عرفان ساجد (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے میٹھے
اور پیارے اسلامی بھائیو! مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو
مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان
نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی
شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان
کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد
یہ ہے کہ مثلاً بحیثیتِ مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا
اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا. اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان
سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ میرے
پیارے اسلامی بھائیوں اس دور میں رشتوں کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کے ہم ایک
دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم آپس میں ملتے نہیں پھر یونہی
ہمارے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں میرے محترم اسلامی بھائیوں ہمیں اس کا ہل تلاش
کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دعوت و مہمان نوازی کریں جس کے ہمیں د
نیوی و اُخروی فوائد ہوں۔(آئیں کچھ میزبان کے حقوق کے متعلق سنتے ہیں۔)
(1)مومن
کی دعوت قبول کرنا۔جب انسان کو اس
کا مومن بھائی مدعو کرے تو اسے چاہیے کہ خندہ پیشانی سے اس کی دعوت کو قبول کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « میں اپنی امت کے حاضرین اور غائبین سے یہ خواہش رکھتا
ہوں کہ اگر انہیں کوئی مسلمان دعوت کرے تو اسے قبول کریں. اگرچہ اس دعوت کے لیے
انکو پانچ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے کیونکہ یہ کام جائز دین ہے
(2)تکلفات
سے پرہیز۔مہمان نوازی کی ایک آفت
اسراف کا شکار ہوجانا ہے اس آفت کا شکار فقط آج کا ہی انسان نہیں بلکہ زمانہ قدیم
سے ہی ہر مہمان نواز اس آفت کا شکار رہا ہے، البتہ آج کل کے دور میں ریاکاری،
خودنمائی اور نمود و نمائش کی بیماری ماضی کی نسبت بڑھ گئی ہے. اسلام نے حکم دیا
ہے کہ مہمان کو نا صرف تکلفات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے بحیثیتِ مہمان
حکم دیا گیا ہے کہ وہ میزبان سے تقاضا کرے کہ وہ تکلفات میں نہ پڑے. امام رضا نقل
کرتے ہیں: ایک شخص نے حضرت علی کو دعوت دی تو امام نے اسے فرمایا: میں تمہاری دعوت
قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میری تین باتیں قبول کرنا ہوں گی، اس شخص نے
کہا کہ وہ تین باتیں کون سی ہیں یا امیرالمومنین؟ امام نے فرمایا: ہمارے لیے باہر
سے کوئی چیز نہیں لاؤگے، جو بھی گھر میں موجود ہو اسے لانے میں نہیں کتراؤ گے اور
تیسرا یہ کہ اپنے گھر والوں کو کسی زحمت میں نہیں ڈالو گے. یہ سن کر اس شخص نے کہا
مجھے آپ کی تینوں باتیں قبول ہیں پس امام نے بھی اس کی دعوت قبول کر لی۔
(3)کھانے
میں شرم نہ کریں۔بعض افراد ایسے بھی
ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی
تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار
کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے کھانا کھا لیں۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب
تمہارا مومن بھائی تم سے کھانا کھانے کا
تقاضا کرے تو کھا لو میزبان کو مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کو قسم دے. کیونکہ کھانا
کھانے کی دعوت دے کر وہ آپ کا احترام بجا لانا چاہ رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر امام
ارشاد فرماتے ہیں: «ایک شخص کی اپنے مومن بھائی سے محبت اس کے بھائی کی دعوت پر اس
کے مناسب مقدار میں کھانا کھانے سے پتہ چلتی ہے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ شخصِ مہمان
میری دعوت پر کھانا کھاۓ اور
اچھا مناسب مقدار میں کھاۓ، اس کام سے مجھے وہ خوشحال کرتا ہے۔
(4)میزبان
کے پاس ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرنا۔نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا
جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے
گناہ میں ڈال دے. اصحاب نے پوچھا کہ زیادہ دن مہمانی پر ٹھہرنے سے میزبان کو کونسے
گناہ میں ڈالتے ہیں؟ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کس طرح سے اسکو گناہ میں
ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح سے کہ اس کے ہاں زیادہ دن ٹھہر کر
کچھ بھی باقی نہ بچے کہ وہ آپ کے لیے اب خرچ کرے۔
(5)جہاں
میزبان بٹھا دے، بیٹھ جائیں۔
امام باقر کا
فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی اپنے برادرِ دینی کے گھر داخل ہو تو اسے چاہیے کہ
جہاں پر اسے میزبان بٹھا دے وہیں پر بیٹھ جاۓ، کیونکہ صاحب خانہ اپنے گھر کی جگہوں کو مہمان
سے بہتر جانتا ہے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں میزبان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)