جہاں معاشرے میں مہمان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے وہاں میزبان کے ساتھ کم برتاؤ کیا جاتا ہے۔ آئیے ایک حکایت سنتے ہیں: کہ ایک بزرگ کو دعوت میں بلانے کے لیے قاصد بھیجا گیا لیکن بزرگ سے قاصد کی ملاقات نہ ہوسکی جب انہیں علم ہوا تو تشریف لے آئے تب لوگ کھانا کھاکر جا چکے تھے۔ میزبان نے کہا: لوگ تو جا چکے ہیں، پوچھا: کچھ بچا ہے ؟عرض کی: نہیں ،پوچھا :روٹی کا ٹکڑا؟ عرض کی:  نہیں !فرمایا: ہنڈیا چاٹ لوں گا، میزبان نے عرض کی: اسے ہم دھو چکے ہیں۔ چنانچہ وہ بزرگ اللہ کی حمد کرتے ہوئے لوٹ آئے۔ ان سے اس بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا اس شخص نے ہمیں اچھی نیت سے بلایا اور اچھی نیت سے لوٹا دیا یہ عاجزی اور حسن اخلاق کے خلاف نہیں ہے ۔

آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے-

1 ; مل کر کھانا :مہمان کو چاہئے کہ میزبان کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھائے چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندے سے اس کھانے کا حساب نہ لیا جائے گا جو وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھائے.(قوت القلوب لا بی طالب المکی 2/ 306 )

2 ؛ دعوت قبول کرنا :مہمان کو چاہئے کہ میز بان کی دعوت قبول کریں اس کی دعوت کا انکار نہ کریں چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :لَوْ دُعِيْتُ إِلى كُرَاعِ لَا جَبْتُ وَلَوْ اھدی إِلَى ذِرَاعٍ لَقبلتُ یعنی اگر مجھے بکری کے پائے کی بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کرونگا اور اگر مجھے بکری کا بازو بھی تحفہ دیا جائے تو میں قبول کرو گا ۔ ( صحیح البخاری کتاب النکاح باب من اجاب الی کراع 455/3, الحدیث:5178 )

3 ; کھانے میں عیب نہ نکالنا :مہمان کو چاہئے کہ میزبان کے کھانے میں سے عیب نہ نکالے اس کی غیبت نہ نکالے حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ رحمہ اللہ اکرم کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا ۔ ایک شخص بولا : وہ موٹا بڑا سست ہے اس پر حضرت ابرہیم بن آدہم علیہ رحمۃ اللہ اکرم اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے ۔ افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس یعنی (بیٹھک ) میں پہنچ گیا. جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی تھی یہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین دن تک اور بعض روایت میں ہے کہ سات دن کھانا نہ کھایا۔(غیبت کی تباہ کاریاں ، ص 205) (تنبيہ العافلين ص،89 )

4 ؛ میزبان کے لیے دعا :مہمان کو چاہئے کہ میز بان کے لیے دعائے مغفرت و دعائے برکت کرے -چنانچہ حضرت سیدنا ابو ہر براہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لیے) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے.

5 ؛ دستر خوان پر آخر تک بیٹھنا :مہمان کو چاہیے کہ جب دسترخوان لگ جائے تو اس پر آخر تک بیٹھا رہے تاکہ میزبان کی دل آزاری نہ ہو۔ روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا : رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اُٹھے تاانکہ دستر خوان اُٹھا لیا جائے اور نہ اپناہاتھ اُٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔ ( کتاب مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد

6، حدیث نمبر: 4254 )


معاشرے میں لوگ مہمان بن کر دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔ لیکن انہیں وہاں کے اصول کا پتا نہیں ہوتا۔ جو مہمان میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتا اگر چہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو کوئی بھی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھانا کھانے نہ جائے۔ جہاں اس کو بٹھایا جائے . وہیں بیٹھے زیادہ دیر نہ بیٹھے جس کے لیے اسے کوئی حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو رخصت کے وقت اپنے اعزا ز وا کرام کی بنا پر میزبان کا شکریہ ادا کرے۔ ہمیں میزبان کے حقوق پر بھی عمل کرنا چاہیے:

آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے ۔

1 ؛ میزبان کو تکلیف نہ دینا :روایت ہے حضرت ابو شریح سے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو الله اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے۔ مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے- (مراۃ المناجیح . ج ، 6 ، باب : دعوت کا بیان ، ص،66 )

2 ; آخر تک بیٹھنا :روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تا آنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراۃ المناجیح ، ج 6، باب : دعوت کا بیان ، ص، 75 )

3 ؛ میزبان کی دل آزاری نہ کرنا : میزبان کی دل آزادی سے بچنے کیلئے چاہیے کہ میزبان کے لئے دعائے خیر کرے وہاں کچھ دیر نماز پڑھ لے اس سے میزبان بھی خوش ہو جائے گا اور روزہ بھی نہ توڑنا پڑے گا ۔ (فیضان ریاض الصالحین ،ج 6، ص 186 ، مكتبة المدينة )

4 ؛ دعوت قبول کرنا :عن ابی هریرة رضی اللہ عنہ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا دُعِی أَحَدُكُمْ، فلیجب فَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصل ،وان کان مغطر فلیطعم ۔ترجمہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی. جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو (میزبان) کے لئے دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے۔( مسلم . كتاب النکاح ، باب الامر باجابة الداعى الى دعوة ص , 576 . حدیث : 3520 )

5 ؛ غیبت نہ کرنا :مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے کھانا کی غیبت نہ کرنا۔ چنا نچہ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا۔ ایک شخص بولا : وہ موٹا تو بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ رحمة الله الاکرم اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے لگے: افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس (یعنی بیٹھک) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین (اوربر وایت دیگر سات دن تک کھانا نہ کھایا۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص : 204 مکتبۃ المدینہ) (تنبیه الغافلین ، ص: 89 )


پیارے پیارے اسلامی بھائیو جیسے مہمان کے حقوق ہیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے اسی طرح میزبان کے بھی حقوق ہیں اسلامی تعلیمات سکھاتی ہے کہ مہمان کو چاہیے کہ جب وہ میزبان کے گھر جائے تو زیادہ دن اس کے پاس نہ ٹھہرے اور جہاں بھی جائے میزبان سے اجازت لے کر جائے اس ضمن میں کچھ حدیث مبارکہ ہیں عرض کرتا ہیں

(1) متقین کی دعوت کرنا ۔متقی اور پا سا لوگوں کی دعوت کرنا اور ان کی خدمت کرنا باعث برکت اور حصول کا ذریعہ ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔مومن کے علاوہ کسی اور کو اپنا دوست نہ بناؤ اور تمہارا کھانا صرف متقی آدمی کو کھلانا چاہیے۔

(2) مہمان کو جس جا ٹھہرایا جائے وہیں ٹھہرنا ۔ابو اللیث سمر قندی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔مہمان چار چیزوں کا خیال رکھے۔ جہاں اسے بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔میزبان سے اجازت لے کر اٹھے۔جب نکلے تو میزبان کے لیے دعا کریں۔

(3) گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر میں داخل ہوتے وقت اس سے اجازت لے۔

(4)مہمان کا اور لوگوں کو ساتھ لے جانے سے گریز کرنا۔مہمان اپنے ساتھ کسی بن بلائے شخص کو دعوت میں لے کر چلا جائے تو اسے چاہیے کہ میزبان سے اس شخص کی اجازت لے اگر اجازت مل جائے تو فبہا ورنہ اس شخص سے معذرت کر لے۔اس کی تعلیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل حدیث بھی ملتی ہے۔

ایک انصاری صحابی کے ہاں جن کی کنیت ابو شعیب تھی ایک غلام تھا جو گوشت بیچا کرتا تھا ایک دن ان انصاری صحابی یعنی ابو شعیب نے اپنے اس غلام سے کہا کہ میری ہدایت کے مطابق اتنا کھانا تیار کرو جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دعوت کروں گا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پانچ آدمیوں میں سے ایک ہوں گے۔ (یعنی ایک حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہوں گے اور چارآدمی اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے) چنانچہ اس غلام نے ان کی ہدایت کے مطابق حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کر لیا پھر وہ ابو شعیب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اورآپ کے چار صحابہ کو اس کھانے پر مدعو کیا جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو ایک شخص آپ صلی اللہ تعال علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر پہنچ کر فرمایا اے ابو شعیب ایک اور شخص ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر تم چاہو تو اس کو بھی کھانے پرآنے کی اجازت دے دو ورنہ اس کو دروازے ہی پر چھوڑ دو اور دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دو۔ ابو شعیب نے کہا کہ نہیں اس کو دسترخوان پر بیٹھنے کی اجازت نہ دینا میں مناسب نہیں سمجھتا بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں۔

حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کی دعوت میں بن بلائے پہنچ جائے اور اسی طرح کسی مہمان کے کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بن بلائے شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جائے ہاں اگر میزبان نے اس بات کی صریح اجازت دی ہو یا کوئی ایسی دعوت ہو جہاں اذن عام ہے مہمان یہ جانتا ہو کہ اگر میں کسی بن بلائے مہمان شخص کو اپنے ساتھ دعوت میں لے گیا تو میزبان کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگا تو ان صورتوں میں مدعو کسی غیر مدعو کو اپنے ساتھ دعوت میں لے جا سکتا ہے۔

(6)مہمان کا میزبان سے اجازت لے کر واپس جانا۔مہمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے۔حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر تو کسی کے گھر میں جائے تو صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکل جب تک تو اس کے پاس ہے وہ تیرا امیر ہے۔

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے میزبان کے گھر جا کر اور اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔


میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیو! مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے پیارے اسلامی بھائیوں اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کے ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیوں ہمیں اس کا ہل تلاش کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں د نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں۔)

(1)مومن کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جائز دین ہے

(2)تکلفات سے پرہیز۔مہمان نوازی کی ایک آفت اسراف کا شکار ہوجانا ہے اس آفت کا شکار فقط آج کا ہی انسان نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہی ہر مہمان نواز اس آفت کا شکار رہا ہے، البتہ آج کل کے دور میں ریاکاری، خودنمائی اور نمود و نمائش کی بیماری ماضی کی نسبت بڑھ گئی ہے. اسلام نے حکم دیا ہے کہ مہمان کو نا صرف تکلفات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے بحیثیتِ مہمان حکم دیا گیا ہے کہ وہ میزبان سے تقاضا کرے کہ وہ تکلفات میں نہ پڑے. امام رضا نقل کرتے ہیں: ایک شخص نے حضرت علی کو دعوت دی تو امام نے اسے فرمایا: میں تمہاری دعوت قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میری تین باتیں قبول کرنا ہوں گی، اس شخص نے کہا کہ وہ تین باتیں کون سی ہیں یا امیرالمومنین؟ امام نے فرمایا: ہمارے لیے باہر سے کوئی چیز نہیں لاؤگے، جو بھی گھر میں موجود ہو اسے لانے میں نہیں کتراؤ گے اور تیسرا یہ کہ اپنے گھر والوں کو کسی زحمت میں نہیں ڈالو گے. یہ سن کر اس شخص نے کہا مجھے آپ کی تینوں باتیں قبول ہیں پس امام نے بھی اس کی دعوت قبول کر لی۔

(3)کھانے میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب تمہارا مومن بھائی تم سے کھانا کھانے کا تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام ارشاد فرماتے ہیں: «ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتہ چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔

(4)میزبان کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔

(5)جہاں میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔

امام باقر کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے کہ جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان سے بہتر جانتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)


               اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے -وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ ۔ (ھود،پ 12،آیة،69)ترجمہ کنزالعرفان :”اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے“۔

اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ۔"وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى" :(اور بے شک ہمارے فرشتے ابراھیم کے پاس خوشخبری  لے کر ائے )اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سادہ رو نوجوان کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیھما الصلاۃ والسلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے- فرشتوں نے "سلام" کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا- پھر تھوڑی دیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھنا ہوا بچھڑا لے آئے- مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا تناول نہ فرماتے- اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ 15 روز سے کوئی مہمان نہ آیا- آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اس کا بہت غم تھا- اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے لیے کھانا لانے میں جلدی فرمائی- چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے یہاں گائے بکثرت تھیں- اس لیے بچھڑے کا گوشت سامنے لایا ۰

اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام بہت مہمان نواز تھے- جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالی نے قران کریم میں فرمایا

میزبان کے آداب ۔

(1)میزبان مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سوالات نہ کرے مثلا کہنا کہ ہمارا گھر کیسا لگا؟

(2)میزبان اس طرح کا سوال بھی نہ کرے ”آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟ “کہ یہاں بھی جوابا جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کے باوجود اصرار و تکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑ جائے کہ ”میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے“-

(3)میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتا فوقتا کہے کہ ”اور کھاؤ “مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ اس کے لیے نقصان دہ ہو-

(4)میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہو جائے بلکہ وہاں حاضر رہے

(5)بعض اوقات کھانے کے موقع پر مہمان پر ایک شخص مقرر کر دیا جاتا ہے جو اپنے ہاتھ سے مہمان کی پلیٹ میں کھانا یا سالن،بوٹی وغیرہ ڈالتا رہتا ہے،مہمان کو اس سے پریشانی ہو سکتی ہے،مثلا وہ بوٹی کھانے سے بچنا چاہتا ہے اور میزبان کاآدمی بوٹیاں ڈالے جا رہا ہے-

(6)میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمے اس کو نہ چھوڑے کہ یہ (یعنی مہمان کی آؤ بھگت)حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے ،جو شخص اپنے(مسلمان) بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اس سے قیامت میں اس کھانے کا حساب نہ ہوگا-

(7)اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھا لیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ یہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی کچھ زیادہ کھا لینے کی اجازت ہے جبکہ اتنی ہی زیادہ ہو جس سے معدہ خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو-

(8)میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو۔   


مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی مہمان نوازی سے خوش رہے ہو سکتا ہے گھر والوں نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو خصوصا رشتہ داروں میں اور بالخصوص سسرالی رشتہ داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے ایک کھانا بنایا تو اعتراض دو کیوں نہیں بنائے دو بنائے تو اعتراض تین کیوں نہیں بنائے نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا میٹھا بنایا تو اعتراض فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایضاء رسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتہ داروں کو دیکھ کر گھر والوں طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے آئیے  میزبان کے حقوق کے بارے میں کچھ سنتے ہیں (صراط الجنان جلد 2 ص340)

1) میزبان کے لیے دعاکرنا ۔امام ابو زکریا یحیی بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے لیے دعائے مغفرت اور دعائے برکت کرے اور اگر مہمان روزہ دار ہو اور کھانا نہ کھانا چاہتا ہو تو میزبان کے گھر نفل نماز پڑھے تاکہ اہل خانہ و حاضرین کے لیے فضل و برکت نازل ہو ۔ (شرح مسلم للنوی کتاب النکاح 5/236)

2) مہمان کسی کو کھانے کی دعوت نہ دے ۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ مہمان کھاتے وقت کسی آجانے والے آدمی کو آرڈر نہ کرے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ مہمان کھانے کا مالک نہیں (مرآة المناجیح 5/76)

3) اضافی افراد ساتھ نہ لے جائے ۔حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سمیت اس شخص نے پانچ افراد کو دعوت پر بلایا ایک شخص ان افراد کے پیچھے آگیا جب دروازے پر پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے میزبان سے فرمایا یہ شخص ہمارے پیچھے آگیا ہے اگر تم چاہو تو اجازت دو چاہو تو لوٹا دو میزبان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں نے اسے اجازت دے دی مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جتنے افراد کی دعوت کی جائے اتنے ہی دعوت میں شریک ہوں اور اگر بالفرض کوئی فرد یا چند افراد زائد ہوں تو میزبان سے ان کے بارے میں بھی اجازت لے لی جائے ۔(مسلم کتاب الاطعمہ صفحہ 866)

4) زیادہ دیر نہ ٹھہرے ۔مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر زیادہ دیر نہ ٹھہرے حدیث پاک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کسی مسلمان شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وہ ا سے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہوگا اور حال یہ ہوگا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے ۔( مسلم کتاب اللقطة باب لضیافة ص 951 )

5) بن بلائے نہ جانا۔حدیث مبارکہ میں ہے جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔جان بوجھ کر ایسا نہ کرے البتہ اگر اتفاقا کھانے کے وقت پہنچ گیا تو جب تک دعوت نہ دی جائے نہ کھائے اور جب دعوت دی جائے تو دیکھے کہ اگر واقعی محبتا کھلانا چاہتے ہیں تو شریک ہو جائے اور اگر محسوس کرے کہ تکلفا کہتے ہیں تو شریک نہ ہو بلکہ معذرت کر لے۔ ( احیاء العلوم مترجم جلد 2 صفحہ 32)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام نے جس طرح مہمان کے حقوق کی تعلیمات دی ہیں اسی طرح میزبان کے حقوق کی بھی تعلیمات دی ہیں آئیے آج میں آپ کو میزبان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے

نمبر 1 ۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے حقوق کا خیال رکھے میزبان جو کھانا پیش کرے اس میں مہمان کو چاہیے کہ اس میں نقص نہ نکالے میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرائے اور اس کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔

نمبر 2 ۔ مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے ساتھ اچھا سلوک کرے میزبان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے دور اولین میں مہمان کے لئے پہلا اور اولین حق یہ ہے کہ وہ جہاں جاۓ اجازت لے کر جاۓ اور اس کے پاس زیادہ دن نہ رہے

نمبر3 ۔مہمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے واپس جائے۔ *(فتاوی الھندیہ )

مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے گھر میں داخل ہوتے وقت اس سے اجازت لے مہمان کو چاہیے کہ میزبان کا کم سے کم وقت لے اور اس بات کا خیال رکھے کہیں اسکے بیٹھنے سے میزبان کے کام کاج میں حرج نہ ہو اور اہل خانہ کو پریشانی نہ ہو

نمبر 4 ۔جب مہمان اپنے ساتھ کسی بن بلائے شخص کو دعوت میں لے کر چلا جائے تو اسے چاہیے کہ میزبان سے اس شخص کی اجازت لے اگر اجازت مل جائے تو فبہا ورنہ اس شخص سے معذرت کر لے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مہمان اور میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین


(1) میزبان کے لیے دعا :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو ( میزبان کے لیے‌) دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا کھا لے۔ ) (فیضان ریاض الصالحين جلد 6 ,ص185 )

(2) میزبان جہاں بیٹھائے وہاں بیٹھے:اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کرے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس بات نہ ماننے سے اسے تشویش ہوگی۔ (احیاء العلوم جلد 2،ص :52)

(3) مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرنا:مہمان کو چاہئے کہ کسی مخصوص کھانے کی فرمائش نہ کرے کہ بسا اوقات اسے. پیش کرنا میزبان پر دشوار ہوتا ہے اگر میزبان دو قسم کے کھانوں میں اختیار دے تو مہمان اسے اختیار کرے جس کا پیش کرنا میزبان پر آسان ہو کہ یہی سنت ہے چنانچہ مروی ہے کہ جب بھی مصطفی جان رحمت صلى اللہ عليه وسلم کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان کو اختیار فرمایا۔ (احیاء العلوم, جلد :2 ،ص : 37)

(4) حضرت علی رضی اللہ تعالی ہے اور میزبانی :صحابہ کرام کو بھی میزبانی کا عمل بے حد پسند تھا ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ اے علی رضی اللہ تعالی عنہ تمہیں کون کون سے عمل پسند ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا گرمیوں کے روزے رکھنا اور مہمان کی ضیافت کرنا پسندیدہ عمل ہیں۔( ایمان کی شاخیں ،ص : 599)

(5) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میزبانی :حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب معزز مہمان آئے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیه و سلم خود بنفس نفیس ان کی خاطر داری فرماتے ۔( ایمان کی شاخیں ،ص :599)


اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہمیں ہر چیز کا علم دیا ہے جس طرح میزبان کے مہمان پر کچھ حقوق ہیں اسی طرح مہمان کے میزبان پر کچھ حقوق ہیں آئیے ہم ذکر کرتے ہیں ۔

1)میزبان کے لیے دعا کرنا ۔میزبان کے لیے دعا کرنا اس کا حق ہے ۔( اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فَیْ مَا رَزَقَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَارْحَمْھُمْ)ترجمہ: اے اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما(الجامع الترمذی حدیث نمبر 3576)

2)بن بلائے نہ جانا ۔نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اِذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔(احیاء العلوم جلد نمبر 2 صفحہ 32)

3)بوجھ نہ بننا ۔حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے ایک دن ایک رات اس کا جائز ہے اور تین دن ضیافت ہے اور اس سے زیادہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اس کو تکلیف ہو۔(فیضان سنت صفحہ نمبر 822)

4)پہلے سلام کرے پھر اجازت لے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے اس کو اجازت نہ دو گھر میں داخلہ کی اجازت مانگنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ فورا گھر میں باہر والے کی نظر نہ پڑے آنے والا باہر سے سلام کر رہا ہو اجازت پا رہا ہو اور صاحب خانہ پردہ وغیرہ کا انتظام کر لیں نیز اجازت مانگنے والے کو جلد بازی بھی زیب نہیں دیتی جس سے صاحب خانہ پریشان ہو جائے۔(فیضان نے سنت صفحہ نمبر 664)

5) غیر شرعی چیز دیکھے تو لوٹ آئے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دعوت دی انہوں نے گھر میں دیوار پر پردہ دیکھا حضرت ابن عمر نے معذرت میں کہا ہم پر اس معاملے میں عورت غالب ہو گئی ہیں حضرت ابو ایوب نے کہا اس سے میں ڈرتا تھا مگرآپ کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا بخدا میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا تو واپس ہو گئے ۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 251)


"یہ بات سنت نہیں کہ آدمی دوسروں کے کھانا کھانے کے وقت کا انتظار کریں اور اس وقت ان کے پاس جائے کیونکہ یہ اچانک جانا ہے اور اس سے روکا گیا ہے ۔ایک حدیث مبارکہ میں  ہے۔ جو آدمی دعوت کے بغیر کسی کے ہاں کھانے کے لیے جائے وہ فاسق بن کر جاتا ہے اور حرام کھاتا ہے (سنن ابی داؤد جلد دو صفحہ 169کتاب الاطعمہ)

وضاحت ۔لیکن اگر جانے والا کھانے کی انتظار کے بغیر اتفاقا کھانے کے وقت چلا گیا تو جب تک اسے اجازت نہ دی جائے نہ کھائے جب اسے اجازت دے دی جائے تب وہ کھا لے ۔

اگر وہ محبت سے شریک کر رہا ہے تو شرکت کرے اور اگر وہ شرم و حیا کے طور پر کہتا ہے تو نہیں کھانا چاہیے بلکہ کوئی عذر پیش کر دے البتہ بھوکا ہو اور کوئی مسلمان بھائی کھلانا چاہے اور اس نے اس کے کھانے کے وقت کا انتظار بھی نہیں کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں کھانا کھلانے کا ثواب حاصل کرنے پر اس مسلمان بھائی کی مدد کرنا یہ بزرگوں کی عادت ہے صاحب خانہ گھر پر نہ ہو اور اسے اس کی دوستی پر کامل یقین ہو نیز وہ جانتا ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہوگا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضامندی ہے بالخصوص کھانے کے بارے میں اور اس کا معاملہ کشادگی پر مبنی ہے اور بعض لوگ صراحتا اجازت دے دیتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں لیکن وہ دل سے راضی نہیں ہوتے ایسے لوگوں کا کھانا کھانا مکروہ ہے اور بہت سے غیر موجود جو اجازت نہیں دیتے لیکن ان کا کھانا پسندیدہ ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں کھانا تناول فرمایا حالانکہ وہ گھر پر موجود نہ تھیں اور کھانا بھی صدقے کا تھا آپ نے فرمایا صدقہ اپنے مقام کو پہنچ گیا (مسند امام احمد بن حنبل جلد چھ صفحہ 18 مرویات عائشہ)

وضاحت ۔(یعنی صدقہ حضرت بریرہ تک پہنچ گیا اب اس کی حیثیت صدقہ والی نہیں)آپ نے یہ کھانا اس لیے کھایا کہ آپ جانتے تھے وہ اس پر خوش ہوں گی اس لیے اس گھر میں اجازت حاصل کیے بغیر داخل ہونا جائز ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اجازت دے دے گا اگر یہ بات معلوم نہ ہو تو اجازت لیے بغیر اندر نہ جائے حضرت محمد بن واسع اور ان کے ساتھی رحمہم اللہ حضرت حسن بصری رحمت اللہ کے گھر اجازت کے بغیر جاتے جو کچھ ملتا کھاتے تھے حضرت حسن تشریف لائے تو دیکھ کر خوش ہوتے اور فرماتے ہم بھی ایسے ہی کرتے تھے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ بازار میں پھل بیچنے کی دکان سے پھل کھا رہے تھے( کبھی چمڑا چڑھائی گئی) اس ٹوکری سے انجیر نکالتے اور کبھی دوسری ٹوکری سے خشک کھجور نکالتے ہشام نے پوچھا اے ابو سعید! آپ اس قدر پرہیزگار ہونے کے باوجود دوسرے کا مال اجازت کے بغیر کھا رہے ہیں انہوں نے فرمایا اے بے وقوف ! میرے سامنے کھانے سے متعلق آیت کریمہ پڑھی۔ 


الحمد اللہ ہمارے دین اسلام نے ہماری ہر معاملے کے اندر رہنمائی فرمائی جب حقوق العباد کی باری آئی تو ہمارے دین اسلام اور ہمارے بزرگوں نے ہماری رہنمائی فرمائی اور جہاں آقا مدینے کے تاجدار  ﷺ نے والدین کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق کی تاکید فرمائی اسی طرح میزبان کے حقوق کو بھی ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔

(1) غیر شرعی چیز دیکھنے پر لوٹ آنا۔حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو دعوت دی تو انہوں نے گھر میں دیوار پر پردہ دیکھا حضرت ابن عمر نے معذرت میں کہا: ہم پر اس معاملے میں عورتیں غالب ہوگئی ہیں حضرت ابو ایوب نے کہا : اس سے میں ڈرتا تھا مگر آپ کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا بخدا ! میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا لہذا واپس ہوگئے -( نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری صفحہ 251 جلدی 5 )

(2)- عیب نہ نکالنا۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے بھی کسی کھانے کو عیب نہ لگایا پسند آیا تو تناول فرما لیا نہ آیا تو چھوڑ دیا-(فیضان رياض الصالحین جلد 6 صفحہ 181)

(3)میزبان کے لیے دعا کرنا - میزبان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے ترجمہ : اے اللہ ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔(الجامع الترمذی ، حدیث نمبر : 3576)

(4)- بن بلائے نہ جانا ۔ ترجمہ نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو -حدیث مبارکہ : جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا ( احیاء العلوم جلد 2 ص 32)

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہمیں زندگی کے رہنے کے ہر اصول سکھائے ہیں جس طرح مہمانوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح میزبانوں کے بھی کچھ حقوق اسلام نے ہمیں دیئے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ باتیں بیان کرتے ہیں۔

1) میزبان کی مصروفیت کا خیال ۔اہل سنت کا رسالہ 103 سنتیں اور آداب میں ہے مہمان کو چاہیے اپنے میزبان کے مصروفیات اور ذمہ داری کا خیال رکھے ۔(103 سنتیں اور اداب صفحہ نمبر 15)

2) میزمان جو کھلائے وہ کھا لینا ۔حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اسے جو کچھ کھلائے پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش اور نہ کوئی جستجو کرے۔(ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)

3) میزبان کے پاس زیادہ دیر تک نہ ٹھہرنا ۔کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گنہگار کر دے عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم وہ اسے کیسے گناہگار کرے گا ۔ فرمایا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو وہ پیش کرے ۔( ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 601)

4) میزبان نے جہاں بٹھایا وہاں بیٹھ جانا ۔اگر میزبان کسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کر دے تو وہیں بیٹھے کیونکہ بسا اوقات اس نے اپنے ذہن میں ہر ایک کی جگہ مقرر کی ہوتی ہے تو اس کی بات نہ ماننے سے اس کو تشویش ہوگی ۔(احیا العلوم جلد نمبر دو صفحہ نمبر 52)

5) پردے والی جگہ پر نہ جانا۔مہمان کو چاہیے جب وہ گھر میں جائے تو عورتوں کے کمرے اور دروازے کے پاس یہاں پردے والی جگہ کے سامنے نہ بیٹھے ۔(احیا العلوم جلد نمبر دو صفحہ نمبر 52)