خوفِ خدا کی دولت نصیب ہو جانا بھی عظیم نعمت ہے، قرآن وحدیث میں کئی مقامات پر اس کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی اور اسے نیکوں کا طریقہ بھی قرار دیا گیا۔

رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-ترجَمۂ کنزُالعرفان: تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں اور بہت زیادہ روئیں۔(پ10،التوبہ: 82)

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس کی ترغیب دی اور فرمایا اگر رونا نہ آئے تو بھی کوشش کرو، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو کیونکہ جہنمی جہنم میں روئیں گے حتی کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پر اس طرح بہیں گے گویا کہ وہ نہریں ہیں یہاں تک کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر ان کا خون بہنے لگے گا اور وہ خون اتنا زیادہ بہہ رہا ہوگا کہ اگر اس میں کشتی چلائی جائے تو چل پڑے۔

(شرح السنہ،7/565،حدیث:4314)

ایک حدیث پاک میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: خوفِ خدا سے رونے والا جہنم میں داخل نہیں ہوگا حتی کہ دودھ تھن میں واپس آجائے۔(شعب الایمان، 1/490،حدیث:800)

اس حدیث کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: یعنی جیسے دوہے ہوئے دودھ کا تھن میں واپَس ہونا ناممکن ہے ایسے ہی اس شخص کا دوزخ میں جانا ناممکن ہے۔(مراٰۃ المناجیح،5/436)

خوفِ خدا میں گرنے والا معمولی سا آنسو بھی بڑی فضیلت کا حامل ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حُضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر، خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ گریں گے تو اللہ پاک اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔

(ابن ماجہ،4 /467، حدیث:4197)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو فرماتے ہوئے سنا: دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی: (1)وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی اور (2)وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔

(ترمذی،3/239،حدیث:1645)

حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیتِ مبارَکہ نازِل ہوئی: اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو کیا اس بات سے تم تَعجُّب کرتے ہو، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔(پ27، النجم:59، 60) تو اَصحابِ صُفَّہ رضی اللہُ عنہ اِس قدر روئے کہ ان کے مبارَک رُخسار (یعنی پاکیزہ گال) آنسوؤں سے تَر ہو گئے۔ انہیں روتا دیکھ کر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی رونے لگے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ صاحِبان اور بھی زیادہ رونے لگے۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جہنم میں داخِل نہیں ہوگا جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔

(شعب الایمان،1/389،حدیث:798)

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے خوف میں رونا نصیب کرے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

خوف خدا اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں رونا ایک عظیم الشان "نیکی" ہے ۔اس لیے حصول ثواب کی نیت سے نیکی کی دعوت پیش کرتے ہوئے رونے کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔کاش کہیں ہم بھی سنجیدگی اپنانے اور خوف خدا  وعشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں آنسو بہائیں۔

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذکر محبت عام ہے لیکن سوز محبت عام نہیں

(1)۔ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: جس مومن کی آنکھوں سے خوف خدا کے سبب آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے کو پہنچے تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ:4/467)

حجت الاسلام حضرت سیدنا امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامجب نَماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا عزوجل کے سبب اِس قَدَرگِریہ و زاری فرماتے (یعنی روتے)کہ ایک مِیل کے فاصِلے سے ان کے سینے میں   ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔

(اِحیاء الْعُلوم  4/224)

جی چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے

اللہ !مگر دل سے قساوت نہیں جاتی

سلطان انبیاء شاہ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے : ’’اللہ تَعَالٰی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے پہلو اس کے خوف کی وجہ سے لرزتے رہتے ہیں ، ان کی آنکھ سے گرنے والے ہر آنسو سے ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، جو کھڑے ہوکر اپنے رب عزوجل کی پاکی بیان کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ (شعب الایمان ، 1/521، رقم الحدیث 914 )

رحمت عالمیان سردار دو جہاں محبوب رحمان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ 

(شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت  حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رحمۃُ الحَنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں  : یعنی جیسے دوہے ہوئے دودھ کا تھن میں   واپَس ہونا ناممکن ہے ایسے ہی اس شخص کا دوزخ میں   جانا ناممکن ہے۔ جیسے ربّ تعالیٰ فرماتا ہے:

حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: جب تک سُوئی کے ناکے اونٹ نہ داخل ہو۔( پالاعراف 40)

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار نامدار ،دو عالم کے مالک و مختار ،شہنشاہ ابرار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد خوشگوار ہے: جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے اللہ پاک اس کی بخشش فرما دے گا ۔(ابن ماجہ 5/296)

حضرت سیِّدُنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلم !نجات کیا ہے؟ارشادفرمایا: اپنی زبان قابومیں رکھو،تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہواور اپنی خطاؤں پر رويا كرو۔(سنن الترمذی ، کتاب الزھد،4/ 182، حدیث: 2414)

حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ ُسے مروی ہے کہ جب یہ آیتِ مبارَکہ نازِل ہوئی:

اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)

ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تم تَعجُّب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں   ۔( پ27،النجم:60،59) تو اَصحابِ صُفَّہ رضی اللہ عنہم اِس قَدَر رَوئے کہ ان کے مبارَک رُخسار (یعنی پاکیزہ گال) آنسوؤں   سے تَر ہو گئے ۔ انہیں   روتا دیکھ کر رَحمتِ عالم   صلی اللہ علیہ وسلم  بھی رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ صاحِبان اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا جو اللہ تعالٰی کے ڈر سے رَویا ہو ۔

(شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص489 حدیث 798)


خوف کی تعریف: اس بات کو ذہن نشین کر لیجیے کہ مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز کے درپیش آنے کے خدشے کے سبب دل میں پیدا ہونے والے درد ،سوزش اور گھبراہٹ کو خوف کہا جاتا ہے۔( احیاء العلوم 4/451)

امام محمد بن محمد غزالی علیہ رحمتہ اللہ الوالی نے فرمایا:میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے خوف سے رونے کے بارے میں جو فضائل وارد ہیں وہ خوف خدا کی فضیلت کو بھی ظاہر کرتے ہیں کیونکہ رونا اسی خوف کا نتیجہ ہے۔

ارشاد باری تعالی: فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-

ترجمہ کنز الایمان: تو انہیں چاہئے کہ تھوڑا ہنسیں اور بہت روئیں ۔(پ:10،التوبۃ:82)

ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

(پ2، آل عمران: 102)

فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس مومن کی آنکھوں سے خوف خدا کے سبب آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے کو پہنچے تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ:4/467)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان: اللہ عزوجل کے خوف کے سبب جب مؤمن کا دل کانپتا ہے تو اسکے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔

(مسند البزار 4/148)

پھر فرمایا:خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائےگا؟"تو فرمایا؛" ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔

(احیا العلوم، کتاب الخوف والرجاء:4/200)

پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس دن عرش الٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اس دن اللہ عز و جل سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا ،ان میں سے ایک وہ شخص جو تنہائی میں اللہ عزوجل کو یاد کرے اور خوف خدا سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلیں۔( بخاری 1/236،حدیث:660)

امیرُالمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے ۔‘‘(اِحیاء الْعُلوم ،4/201)

حضرت سیِّدُنا کَعْبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضَۂ قدرت میں میری جان ہے!میںاللہ عزوجل کے خوف سے روؤں یہاں تک کہ میرے آنسو رخساروں پر بہیں یہ میرے نزدیک پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

(احیاء العلوم 4/480)


اس حقیقت سے کسی مسلمان کوئی انکار نہیں ہو سکتا کہ زندگی کے مختصر ایام گزارنے کے بعد ہر ایک کو اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے جس کے بعد ہماری طرف رحمت الہی متوجہ ہونے کی صورت میں جنت کی اعلی نعمتیں ہمارا مقدر بنے گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم  کی بڑی بڑی سزائیں ہمارا مقدر بنیں۔

لہذا اس دنیائے فانی کی لذتوں ، مسرتوں اور عیاشیوں میں گم ہو کر غفلت کا شکار مت بنیں، ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم رب کائنات اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کریں اور گناہوں سے پرہیز کریں۔ اس مقصد عظیم کو حاصل کرنے کے لیے دل میں خوف خدا عزوجل کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ آئیے اسی نسبت سے خوف خدا میں رونے کے فضائل پڑھتے ہیں۔تا کہ ہمارے دلوں میں بھی خوف خدا پیدا ہو۔

خوف خدا کا مطلب :

خوف خدا عزوجل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بےنیازی اس کی ناراضگی اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ سے مبتلا ہو جائے۔

پیارے اسلامی بھائیوں اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں اس صفت ( خوف و خدا )کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا: ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔

( پ 22،أحزاب:70)

ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو ! اپنے رب سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔

( پ 4،النساء:1)

ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان ۔(پ2، آل عمران: 102)

ترجمہ کنز الایمان : اور خاص میرا ہی ڈر رکھو ۔(پ 1،البقرہ:40)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس صفت عظمی کو اپنانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا :اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد خوف زیادہ رکھنا ۔(احیا ءالعلوم :4/198)

اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حکمت کی اصل اللہ تعالی کا خوف ہے۔ (شعب الایمان جلد 1 ص 470حدیث 743)

خوف خدا سے رونے کا فضائل:

دو جنتوں کی بشارت: سورہ رحمن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لیے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔

(پ :27، الرحمن: 46)

آخرت میں کامیابی: اللہ تعالی سے ڈرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

ترجمہ کنز الایمان: اور آخرت تمہارے رب کے پاس پرہیز گاروں کے لیے ہے ۔

(پ 25،الزخرف:35)

جہنم سے چھٹکارا: اللہ تعالی کاخوف جہنم سے بھی چھٹکارا کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ کنزالایمان: اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے زیادہ پرہیز گار۔

اسے آگ سے نکالو : حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رحمتِ کونین صلّی اللہُ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ تَعَالٰیفرمائے گا کہ اسے آگ سے نکالو جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام میں میرا خوف کیا ہو۔

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ  تعالٰی ، 1/470، رقم الحدیث :740)

ہر چیز اس سے ڈرتی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ تعالی کے سوا کسی سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ہر شے سے خوفزدہ کرتا ہے۔

دن رات روتے رہتے:حضرت علی بن بکار بصری رضی اللہ عنہ بہت بڑے محدث اور زہد و تقوی سے متصف بزرگ تھے آپ کے دل پر خوف خدا کا اتنا غلبہ تھا کہ دن رات روتے رہتے ہیں حتی کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔( خوف خدا ص:73)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے خوف سے ہر دم لرزہ رکھے۔ آمین بجاہ النبی المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم


اس دنیاوی زندگی کی رونقوں، مسرتوں اور رعنا ئیوں میں کھو کر حساب آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہو جانا یقینا نادانی ہے۔ یاد رکھئے ! ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم رب کائنات عزوجل اور اس کے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔ اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دل میں خوف خدا عزوجل کا ہونا بے حد ضروری ہے۔

فطری طور پر انسان ہر اس چیز کی طرف آسانی سے مائل ہو جاتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔ اس تقاضے کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور اکابرین و بزرگان دین کے اقوال مبارکہ میں بیان کردہ خوف خدا عزوجل کے بارے میں پڑھا جائے۔

خوف خدا عزوجل کے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں:

اللہ تعالی نے سورہ رحمٰن میں خوف خدا عزوجل رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔

(پ :27، الرحمن: 46)

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس مُؤمِن کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں اگرچِہ مکھی کے سرکے برابر ہوں ، پھر وہ آنسو اُس کے چہرے کے ظاہِر ی حصّے کو پہنچیں تو اللہ عزوجل اُسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے ۔ ‘‘

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تعالی ، 1 / 491 ، حدیث : 802)

حضرت سیدنا ابراہیم بن شیبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کہ جب دل میں خوف خدا عزوجل پیدا ہو جائے تو اس کی شہوات کو توڑ دیتا ہے، دنیا سے بے رغبت کر دیتا ہے اور زبان کو ذکر دنیا سے روک دیتا ہے۔

اللہ عزوجل ہم سب کو خوف خدا عزوجل میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: خوف خدا عزوجل کی مزید تفصیل حاصل کرنے کے لیے مجلس المدینۃ العلمیہ کی بہترین کتاب "خوف خدا "کا مطالعہ فرمائیں۔


خوف خدا میں رونے کے بہت فضائل ہے۔ خوف خدا میں رونا سعادت کی بات ہے، اس سے دل نرم ہو تا ہے ،نمازوں اور عبادات میں دل لگتا ہے اور گناہوں سے بچت حاصل ہوتی ہے۔ خوف خدا عزوجل میں رونا یہ ہمارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور تمام صحابہ کرام خوف خدا  عزوجل میں روئے۔

خوف خدا سے رونا سنت ہے: حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیتِ مبارَکہ نازِل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰) ( پ27،النجم:60،59)ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تم تَعجُّب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں   ۔

            تو اَصحابِ صُفَّہ رضی اللہ عنہم اِس قَدَر رَوئے کہ ان کے مبارَک رُخسار (یعنی پاکیزہ گال) آنسوؤں   سے تَر ہو گئے ۔ انہیں   روتا دیکھ کر رَحمتِ عالم   صلی اللہ علیہ وسلم  بھی رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ صاحِبان اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا جو اللہ تعالٰی کے ڈر سے رَویا ہو ۔(شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص489 حدیث 798)

ایک مرتبہ سروَر ِ کونین، رَحمتِ دارین، نانائے حَسَنَین صلی اللہ علیہ وسلم  نےخُطبہ دیا تو حاضِرین میں   سے ایک شخص رو پڑا ۔ یہ دیکھ کر آپ صلّی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مُؤمِن موجود ہوتے جن کے گناہ پہاڑوں   کے برابر ہیں   تو انہیں   اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا کیونکہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دُعا کر رہے تھےاَللّٰہُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَّمْ یَبْکِ یعنی اے اللہ عزوجلنہ رونے والوں   کے حق میں   رونے والوں   کی شَفاعت قَبول فرما۔

 (شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص494حدیث 810)

فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وسلم  ہے: جس مُؤْمِن کی آنکھوں   سے اللہ عزوجل کے خوف سے آنسو  نکلتے ہیں   اگرچِہ مکّھی کے سرکے برابر ہوں   ،پھر وہ آنسو اُس کے چِہرے کے ظاہِر ی حصّے کو پہنچیں   تو اللہ عزوجل اُسے جہنَّم پر حرام کر دیتاہے۔  (ایضاًص491حدیث 802 )

قلبِ مُضطَر چشمِ تر سوزِ جگر سینہ تَپاں

طالبِ آہ و فُغاں   جانِ جہاں  ! عطارؔ ہے

(وسائلِ بخشش ص222)

حضرتِ سَیِّدُنااَنَس رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار شَہَنشاہِ اَبرار صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ خوشگوار ہے:جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے ، اللہ عزوجل اس کی بخشش فرما دے گا۔(ابنِ عدی ،5/396)

حدیث پاک اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ 

(شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت  حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں  : یعنی جیسے دوہے ہوئے دودھ کا تھن میں   واپَس ہونا ناممکن ہے ایسے ہی اس شخص کا دوزخ میں   جانا ناممکن ہے۔ جیسے ربّ تعالیٰ فرماتا ہے:

حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: جب تک سُوئی کے ناکے اونٹ نہ داخل ہو۔( پالاعراف 40)

اسی طرح ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ بزرگان دین رحمہ اللہ المبین خوف خدا سے روتے اور دوسروں کو. کی ترغیب دلاتے چنانچہ اسلام کے پہلے خلیفہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے ۔‘‘(اِحیاء الْعُلوم ،4/201)

اسی طرح اسلام کے چوتھے خلیفہ مولائے کائنات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جب تم میں   سے کسی کوخوفِ خدا عزوجل سے رونا آئے تو وہ آنسوؤں   کو کپڑے سے صاف نہ کرے بلکہ رُخساروں   پر بہ جانے دے کہ وہ اِسی حالت میں ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں   حاضِر ہو گا ۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان  ،1/493،حدیث :808)

اسی طرح دیگر تمام صحابہ کرام بھی خوف خدا سے روتے اور دوسرے کو ترغیب دلاتے ہیں۔ چنانچہ بارگاہ نبوت سے تربیت یافتہ شخصیت حضرتِ سَیِّدُناعبدُاللّٰہ بِن عَمرْو بِن عاص رضی اللہ عنہمَانے فرمایا:’’اللہ تعالٰی کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صَدَقہ کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص502حدیث 842)

یہ تو صحابہ کرام تھے جو کہ یقینی جنتی ہونے کے باوجود خوف خدا سے روتے اور دوسروں کو بھی رونے کی تلقین فرماتے رہتے۔ اس کے علاوہ اگر ہم بزرگان دین اور وہ اولیاء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خوف خدا سے روتے اور دوسروں کو بھی رونے کی ترغیب دیتے ۔چنانچہ، زمانہ کے مشہور بزرگ حضرت سیدنا ابو سلیمان دارانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: خوف خدا عزوجل کے بائث جو آنکھیں ڈبڈائیں گی( یعنی آنسوؤں سےبھر جائیں گی) اس چہرے پر قیامت کے دن سیاہی اور ذلت نہیں چڑھے گی اور اگر ان ڈبڈانے والی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گی تو اللہ تعالی ان آنسوؤں کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی آگ کے کئی سمندر بجھا دے گا۔ اور جس قوم میں سے کوئی شخص خوف خدا عزوجل کے سے روتا ہے اس قوم پر رحم کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم 4/201)

پیارے اسلامی بھائیوں خوف خدا عزوجل میں رونا نصیب کی بات ہے۔ یہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا ۔

اللہ کریم ہمیں اپنا خوف عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


زمین بھر رحمت :حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ اگر میرا بندہ آسمان بھر کے گناہ کر بیٹھےپھر مجھ سے بخشش چاہے اور امید مغفرت رکھے تو میں اس کو بخش دوں گا اور اگر بندہ زمین بھر کے گناہ کرے تو بھی میں اس کے واسطے زمین بھر رحمت رکھتا ہوں۔

( کیمیائے سعادت ، ص 813)

پیارے اسلامی بھائیوں فکر مدینہ کے دوران ہو سکے تو رونے کی کوشش کیجئے اور اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لیجئے کہ یہ رونا ہمیں رب تعالی کی ناراضگی سے بچا کر اس کی رضا تک پہنچائے گا۔ بطور ترغیب ان روایت کو ملاحظہ فرمائیں۔

ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا :حدیث پاک میں رَحمتِ عالمیان صلّی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا:’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

بخشش کا پروانہ : حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ ُسے مَروی ہے کہ سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار شَہَنشاہِ اَبرار صلّی اللہُ علیہ و سلم کا ارشادِ خوشگوار ہے:جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے ، اللہ عزوجل اس کی بخشش فرما دے گا۔

(ابنِ عدی ،5/396)

نجات کیا ہے: حضرتِ سیِّدُنا عُقبہ بن عامِر رضی اللہ عنہ نے عرض کییارَسُوْلَ اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلم !   نَجات کیا ہے؟ فرمایا(1) اپنی زَبان کو روک رکھو ( یعنی اپنی زَبان وہاں  کھولو جہاں   فائدہ ہو،نقصان نہ ہو ) اور (2)تمہارا گھر تمہیں   کِفایت کرے (یعنی بِلا ضَرورت گھر سے نہ نکلو) اور (3)گناہوں پر رَونا اختیار کرو۔(سُنَنِ تِرمِذی 4/186)

بلا حساب جنت میں: حضرتِ سیِّدُتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی،"یا رسول اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلم ! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟" تو فرمایا،"ہاں! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئے۔

(احیاء العلوم،کتاب الخوف والرجاء،جلد04،صفحہ نمبر 200)

مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا :مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِىْ عَيْنَيْنِ هَطَالَتَيْنِ تُشْفَيَانِ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ قَبْلَ أَنْ تَصيرَ الدُّموعَ دَمَأً وَالْاَضْرَاسُ جمرَأً۔

اے اللہ عزوجل! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو کثرت سے آنسو بہاتی ہوں اور آنسو گرنے سے تسکین دے،اس سے پہلے کہ آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگاروں میں بدل جائیں۔(احیاء العلوم، کتاب الخوف والرجاء :4/200)

رونے جیسی صورت بنا لے : امیرُالمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے ۔

(اِحیاء الْعُلوم ،4/201)


 خوف خدا عزوجل میں رونا ایک عظیم الشان نیکی ہے اور یہ مقدر والوں کا ہی حصہ ہے۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رونے والے کی برکت سے نہ رونے والوں کا بھی بیڑا پار ہو جاتا ہے۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت ہی بنا لے کیونکہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی خوف خدا کی وجہ سے رو پڑے تو ہمیں اس پر بدگمانی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ مسلمان پر بدگمانی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(نیکی کی دعوت، ص:272)

رونے والی آنکھیں   مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذِکرِ مَحَبَّت عام ہے لیکن سوزِ مَحَبَّت عام نہیں

احادیث مبارکہ:

(1) ۔ حضور علیہ سلام نے ارشاد فرمایا :یعنی’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ 

(شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

(2)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوں گی مگر تین آنکھیں نہیں روئے گی ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوف خوف سے ہوئی ہوگی۔( کنز العمال 8/356)

(3) ایک مرتبہ سروَر ِ کونین، رَحمتِ دارین، نانائے حَسَنَین صلّی اللہُ علیہ و سلم نےخُطبہ دیا تو حاضِرین میں   سے ایک شخص رو پڑا ۔ یہ دیکھ کر آپ صلّی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مُؤمِن موجود ہوتے جن کے گناہ پہاڑوں   کے برابر ہیں   تو انہیں   اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا کیونکہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دُعا کر رہے تھے : اَللّٰہُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَّمْ یَبْکِ یعنی اے اللہ عزوجل! نہ رونے والوں   کے حق میں   رونے والوں   کی شَفاعت قَبول فرما۔ 

(شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص494،حدیث 810)

حضرتِ مولاناروم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَیُّوْمفرماتے ہیں :  

ہر کُجاآبِ رَواں    غُنچہ بُوَد              ہر کُجا اشکِ رَواں   رَحمت بُوَد

(جب آسمان سے بارش برستی ہے توزمین پر غُنچے اور گُل کِھلتے ہیں   اور جب خوفِ خدا سے کسی کے آنسو جاری ہوتے ہیں   تو رحمت کے پھول کِھلتے ہیں) (نیکی کی دعوت، ص:273)

(4)۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مومن بندے کی آنکھ سے اللہ عزوجل کے خوف سے آنسو نکلے خواہ وہ مچھر کے سر جتنا ہو پھر وہ رخسار کے سامنے کے حصے کو مس کرے۔ تو اللہ تعالی اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دیتا ہے۔( ابن ماجہ 4/467،حدیث:4197)

اللہ رب العزت ہمیں اپنے خوف بھی رونا نصیب فرمائے۔اٰمین 


قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور بزرگان دین کے اقوال خوف خدا سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں پڑھ کر اپنے دل میں خوف خدا رکھیں۔ اسی میں ہماری دنیا وہ آخرت میں بھلائی ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث کریمہ سن کر اپنے دل میں خوف خدا رکھے۔

نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جب مؤمن کا دل اللہ تَعَالٰی کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ  تعالٰی ، ج1، ص491، رقم الحدیث 803 )

حضرت سیدنا حاتم اصم رضی اللہ عنہ نے کسی بزرگ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بندے کے لیے غم اور خوف سے بہتر ساتھی کوئی نہیں۔ غم اس چیز کا کے پچھلے گناہوں کا کیا بنے گا؟ اور خوف اس بات کا کہ بندہ نہیں جانتا کہ اس کا ٹھکانہ کہاں ہوگا۔( شعب الایمان )

کب گناہوں سے کنارہ کروں گا یا رب

نیک کب اے میرے اللہ بنوں گا یا رب

گر تو ناراض ہوا میری ہلاکت ہوگی

ہائے میں نار جہنم میں جلوں گا یا رب

سورہ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لیے دو جنتوں کی بشارت دی گئی ہے۔

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) (پ :27، الرحمن: 46)

ترجمہ کنز الایمان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔

آخرت میں کامیابی: اللہ تعالی سے ڈرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے

جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠(۳۵)

(پ 25، الزخرف:35)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور آخرت تمہارے رب کے پاس پرہیز گاروں کے لیے ہے۔

اپنے پروردگار عزوجل کا خوف اپنے دل میں بسانے والوں کے لیے جنت میں باغات اور چشمے عطا کئے جائیں گیں۔

جیسا کہ رب تعالی کا فرمان ہے: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ(۴۵)ترجمہ کنز الایمان :بےشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا :اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد خوف زیادہ رکھنا ۔(احیا ءالعلوم :4/198)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حکمت کی اصل اللہ تعالی کا خوف ہے۔

(شعب الایمان جلد 1 ص 470حدیث 743)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! اس سے پہلے کہ ہماری سانس کی آمدورفت رک جائے اور سوائے احساس کے ہمارے پاس کچھ نہ ہو ہم اپنی آخرت کی بہتری کے لیے اس صفت عظیمہ خوف خدا کو اپنانے کی جدوجہد میں لگ جائیں۔

رَحمتِ عالمیان صلّی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا:’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ 

(شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

بلا حساب جنت میں: ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائےگا؟"تو فرمایا؛" ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔

(احیا العلوم، کتاب الخوف والرجاء:4/200)


کسی چیز کی فضیلت کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ بندے کو کس قدر اللہ عزوجل سے ملاقات کی سعادت کے قریب کرتی ہے کیونکہ ایک بندے کا سب سے بڑا مطلوب و مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ سعادت مندی کو پالے اور سب سے بڑی سعادت مندی یہ ہے کہ اسے اپنے مالک و مولا عزوجل کی ملاقات اور اس کے قرب کی دولت حاصل ہو جائے۔ ہر وہ چیز جو اس مقصد کو پانے میں معاون ثابت ہو وہ باعث فضیلت ہے اور اس کی فضیلت اسی قدر ہے جس قدر وہ معاون ہو۔

خوف خدا پر آیات کریمہ:­

جہاں تک آیات کریمہ کے ذریعے خوف کی فضیلت کو جاننے کا تعلق ہے تو اس بارے میں بے شمار آیات ہیں خوف کی فضیلت کو جاننے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اللہ عزوجل نے اہل جنت کے چاروں مقامات یعنی ہدایت، علم ،رحمت اور رضا کو درج ذیل آیت مقدسہ میں خائفین کے لیے جمع فرمایا ہے۔

هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ(۱۵۴)ترجمہ کنز الایمان : ہدایت اور رحمت ہے ان کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں(پ 9،الأعراف:154)

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجمہ کنز الایمان : اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں(پ 22،فاطر:28)

یعنی علماء کے خوف کے سبب انہیں علم کی صفت سے موصوف قرار دیا ہے۔

دو خوف اور دو امن :مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت کی قسم ! میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن جمع نہ کروں گا جو مجھ سے دنیا میں بے خوف رہے گا اسے قیامت کے دن خوفزدہ کروں گا اور جو دنیا میں مجھ سے خوفزدہ رہے گا اسے روز قیامت امن عطا کروں گا۔

(الزھدلابن المبارک ،  باب ماجاء فی الخشوع والخوف ،  الحدیث 157 ، ص50 )

خوف خدا کی برکت: حضرت سیدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں جب بھی میں کسی دن اللہ سے خوف کرتا ہوں تو اس دن مجھ پر حکمت وہ عبرت کا ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا ۔(احیاءالعلوم، 4/472)

بروز قیامت امن میں رہنے والا :حضرت سیدنا یحیی بن معاذ رازی علیہ رحمۃ اللہ الوالی سے پوچھا گیا: کل بروز قیامت مخلوق میں سے سب سے زیادہ امن میں کون ہوگا؟ فرمایا :جو آج دنیا میں سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہوگا۔( احیا ءالعلوم 4/475)


2 جنتوں کے بشارت:

آیت : وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔(پ 27،الرحمٰن:46)

جنت کے باغات:

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ(۴۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں۔ (پ 14،الحجر:45)

آخرت میں امن :

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍۙ(۵۱) بےشک ڈر والے امان کی جگہ میں ہیں ۔

(پ 25،الدخان 51)

حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے رونے کے فضائل:

جہنم سے رہائی : سرور عالم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس مُؤْمِن کی آنکھوں   سے اللہ  عزوجل کے خوف سے آنسو  نکلتے ہیں   اگرچِہ مکّھی کے سرکے برابر ہوں   ،پھر وہ آنسو اُس کے چِہرے کے ظاہِر ی حصّے کو پہنچیں   تو اللہ  ع عزوجل اُسے جہنَّم پر حرام کر دیتاہے۔ (شعیب الایمان،1/491،حدیث :802)

جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’جب مؤمن کا دل اللہ تَعَالٰی کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔‘‘

(شعب الایمان ، ج1، ص491، رقم الحدیث 803 )

اسے آگ سے نکالو: حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رحمتِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ تَعَالٰیفرمائے گا کہ اسے آگ سے نکالو جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام میں میرا خوف کیا ہو۔

(شعب الایمان ، 1/470، رقم الحدیث :740)

سبز موتیوں کا محل : حضرت  سَیِّدُنا کعب االاحباررَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے کہ’’ اللہ   تَعَالٰی نے سبز موتی کا ایک محل پیدا فرمایا ہے جس میں ستر ہزار گھر ہیں اور ہر گھر میں ستر ہزار کمرے ہیں ۔ اس میں وہ شخص داخل ہوگا جس کے سامنے حرام پیش کیا جائے اور وہ محض اللہ  کے خوف سے اسے چھوڑ دے ۔‘‘(مکاشفۃ القلوب ، ص10)

عرش الہی کے سائے میں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں اس دن جگہ دے گا کہ جس دن اس سایہ کے سوا کسی چیز کا سایہ نہ ہوگا:(1) عادل حکمران (2) وہ آدمی جس کو کسی منصب و جمال والی عورت نے تنہائی میں اپنے پاس بلایا اور اس نے جواب میں کہا کہ میں اللہ عزوجل سے ڈرتا ہوں۔ (3) وہ شخص کہ جس کا دل مسجد سے لگا رہے ۔(4) وہ نوجوان جس نے بچپن میں قرآن سیکھا اور جوانی میں بھی اس کی تلاوت کرتا ہو۔ (5) وہ آدمی جو چھپا کر صدقہ کرے حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوکہ اس کے دائیں ہاتھ نے کتنا خرچ کیا ۔(6) وہ شخص کہ جس نے تنہائی میں اپنے رب عزوجل کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ (7) وہ آدمی جو اپنے بھائی سے کہے کہ میں تجھ سے اللہ عزوجل کی خاطر محبت رکھتا ہوں اور دوسرا جواب دے کہ میں بھی رضائے الہی کے لیے تجھ سے محبت کرتا ہوں۔

( شعب الایمان:1/487،حدیث:793)

ایک میل تک آواز سنائی دیتی: حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام جب نَماز کے لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا عزوجل کے سبب اِس قَدَرگِریہ و زاری فرماتے (یعنی روتے)کہ ایک مِیل کے فاصِلے سے ان کے سینے میں   ہونے والی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔ (اِحیاء الْعُلوم  4/224)

رونے کی آواز : حضرت سَیِّدُنا عمر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ میں نے امیرالمؤمنین سَیِّدُنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ  کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی ۔ ‘‘(حلیۃ الاولیاء ، ج1، ص89، رقم الحدیث:141)

خوف خدا سے رونے والے کی فضیلت:

اللہ تعالی جل جلالہ جہنم کی آگ حرام کر دے گا۔

اللہ عزوجل اس کی خطائیں معاف فرما دے گا۔

اللہ عزوجل اسے آگ سے نجات عطا فرمائے گا۔

اللہ عزوجل اسے سبز موتی کا محل عطا فرمائے گا۔

اللہ عزوجل اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا۔

اللہ تعالی جل جلالہ ہمیں سچے دل سے خوف خدا رکھ کر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور گریہ و زاری کی کی توفیق بھی نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ مختصر سی زندگی کے ایام گزارنے کے بعد ہر ایک کو اپنے پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب دینا ہے۔جس کے بعد رحمت الہی عزوجل ہماری طرف متوجہ ہونے کی صورت میں جنت کی اعلی نعمتیں ہمارے مقدر بنے گی یا پھر گناہوں کی شامت کے سبب جہنم کی ہولناک سزائیں ہمارا نصیب ہوگی۔(والعیاذ باللہ)

لہذا اس دنیاوی زندگی کی رونقوں، مسرتوں اور رعنائیوں میں کھو کر حساب آخرت کے بارے میں غفلت کا شکار ہو جانا یقینا نادانی ہے۔ یاد رکھئے ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم رب کائنات عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنے لیے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کریں ۔اس مقصد عظیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دل میں خوف خدا عزوجل کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک یہ نعمت حاصل نہ ہو گناہوں سے فرار اور نیکیوں سے پیار تقریبا ناممکن ہے۔ اس نعمت عظمٰی کے حصول میں کامیابی کی خواہش رکھنے والے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے لیے درجہ ذیل سطور کا مطالعہ بے حد مفید ثابت ہوگا ۔ان شاءاللہ عزوجل

یاد رکھئے کہ مطلقا خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰیکی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔

(احیاء العلوم جلد:4)

پیارے اسلامی بھائیو! رب العالمین جل جلالہ نے خو د قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، جیسا کہ پارہ 22، سورۃ الاحزاب آیت نمبر 70 میں ارشاد باری تعالی ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو

پارہ 6 سورۃ المائدہ آیت نمبر 3 میں ارشاد ہے: فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِؕ ترجمہ کنز الایمان: تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو

پارہ 4 سورہ آل عمران آیت نمبر 175 میں ارشاد رب العباد ہے: وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵ترجمہ کنز الایمان: اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو

پیارے اسلامی بھائیو! پیارے آقا احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے نکلنے والے ان مقدس کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ جن میں آپ علیہ السلام نے اس صفت عظیمہ کو اپنانے کی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ ،

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا :اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد خوف زیادہ رکھنا ۔(احیا ءالعلوم :4/198)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حکمت کی اصل اللہ تعالی کا خوف ہے۔

(شعب الایمان جلد 1 ص 470حدیث 743)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں خوف خدا جیسی صفت عظیمہ کو بھی اپنانا اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں خوف خدا سے اپنی آنکھوں کو اشک بار بھی کرنا ہے تاکہ ہر ایک آنسو کل بروز قیامت بہت نفع پہنچائے اور ہماری نجات کا ذریعہ بن جائیں۔

چنانچہ خوف خدا میں رونے کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں:

ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا :رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص اللہ تعالی کے خوف سے روتا ہے وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگاحتی کہ دودھ ( جانور کے )تھن میں واپس آجائے ۔(شعیب الایمان :1/490،حدیث:800)

بخشش کا پروانہ: حضرتِ سَیِّدُنااَنَس رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار شَہَنشاہِ اَبرار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ خوشگوار ہے:جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے ، اللہ عزوجل اس کی بخشش فرما دے گا۔

(کنز العمال: 3/63،حدیث:5909)

آگ نہ چھوئے گی :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں رب عزوجل کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہ خدا عزوجل میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔( شعیب الایمان:1/478،حدیث:796)

پسندیدہ قطرہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں جو (آنکھ سے) اس کے خوف سے ہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے۔( احیاء العلوم: 4/200)

خوف خدا سے رونے والا : حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیتِ مبارَکہ نازِل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰) ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تم تَعجُّب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں   ۔ پ:27،النجم60،59)تو اَصحابِ صُفَّہ رضی اللہ عنہم اِس قَدَر رَوئے کہ ان کے مبارَک رُخسار (یعنی پاکیزہ گال) آنسوؤں   سے تَر ہو گئے ۔ انہیں   روتا دیکھ کر رَحمتِ عالم   صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ صاحِبان اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا جو اللہ تعالٰی کے ڈر سے رَویا ہو ۔

(شُعَبُ الْاِیمان  ج1 ص489،حدیث 798)

میٹھےاسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ ہم بھی خوف خدا میں رونے کی کوشش کریں۔کہ یہ رونا ہمیں رب تعالی کی ناراضگی سے بچا کر اس کی رضا تک پہنچائے گا۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنا خوف اور اپنے خوف میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

رونے والی آنکھیں   مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذِکرِ مَحَبَّت عام ہے لیکن سوزِ مَحَبَّت عام نہیں