دانش علی (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
معاشرے میں
لوگ مہمان بن کر دوسروں کے گھر جاتے ہیں۔ لیکن انہیں وہاں کے اصول کا پتا نہیں
ہوتا۔ جو مہمان میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتا اگر چہ گھر والے نے کتنی ہی
تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو کوئی بھی شخص دعوت کے بغیر کسی کے یہاں کھانا
کھانے نہ جائے۔ جہاں اس کو بٹھایا جائے . وہیں بیٹھے زیادہ دیر نہ بیٹھے جس کے لیے
اسے کوئی حرج اور تکلیف کا سبب نہ ہو رخصت کے وقت اپنے اعزا ز وا کرام کی بنا پر میزبان
کا شکریہ ادا کرے۔ ہمیں میزبان کے حقوق پر بھی عمل کرنا چاہیے:
آئیے چند احادیث
ملاحظہ کیجئے ۔
1
؛ میزبان کو تکلیف نہ دینا :روایت
ہے حضرت ابو شریح سے کہ رسول الله صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو الله اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ اپنے
مہمان کا احترام کرے ۔اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ
صدقہ ہے۔ مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے- (مراۃ
المناجیح . ج ، 6 ، باب : دعوت کا بیان ، ص،66 )
2
; آخر تک بیٹھنا :روایت ہے حضرت
ابن عمر سے فرماتے ہیں۔ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دستر خوان رکھا جائے تو کوئی شخص نہ اٹھے تا
آنکہ دستر خوان اٹھا لیا جائے اور نہ اپنا ہاتھ اٹھائے اگر چہ سیر ہو جائے۔(مراۃ
المناجیح ، ج 6، باب : دعوت کا بیان ، ص، 75 )
3 ؛ میزبان کی دل آزاری نہ کرنا : میزبان کی دل آزادی سے بچنے کیلئے چاہیے کہ میزبان کے لئے دعائے خیر کرے وہاں کچھ
دیر نماز پڑھ لے اس سے میزبان بھی خوش ہو جائے گا اور روزہ بھی نہ توڑنا پڑے گا ۔
(فیضان ریاض الصالحین ،ج 6، ص 186 ، مكتبة المدينة )
4
؛ دعوت قبول کرنا :عن ابی هریرة رضی اللہ عنہ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا دُعِی أَحَدُكُمْ، فلیجب فَإِنْ كَانَ صَائِمًا
فَلْيُصل ،وان کان مغطر فلیطعم ۔ترجمہ:حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی. جائے تو اسے چاہیے
کہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو (میزبان) کے لئے دعا کرے اور اگر روزہ دار
نہ ہو تو کھانا کھا لے۔( مسلم . كتاب النکاح ، باب الامر باجابة الداعى الى دعوة ص
, 576 . حدیث : 3520 )
5
؛ غیبت نہ کرنا :مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے کھانا کی غیبت نہ کرنا۔ چنا نچہ حضرت سیدنا ابراہیم
بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ کہیں کھانے کی دعوت پر تشریف لے گئے لوگوں نے آپس میں کہا
کہ فلاں شخص ابھی تک نہیں آیا۔ ایک شخص بولا : وہ موٹا تو بڑا سست ہے۔ اس پر حضرت
سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ رحمة الله الاکرم اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے فرمانے
لگے: افسوس ! میرے پیٹ کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آئی ہے کہ میں ایک ایسی مجلس (یعنی
بیٹھک) میں پہنچ گیا جہاں ایک مسلمان کی غیبت ہو رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہاں سے واپس تشریف لے گئے اور (اس صدمے سے) تین
(اوربر وایت دیگر سات دن تک کھانا نہ کھایا۔ ( غیبت کی تباہ کاریاں، ص : 204 مکتبۃ
المدینہ) (تنبیه الغافلین ، ص: 89 )