عمر رضا
(درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
پیارے مسلمان
بھائیو! ہم زندگی میں اکثر مرتبہ اپنے
دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر مہمان بن کر جاتے ہیں لیکن کسی کے ہاں مہمان بن کر
جانا برا کام نہیں ہے لیکن شریعت اسلامیہ نے جس طرح مہمان کے حقوق بیان کیے اس طرح ہی میزبان کے حقوق بیان کیے ہیں
(1)
زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔مہمان کو چاہیے
کہ وہ میزبان کے ہاں زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے تاکہ اس کے لیے حرج اور تکلیف کا سبب
نہ ہو۔ (تفسیر صراط الجنان جلد:8، ص73
مکتبہ المدینہ )
(2)
حساب نہیں ہوگا۔ حضرت سیدنا جعفر بن محمد علیہ رحمتہ اللہ الصمد فرماتے ہیں
جب تم دسترخوان پر اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھو تو زیادہ دیر بیٹھو کیونکہ یہ ساعتیں
تمہاری عمر میں شمار نہیں ہوتیں (یعنی ان کا حساب نہیں ہوگا)(احیاء العلوم جلد 2
صفحہ 30 مکتبۃ المدینہ )
(3)
کھانے کی فرمائش نہ کرنا ۔مہمان کو
چاہیے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے پیش کرنا میزبان پر
دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے
جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سنت ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی مصطفی
جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔صحیح مسلم کتاب الفضائل باب
مباعدتہ صلی اللہ علیہ وسلّم( اللاثام ۔۔۔الخ، الحدیث:2327 ص 1270,1271
(4)
شرعی مسئلہ ۔نفل روزہ بلا عذر توڑ
دینا جائز ہے مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان
اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر
ہے بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور ضحوہ کبری (یعنی زوال) سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں
دعوت کے سبب ضحوہ کبری سے پہلے نفل روزہ توڑ سکتا ہے جب دعوت کرنے والا محض اس کی
موجودگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو
کہ بعد میں رکھ لے گا لہذا اب روزہ توڑ لے اور اس کی قضا رکھے لیکن اگر دعوت کرنے
والا محض اس کی موجودگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے نفل روزہ
زوال کے بعد ماں ماں باپ کی ناراضی کے سبب
توڑ سکتا ہے اور اس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔ (فیضانِ ریاض
الصالحین ج 6 ص 186مکتبہ المدینہ)
(5)
روزے کا عذر ۔مروی ہے کہ کسی نے
دعوت پر روزے کا عذر کیا تو حُسن اَخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: تیرے بھائی نے تیرے لیے اہتمام کیا اور تو کہتا ہے میں روزے
دار ہوں۔(سنن دار قطنی ,کتاب الصیام )