مہمان نوازی کی دین اسلام میں بڑی قدر و منزلت ہے، مگر آج کے پرفتن دور میں مسلمان اس صفت سے عاری ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب تو بہت کم لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو مہمان کا اکرام اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو اس صفت سے محروم ہی نظر آتے ہیں۔ میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! آئیے مہمان اور میزبان کے بارے میں جانتی ہیں۔ عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو مضیف کہتے ہیں جبکہ اردو زبان میں میزبان کہتے ہیں مہمان داری کرنے والا  دعوت کرنے والا یا مہمان کو کھانا کھلانے والا۔

دین اسلام بہت پیارا دین ہے جہاں میزبان پر مہمان کے حقوق کی تلقین فرمائی گئی ہے وہاں مہمان پر بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے ہیں، اللہ پاک قرآن پاک کی سورہ احزاب میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- (پ 22، الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اےایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

اس آیت مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ہمارے لیے اس آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والی معلومات: 1۔ کوئی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھاناکھانے نہ جائے 2۔ مہمان کو چاہئے کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لئے حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو۔

متعدد حدیث پاک میں بھی میزبان کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری بس ایک دن اور رات کی ہے اور مہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

حدیث پاک میں تنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مہمان میزبان کے ہاں اتنے دن ٹھہرے کہ اس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ رہے کہ وہ مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا میزبانی کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ مہمان اہل خانہ کو کسی قسم کے گناہ میں مبتلا نہ کرے۔

آئیے مزید کچھ میزبانی کے حقوق سنتی ہیں:

1۔ کسی کے گھر مناسب وقت پر جائیں، ایسے وقت میں نہ جائیں کہ جو میزبان پر گراں گزرے۔

2۔ میزبان جہاں بٹھائے وہیں بیٹھا رہے ۔

3۔ میزبان جو پیش کرے اسے خوشی خوشی قبول کرے۔

4۔ کھانے میں عیب نہ نکالے۔

5۔ کھانا کھانے کے بعد اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور ہو سکے تو اہل خانہ کی دل جوئی بھی کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں میزبانی کرنے اور میزبانی کے حقوق بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین