اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے -وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ ۔ (ھود،پ 12،آیة،69)ترجمہ کنزالعرفان :”اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے“۔

اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ۔"وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى" :(اور بے شک ہمارے فرشتے ابراھیم کے پاس خوشخبری  لے کر ائے )اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سادہ رو نوجوان کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیھما الصلاۃ والسلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے- فرشتوں نے "سلام" کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا- پھر تھوڑی دیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھنا ہوا بچھڑا لے آئے- مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا تناول نہ فرماتے- اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ 15 روز سے کوئی مہمان نہ آیا- آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اس کا بہت غم تھا- اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے لیے کھانا لانے میں جلدی فرمائی- چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے یہاں گائے بکثرت تھیں- اس لیے بچھڑے کا گوشت سامنے لایا ۰

اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام بہت مہمان نواز تھے- جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالی نے قران کریم میں فرمایا

میزبان کے آداب ۔

(1)میزبان مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سوالات نہ کرے مثلا کہنا کہ ہمارا گھر کیسا لگا؟

(2)میزبان اس طرح کا سوال بھی نہ کرے ”آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟ “کہ یہاں بھی جوابا جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ کم کھانے کی عادت یا پرہیزی یا کسی بھی وجہ سے کم کھانے کے باوجود اصرار و تکرار سے بچنے کے لیے مہمان کو جھوٹ موٹ کہنا پڑ جائے کہ ”میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے“-

(3)میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتا فوقتا کہے کہ ”اور کھاؤ “مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ اس کے لیے نقصان دہ ہو-

(4)میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہو جائے بلکہ وہاں حاضر رہے

(5)بعض اوقات کھانے کے موقع پر مہمان پر ایک شخص مقرر کر دیا جاتا ہے جو اپنے ہاتھ سے مہمان کی پلیٹ میں کھانا یا سالن،بوٹی وغیرہ ڈالتا رہتا ہے،مہمان کو اس سے پریشانی ہو سکتی ہے،مثلا وہ بوٹی کھانے سے بچنا چاہتا ہے اور میزبان کاآدمی بوٹیاں ڈالے جا رہا ہے-

(6)میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمے اس کو نہ چھوڑے کہ یہ (یعنی مہمان کی آؤ بھگت)حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے ،جو شخص اپنے(مسلمان) بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اس سے قیامت میں اس کھانے کا حساب نہ ہوگا-

(7)اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھا لیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ یہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی کچھ زیادہ کھا لینے کی اجازت ہے جبکہ اتنی ہی زیادہ ہو جس سے معدہ خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو-

(8)میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو۔