگے سے دروازہ
کھٹکھٹانے والا کہتا ہے”میں“ ایسا نہیں کہنا چاہیے بلکہ یا تو اپنا نام بتائیں
مثلاً محمد عثمان حاضر ہوا ہوں یا کوئی مشہور کنیت کو ذکر کریں جس سے صاحب خانہ
پہچان لیں-
3- مہمان میزبان
کے پیش کردہ کھانے میں عیب نہ نکالے - مہمان کو چاہیئے کہ میزبان جو بھی کھانا پیش
کرے تو صبر و شکر کے ساتھ تناول کرے اس میں اگرچہ کوئی عیب ہو اسے بیان نہ کرے کیونکہ
ہوسکتا ہے اس سے میزبان کو تکلیف ہو اور کسی مسلمان کو تکلیف دینا کبیرہ گناہ ہے -
چنانچہ مشہور تابِعی بزرگ حضرت مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
جہنّمیوں پرخارش مُسلّط کردی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّی کہ ان میں
سے ایک کی (کھال اور گوشت اُترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اُسے پکارکر کہا جائے
گا:اے فُلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا:
تُو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔(احیاء العلوم،ج2،ص242)
اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے کہ آپ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے قَالَ: «مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، إِنْ رَضِيَهُ، أَكَلَهُ، وَإِلَّا
تَرَكَهُ»(سننِ ابن ماجه،كِتَابُ
الْأَطْعِمَةِ،بَابُ النَّهْيِ أَنْ يُعَابَ الطَّعَامُ،حدیث نمبر3259)ترجمہ:انہوں
نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے
ورنہ چھوڑ دیتے۔
اور میزبان کو
بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کا سوال نہ کرے جس سے مہمان جھوٹ میں مبتلا ہو مثلاً کھانا
کیسا بنا؟ اب مہمان تو یہی کہے گا کہ اچھا بنا ہےاب اگر مہمان کو کھانا اچھا نہیں
لگا تو یہ جھوٹ ہوجاۓ گا -
لہٰذا میزبان
کو بھی حتی الامکان اس طرح کے سوالات سے بچنا چاہیے -
4- مہمان تین
دن سے زائد میزبان کے گھر نہ رہے کیونکہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میزبان آزمائش میں
مبتلا ہو جائے نبی کریم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کی مدت تین دن بیان فرمائی
چنانچہ عَنْ
أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ
قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ
جَائِزَتَهُ قَالُوا وَمَا جَائِزَتُهُ قَالَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ
ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَمَنْ كَانَ
يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ (سنن ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ
وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ إِلَى كَمْ هِيَ،حدیث نمبر1967)
ترجمہ : ابوشریح
عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ یہ حدیث بیان فرمارہے تھے تو میری
آنکھوں نے آپ کو دیکھا اورکانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: جوشخص اللہ اوریوم
آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ، صحابہ
نے عرض کیا: مہمان کی عزت وتکریم اورآؤ بھگت کیاہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن اورایک
رات ، اورمہمان نوازی تین دن تک ہے اورجو اس کے بعدہووہ صدقہ ہے ، جوشخص اللہ اوریومِ
آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے -
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ان مذکورہ حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین