خوف خدا اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں
رونا ایک عظیم الشان "نیکی" ہے ۔اس لیے حصول ثواب کی نیت سے نیکی کی
دعوت پیش کرتے ہوئے رونے کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔کاش کہیں ہم بھی سنجیدگی
اپنانے اور خوف خدا وعشق مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم میں آنسو بہائیں۔
رونے
والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں
ذکر
محبت عام ہے لیکن سوز محبت عام نہیں
(1)۔ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: جس
مومن کی آنکھوں سے خوف خدا کے سبب آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو
پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے کو پہنچے تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو
حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ:4/467)
حجت الاسلام حضرت سیدنا امام ابو حامد محمد بن محمد
بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرتِ
سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامجب نَماز کے
لئے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا عزوجل کے سبب اِس قَدَرگِریہ و زاری فرماتے (یعنی
روتے)کہ ایک مِیل کے فاصِلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گڑگڑاہٹ کی
آواز سنائی دیتی ۔
(اِحیاء الْعُلوم 4/224)
جی
چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے
اللہ
!مگر دل سے قساوت نہیں جاتی
سلطان
انبیاء شاہ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے : ’’اللہ تَعَالٰی کے کچھ فرشتے
ایسے ہیں جن کے پہلو اس کے خوف کی وجہ سے لرزتے رہتے ہیں ، ان کی آنکھ سے گرنے
والے ہر آنسو سے ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، جو کھڑے ہوکر اپنے رب عزوجل کی پاکی بیان
کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ (شعب الایمان
، 1/521، رقم الحدیث 914 )
رحمت عالمیان سردار دو جہاں محبوب رحمان صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :’’خوفِ خدا سے رونے والا
ہرگز جہنَّم میں داخِل نہیں ہوگا حتّٰی کہ
دودھ تھن میں واپَس آجائے ۔‘‘
(شُعَبُ
الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ
مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رحمۃُ الحَنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے
ہیں : یعنی جیسے دوہے ہوئے دودھ کا تھن میں واپَس ہونا ناممکن
ہے ایسے ہی اس شخص کا دوزخ میں جانا ناممکن ہے۔ جیسے ربّ تعالیٰ
فرماتا ہے:
حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ- ترجَمۂ
کنزالایمان: جب تک سُوئی کے ناکے اونٹ نہ داخل ہو۔( پ8،الاعراف 40)
حضرت سیدنا انس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ سرکار نامدار ،دو عالم کے مالک و مختار ،شہنشاہ ابرار صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد خوشگوار ہے: جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے اللہ پاک اس
کی بخشش فرما دے گا ۔(ابن ماجہ 5/296)
حضرت
سیِّدُنا عقبہ بن عامر رضی
اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صلّی
اللہُ علیہ و سلم !نجات کیا ہے؟ارشادفرمایا: اپنی
زبان قابومیں رکھو،تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہواور اپنی خطاؤں پر رويا كرو۔(سنن الترمذی ، کتاب الزھد،4/ 182، حدیث: 2414)
حضرتِ سَیِّدُنا
ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ ُسے مروی ہے کہ جب یہ آیتِ
مبارَکہ نازِل ہوئی:
اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)
ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے
تم تَعجُّب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔( پ27،النجم:60،59) تو اَصحابِ
صُفَّہ رضی اللہ عنہم اِس قَدَر رَوئے کہ ان کے مبارَک
رُخسار (یعنی پاکیزہ گال) آنسوؤں سے تَر ہو گئے ۔
انہیں روتا دیکھ کر رَحمتِ عالم صلی اللہ علیہ
وسلم بھی رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے
ہوئے آنسو دیکھ کر وہ صاحِبان اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنَّم میں
داخِل نہیں ہوگا جو اللہ تعالٰی کے ڈر سے رَویا
ہو ۔
(شُعَبُ الْاِیمان ج1ص489 حدیث 798)