اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہمیں ہر چیز کا علم دیا ہے جس طرح میزبان کے مہمان پر کچھ حقوق ہیں اسی طرح مہمان کے میزبان پر کچھ حقوق ہیں آئیے ہم ذکر کرتے ہیں ۔

1)میزبان کے لیے دعا کرنا ۔میزبان کے لیے دعا کرنا اس کا حق ہے ۔( اَلّٰلہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فَیْ مَا رَزَقَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَارْحَمْھُمْ)ترجمہ: اے اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما(الجامع الترمذی حدیث نمبر 3576)

2)بن بلائے نہ جانا ۔نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اِذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص بن بلائے دعوت میں گیا فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔(احیاء العلوم جلد نمبر 2 صفحہ 32)

3)بوجھ نہ بننا ۔حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے ایک دن ایک رات اس کا جائز ہے اور تین دن ضیافت ہے اور اس سے زیادہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اس کو تکلیف ہو۔(فیضان سنت صفحہ نمبر 822)

4)پہلے سلام کرے پھر اجازت لے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے اس کو اجازت نہ دو گھر میں داخلہ کی اجازت مانگنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ فورا گھر میں باہر والے کی نظر نہ پڑے آنے والا باہر سے سلام کر رہا ہو اجازت پا رہا ہو اور صاحب خانہ پردہ وغیرہ کا انتظام کر لیں نیز اجازت مانگنے والے کو جلد بازی بھی زیب نہیں دیتی جس سے صاحب خانہ پریشان ہو جائے۔(فیضان نے سنت صفحہ نمبر 664)

5) غیر شرعی چیز دیکھے تو لوٹ آئے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دعوت دی انہوں نے گھر میں دیوار پر پردہ دیکھا حضرت ابن عمر نے معذرت میں کہا ہم پر اس معاملے میں عورت غالب ہو گئی ہیں حضرت ابو ایوب نے کہا اس سے میں ڈرتا تھا مگرآپ کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا بخدا میں تمہارے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا تو واپس ہو گئے ۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 صفحہ 251)