ضیافت و مہمان نوازی تمام انبیاء و رسل اور اولیاء و صلحا کا طریقہ رہا ہے سیدنا ابراہیم خلیل الله علیہ السلام کے متعلق آیا ہے کہ عموما اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک ان کے پاس کوئی نہ کوئی مہمان نہ آ جاتا تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرشتے انسانی شکل میں آپ کے پاس آئے تو آپ نے بچھڑا بھون کر ان کی ضیافت آئے میزبان کے حقوق کے بارے میں کچھ ملاحظہ کرتے ہیں

(1) میزبان کو تکلیف سے بچانا :- کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گناہ گار کر دے ۔ عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا۔ تو فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے ( شعب الایمان ، مترجم ، ص601 مكتبه نوریه رضویه)

(2) میزبان سے کسی چیز کی فرمائش نہ کرے :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس (مہمان بن کر جائے) تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے(کتاب، شعب الایمان ، مترجم ص 600 مكتبه نوريه رضویه)

3) میزبان کو صلہ دینا :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کو صلہ دو۔ صحابہ نے پوچھا کیا صلہ دیں یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب آدمی اپنے بھائی کے ہاں جائے اور وہاں کھائے پیئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے یہ اس کا صلہ ہے۔ (مکتبہ نوریہ رضویه ،شعب الایمان، مترجم ، ص 598 )

4) میزبان کے پاس زیادہ دیر رکنے کی ممانعت مہمان کیلئے یہ درست نہیں کہ وہ کسی کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ میزبان کو تنگ دل کر دے (شعب الایمان ، مترجم میں 600 مکتبہ نور به رضویه)

5) خوش کرنا :- صاحب خانہ گھر پر نہ ہو اسے معلوم ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو آگے بڑھ کر کھانا کھائے ۔ (کتاب ، لباب الاحیاء مترجم )(ص، (133) مكتبة المدينة قرآن و آحادیث میں میزبان کے جو حقوق بیان فرمائے گئے ہیں اللہ تعالٰی اس پر عمل کرنے اور دوسری تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین