جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے مہمان کا احترام کرے،  مہمان کا احترام یہ ہے کہ اسے مسکرا کر اچھی طرح ملے۔اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پرمسرت محسوس کرتے ہیں، مہمان کو زحمت نہیں رحمت اور برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مہمان کو ایذا نہ دیں جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ (گھر والے) کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے، حدیث پاک میں ہے: جس نے نماز قائم کی، زکوة ادا کی، حج کیا رمضان کے روزے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (معجم کبیر، 12/136، حدیث: 12692)

میزبان کے حقوق: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کو چار باتیں ضروری ہیں: 1۔ جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے 2۔ جو کچھ اسکے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے گھر ہی کھایا کرتا ہوں یا اس قسم کے دوسرے الفاظ3۔ میزبان سے اجازت لیے بغیر وہاں سے نہ اٹھے 4۔ جب وہاں سے جائے تو اس کےلیے دعا کرے۔ (بہار شریعت، 3/349)

گھر یا کھانے وغیرہ کے معاملے میں مہمان کسی قسم کی تنقید کرے نہ جھوٹی تعریف کرے۔ میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والےسوالات نہ کرے، مثلاً کہنا کہ ہماراگھر کیسا لگا؟ یا کہا: ہمارا کھانا آپکو پسند آیا یا نہیں؟ ایسے موقع پر اگر پسند نہ ہونے کے باوجود مہمان مروت میں گھر یا کھانے کی جھوٹی تعریف کرےگا تو گناہگار ہوگا۔

میزبان اسطرح کا سوال بھی نہ کرے کہ آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کےباوجود اصراروتکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑجائے کہ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے۔

حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساتھی کم کھاتا ہو تو رغبت دلاتے ہوئے اس سے کہے : کھائیے! لیکن تین بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیونکہ یہ اصرار کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا۔

میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چائیے اور یہ بھی نہ کرنا چائیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہو جائے بلکہ وہاں حاضر رہے میزبان کو چائیے کہ مہمان کی خاطر داری میں خود مشغول ہو خادموں کے ذمے اسکو نہ چھوڑے، مہمان کی آؤ بھگت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔

حضرت امام غزالی فرماتے ہیں: جو شخص کم خوراک ہو جب وہ لوگوں کے ساتھ کھائے تو کچھ دیر بعد کھانا شروع کرے اور چھوٹے لقمے اٹھائے اور آہستہ کھائے تاکہ آخر تک لوگوں کا ساتھ دے سکے۔ اگر کسی نے اس لیے جلدی ہاتھ روک لیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا ہو اور اسکو بھوک سے کم کھانے والا تصور کریں تو ریاکار اور عذاب کا حقدار ہے۔ اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہےجبکہ اتنی ہی زیادتی ہو جس سے معدہ خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو۔

اللہ پاک ہمیں سنت کو اپنانے اور مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین