"یہ بات سنت نہیں کہ آدمی دوسروں کے کھانا کھانے کے وقت کا انتظار کریں اور اس وقت ان کے پاس جائے کیونکہ یہ اچانک جانا ہے اور اس سے روکا گیا ہے ۔ایک حدیث مبارکہ میں  ہے۔ جو آدمی دعوت کے بغیر کسی کے ہاں کھانے کے لیے جائے وہ فاسق بن کر جاتا ہے اور حرام کھاتا ہے (سنن ابی داؤد جلد دو صفحہ 169کتاب الاطعمہ)

وضاحت ۔لیکن اگر جانے والا کھانے کی انتظار کے بغیر اتفاقا کھانے کے وقت چلا گیا تو جب تک اسے اجازت نہ دی جائے نہ کھائے جب اسے اجازت دے دی جائے تب وہ کھا لے ۔

اگر وہ محبت سے شریک کر رہا ہے تو شرکت کرے اور اگر وہ شرم و حیا کے طور پر کہتا ہے تو نہیں کھانا چاہیے بلکہ کوئی عذر پیش کر دے البتہ بھوکا ہو اور کوئی مسلمان بھائی کھلانا چاہے اور اس نے اس کے کھانے کے وقت کا انتظار بھی نہیں کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں کھانا کھلانے کا ثواب حاصل کرنے پر اس مسلمان بھائی کی مدد کرنا یہ بزرگوں کی عادت ہے صاحب خانہ گھر پر نہ ہو اور اسے اس کی دوستی پر کامل یقین ہو نیز وہ جانتا ہو کہ وہ اس کے کھانے پر خوش ہوگا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضامندی ہے بالخصوص کھانے کے بارے میں اور اس کا معاملہ کشادگی پر مبنی ہے اور بعض لوگ صراحتا اجازت دے دیتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں لیکن وہ دل سے راضی نہیں ہوتے ایسے لوگوں کا کھانا کھانا مکروہ ہے اور بہت سے غیر موجود جو اجازت نہیں دیتے لیکن ان کا کھانا پسندیدہ ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم حضرت بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں کھانا تناول فرمایا حالانکہ وہ گھر پر موجود نہ تھیں اور کھانا بھی صدقے کا تھا آپ نے فرمایا صدقہ اپنے مقام کو پہنچ گیا (مسند امام احمد بن حنبل جلد چھ صفحہ 18 مرویات عائشہ)

وضاحت ۔(یعنی صدقہ حضرت بریرہ تک پہنچ گیا اب اس کی حیثیت صدقہ والی نہیں)آپ نے یہ کھانا اس لیے کھایا کہ آپ جانتے تھے وہ اس پر خوش ہوں گی اس لیے اس گھر میں اجازت حاصل کیے بغیر داخل ہونا جائز ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اجازت دے دے گا اگر یہ بات معلوم نہ ہو تو اجازت لیے بغیر اندر نہ جائے حضرت محمد بن واسع اور ان کے ساتھی رحمہم اللہ حضرت حسن بصری رحمت اللہ کے گھر اجازت کے بغیر جاتے جو کچھ ملتا کھاتے تھے حضرت حسن تشریف لائے تو دیکھ کر خوش ہوتے اور فرماتے ہم بھی ایسے ہی کرتے تھے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ بازار میں پھل بیچنے کی دکان سے پھل کھا رہے تھے( کبھی چمڑا چڑھائی گئی) اس ٹوکری سے انجیر نکالتے اور کبھی دوسری ٹوکری سے خشک کھجور نکالتے ہشام نے پوچھا اے ابو سعید! آپ اس قدر پرہیزگار ہونے کے باوجود دوسرے کا مال اجازت کے بغیر کھا رہے ہیں انہوں نے فرمایا اے بے وقوف ! میرے سامنے کھانے سے متعلق آیت کریمہ پڑھی۔