صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
جس طرح مہمان
کے میزبان کے ذمے حقوق ہیں اسی طرح میزبان
کے مہمان کے اوپر بھی حقوق ہیں۔ زندگی میں تقریبا ہر انسان کو کسی نہ کسی کا مہمان بننے کا موقع ملتا ہے۔ مگر جب بھی کسی کے ہاں مہمان بن کر جانا ہو۔ تو
ایسا انداز اختیار کیا جاۓ کہ میزبان دوبارہ مہمان بنانے کی خواہش کرے۔ نہ
کہ یہ میزبان کے لئے ضرر کا سبب بنے اور وہ اس کی وجہ تکلیف میں مبتلا ہو۔ اور ایسے
ہی مہمان کو چاہئے کہ اس کے عیوب کو
دوسروں پر ظاہر نہ کرے۔ کیونکہ مہمان نوازی سے خوش نہ ہوکر میزبان کے عیبوں کا
اظہار کرنے اور اس کی برائی بیان کرنے والوں کے بارے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
لَا یُحِبُّ
اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
سَمِیْعًا عَلِیْمًا۔ (سورۃ النساء,آیت: 148) ترجمۂ کنز العرفان:- بری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر
مظلوم سے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق تفسیرِ صراط
الجنان میں ہے:۔ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے
اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا۔
تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفتی
صاحب آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: اس سے
ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے
اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں
اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا
بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں
بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ
فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے
باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع
ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے
حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں
مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ
!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا
کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس
کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(تفسیرِ صراط
الجنان سورۃ النساء تحت آیۃ: 148)
یہاں مہمان کے
لئے میزبان کے حقوق سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابۂ و
تابعین اور یگر بزرگانِ دین کے انداز اور فرامین کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں:۔
(1)۔۔میزبان
کی دعوت قبول کرنا:- جب بھی کوئی
دعوت پر بلاۓ تو ممکن ہو تو اس کی دعوت کو رد نہ کیا جائے ۔کیونکہ
جس طرح دعوت دینے والے کے فقر اور کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے انکار کرنا منع ہے ایسے
ہی سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے دعوت قبول کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اگر
عادتاً یہ سفر ممکن ہو تو انکارکرنا مناسب نہیں۔
بعض آسمانی کتابوں میں مذکور ہےکہ’’ایک میل چل
کر مریض کی عیادت کرو،دومیل چل کر جنازہ میں شرکت کرو،تین میل چل کردعوت میں جاؤ
اور چار میل چل کر(رضائے الٰہی کے لئے) اپنے مسلمان بھائی کی زیارت(اور اس سے
ملاقات) کرو۔‘‘
دعوت قبول کرنے اور ملاقات کرنے کومریض کی عیادت
کرنے اور جنازے میں حاضر ہونے پر فضیلت دی گئی ہے کیونکہ اس میں زندہ کے حق کو
پورا کرنا ہے جو کہ میّت سے اولیٰ ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 138)چنانچہ،
محسن کائنات،فخرموجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعِ الْغَمِیْمِ
لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے مقامِ غَمِیْم میں بھی بکری کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں
قبول کروں گا۔(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
غَمِیْم ‘‘مدینہ سے کئی میل دور ایک جگہ کا نام
ہے۔(صحيح البخاری ، کتاب المغازی ، باب مقام النبی بمکة زمن … الخ ، ۳ / ۱۰۶، الحديث : ۴۲۹۸، ۴۲۹۷)
دعوت قبول کرنے کا حکم:- (عام طور
پر)دعوت قبول کرنا سنّتِ مؤَ کدہ ہے۔ البتہ، بعض مواقع پر واجب بھی کہا گیا
ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 136)
چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ وَلَوْ
اُھْدِیَ اِلَیَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی
جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفۃً دیا جائے تو میں
قبول کروں گا۔‘‘(صحيح البخاری ، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۳ / ۴۵۵، الحديث : ۵۱۷۸)
دعوت قبول کرنے کے آداب:- دعوت قبول کرنے میں امیر وغریب کا فرق ملحوظِ
خاطر نہ ہو کہ یہ تکبر ہے جو کہ ممنوع ہے۔اسی وجہ سے بعض لوگوں نے سرے سے ہی دعوت
قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا:’’ شوربے کا انتظار ذلت ہے۔‘‘ بعض نے کہا
کہ’’اگر میں اپنا ہاتھ دوسرے کے پیالے میں ڈالوں تو گویامیں نے اس کے سامنے اپنی
گردن جھکا دی۔‘‘بعض متکبرین صرف اغنیا کی دعوت قبول کرتے ہیں فقرا کی نہیں یہ
خلافِ سنت ہے کہ پیارے مصطفٰے صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غلام و مسکین سب کی دعوت قبول فرماتے۔(سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب رقم :
۳۲، ۲ / ۳۱۱، الحديث : ۱۰۱۹ قوت القلوب لابی طالب المکی ، ۲ / ۳۱۲)(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ:138,137)
دعوت قبول نہ کرنے کی صورتیں: اگر کھانا شبہ والا ہویادعوت مغصوبہ(غصب کی گئی)
زمین میں ہویا بچھائی جانے والی چٹائی حلال نہ ہویا اُس جگہ کوئی ناجائز کام
ہو۔مثلاً :چٹائی کی جگہ ریشم کا کپڑا بچھایا گیا ہو یا برتن چاندی کے ہوں یا چھت یا
دیوار میں جاندار کی تصویر لگی ہو یاموسیقی کی محفل سجی ہویا ناجائز کھیل تماشا ہو
یا جھوٹ، غیبت، چغلی اور بہتان وغیرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہویا اس کے علاوہ کوئی بھی
ناجائز کام ہو تو ان سب صورتوں میں دعوت قبول نہیں کرنی چاہئے۔یہ تمام کام دعوت کو
مستحب ہونے سے نکال کر حرام ومکروہ کی طرف لے جاتے ہیں۔یونہی اگر دعوت دینے والا
ظالم، بدعتی، فاسق یا شریر ہو یا فخرو مباہات کے طور پر دعوت کرتا ہوتو بھی دعوت
قبول نہیں کرنی چاہئے۔(احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ: 140)
(2)....
میزبان کے پاس ٹھہرنے کی مدت:- مہمان
کو چاہئے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر واپس نہ لوٹے اور وہاں رکنے میں بھی اس کے دل
کی رعایت رکھے(کہ اگر وہ دلی طور پر خوش ہو اور مکان وسیع ہوتو ٹھہرے ورنہ لوٹ
جائے)۔نیز جب بھی کسی کے ہاں بطورِمہمان جائے تو تین دن سے زیادہ نہ ٹھہرے کہ بعض
اوقات زیادہ رکنے میں میزبان کو پریشانی ہوتی ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور
ہوجاتا ہے(یعنی کوئی ایساحیلہ اختیارکرتا ہے کہ مہمان چلاجائے)۔نیز مہمان نوازی تین
دن تک ہی سنت ہے۔(احیاء العلوم جلد,2 صفحہ: 155,156)چنانچہ
سرکار عالی
مقام ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام
کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت
تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی
کہ اسے تنگ کردے۔
مرآۃ المناجیح
میں ہے:اگر صاحب خانہ خود ہی بخوشی روکے تو رک جانے میں حرج نہیں (کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
اسی سے متعلق ایک اور مقام پر فرمایا:- مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے مسلمان
بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ اُسے
گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ! وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے پاس
مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
میزبان کی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت:- اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف
نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی
فرماتے ہیں:مہمان کے لیے کسی شخص کے پاس تین دن سے زِیادہ ٹھہرکر اُسے گُناہ میں
مبتَلاکردیناجائزنہیں ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے زِیادہ قِیام کی وجہ
سے میزبان اُس کی غیبت کرنے لگتا ہے یا ایسے کام کرتا ہے جس سے مہمان کو اَذِیَّت
پہنچتی ہےیا میزبان،مہمان کےمُتعلِّق بدگمانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کااِرشادہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ
الظَّنِّ اِثْمٌ ( پ۲۶ ، الحجرات :۱۲) ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ اُس
وَقت ہے جب خود میزبان مہمان سے زیادہ قِیام کے لیے نہ کہے اور جب میزبان خودمہمان
سے زِیادہ قِیام کی خواہش کرےیامہمان کو( کسی قَوِی قرینے سے) اِس کا عِلم یا
گُمان ہوکہ اس کا ٹھہرنامیزبان کو برا نہیں لگے گا تو تین دن سے زیادہ میں کوئی
حرج نہیں کیونکہ مُمانَعت اِس وجہ سے تھی کہ اُس کے زِیادہ قیام کی وجہ سے میزبان
گناہ میں مبتلا ہو جائے گا اوریہ وجہ خَتْم ہوچکی ہےاور اگر مہمان کو شک ہو کہ پتا
نہیں میزبان اِس کے زِیادہ قِیام پر خوش ہے یا نہیں؟تو اِس حدیث کے ظاہِر کی وجہ
سے میزبان کی اِجازت کے بِغیراِس کا زِیادہ قِیام کرنا جائز نہیں ہے۔(کتاب:فیضان ریاض
الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(3)۔
میزبان سے فرمائش کرنا:- مہمان: کو
چاہئے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے۔ اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار
کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہوکہ یہی سنت ہے۔ (احیاء العلوم جلد, 2 صفحہ:
128)
چنانچہ، مروی
ہے کہ جب بھی مصطفٰے جان رحمت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔(صحيح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب مباعدته صلی الله عليه وسلم للاثام … الخ ، الحديث : ۲۳۲۷، ص۱۲۷۱، ۱۲۷۰)
البتہ مخصوص
کھانے کی فرمائش اس صورت میں منع ہے جب میزبان پرمطلوبہ چیز پیش کرنا دشوار ہو یا
اسے نا گوارگزرے۔ البتہ، اگر یقین ہو کہ میزبان فرمائش سے خوش ہوگا اور مطلوبہ چیز
پیش کرنا اس کے لئے آسان ہے تو پھر فرمائش کرنے میں حرج نہیں۔ (احیاء العلوم جلد,2 صفحہ : 129)
(4)۔۔۔
مہمان کو بچا ہوا کھانا لے کر جانا :- مہمانوں
کو بچا ہوا کھانا لے جانے کی اجازت نہیں۔ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام
(دین میں)اسے لغزش شمار کرتے ہیں۔البتہ، اگر صاحبِ خانہ بخوشی اجازت دے دے یا ایسا
قرینہ پایا جائے جس سے اجازت سمجھی جارہی ہو تو لے جا سکتے ہیں اور اگرگمان ہو کہ
اسے ناپسند ہوگا تو لے جانا مناسب نہیں اگرچہ اس نے اجازت دے دی ہو۔ اگر میزبان کی
رضا مندی معلوم ہو تو بھی اپنے رفقا کے ساتھ عدل و انصاف ضروری ہے کہ جب تک دوسرا
رفیق اپنا حصہ نہ نکال لے اس وقت تک نہ لے، اگر وہ خوش دلی سے اجازت دے تولےسکتا
ہے اور اگر شرم و حیا کی وجہ سے اجازت دےتو لینے میں پہل نہ کرے۔ (احیاء العلوم
جلد,2 صفحہ: 153)
(5)۔۔۔
مہمان کے لیے آداب" صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔
(بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)(5)...
کھانے میں کسی قسم کا عیب نہ لگاۓ اگر پسند آئے تو کھا لے ورنہ چھوڑ دے۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
” رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
کبھی کسی کھانے کو عیب نہ لگایا، پسند آیا تو تناول فرمالیا پسند نہ آیاتوچھوڑ دیا۔(کتاب:فیضان
ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:736)
مہمان کے لئےاچھی نیتیں! …
کسی کے ہاں مہمان بننے سے مقصود صرف پیٹ کی خواہش پوری کرنا نہ ہو کہ اس طرح یہ دنیاوی
کام ہو گا بلکہ چاہئے کہ کوئی اچھی نیت کرلے تاکہ یہ بھی دینی کام ہو جائے۔مثلاً :
.…سنّت پر عمل کی نیت سے دعوت قبول کرے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ لَوْدُعِیْتُ اِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے
تو میں قبول کروں گا۔(صحيح البخاری
، کتاب النکاح ، باب من اجاب الی کراع ، ۴۵۵ / ۳، الحديث : ۵۱۷۸)
..…اپنے
مسلمان بھائی کی بات مان کر اس کے اِکرام کی نیت کرے کہ مصطفٰے جان رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ مَنْ اَکْرَمَ اَخَاہُ الْمُؤْمِنَ فَکَاَنَّمَا اَکْرَمَ
اللہ یعنی جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی گویا
اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا اکرام کیا۔‘‘ ( المعجم الاوسط ، ۲۴۲ / ۶، الحديث : ۸۶۴۵ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی ، ۲۳۰ / ۲، الرقم : ۲۸۷، بحر بن کنيز السقاء )
..…اس کے ساتھ
ساتھ اپنے بھائی کی زیارت کی نیت کرے تاکہ رضائے الٰہی کی خاطر محبت کرنے والوں میں
ہو جائے کیونکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
اس(یعنی کسی سے ملاقات کے معاملے) میں دو چیزوں کوشرط قرار دیا ہے:(۱)…رضائے الٰہی کی خاطر ہو اور(۲)…مال وغیرہ خرچ کرنا پایا جائے۔(الموطا امام مالک ، کتاب الشعر ، باب ماجاء فی المتحابين فی الله ، ۴۳۹ / ۲، الحديث : ۱۸۲۸)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اچھا
مہمان بننے اور میزبان کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم