پیارے اسلامی بھائیو :اللہ تعالی کی رضا کا حاصل ہو جانا بہت بڑی سعادت مندی ہے وہ شخص بہت خوش نصیب ہے کہ جسے موت سے پہلے اللہ تبارک و تعالی کی رضا حاصل ہو جائے یقینا مالک کائنات جس انسان سے راضی ہو گیا دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ اسے نہ تو ایمان کی بربادی کا خطرہ ہے اور نہ عذابات قبر کا ،نہ میدان محشر کی ذلت اس کا مقدر بنے گی اور نہ ہی پل صراط اور جہنم کا خوف اسے لاحق ہوگا۔

جب یہ تمام امور تسلیم شدہ ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ دنیا میں ایسے اعمال کرے جن کے باعث اللہ تعالی کی رضا کا حصول ممکن و آسان ہو جائے۔ میں آپ لوگوں کی خدمت میں ایک ایسے ہی عمل کے بارے میں چند حدیث پاک پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جس پر عمل پیرا ہونے کی سعادت حاصل کے بعد انشاءاللہ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔

عَن اَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكٰى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ حَتّٰى يَعُوْدَ اللَّبَنُ فيِ الضَّرْعِ وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ. ترجمہ: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ عزوجل کے خوف سے رونے والا جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے اور راہ خدا کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے ۔

( فیضان ریاض الصالحین :4/605)

حدیث پاک میں ہے :جس مومن کی آنکھوں سے خوف خدا کے سبب آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے کو پہنچے تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ:4/467)

حضرتِ سَیِّدُنا محمد بن مُنکَدِر(مُن۔کَ۔دِر) رضی اللہ عنہ جب روتے تو اپنے چِہرے اور داڑھی پر آنسو مل لیتے اور فرماتے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آگ اُس جگہ کو نہ چُھوئے گی جہاں   خوفِ خدا سے نکلنے والے آنسو لگے ہوں   ۔(اِ حیاءالْعُلوم  4/480)

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔( خوف خدا ،ص:142)

منقول ہے کہ بروزِ قیامت جہنم سے پہاڑ کے برابر آگ نکلے گی اور امتِ مصطفی کی طرف بڑھے گی توسرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل کو بلائیں گے کہ’’ اے جبرائیل اس آگ کو روک لو ، یہ میری امت کو جلانے پر تُلی ہوئی ہے۔‘‘ حضرت جبرائیل ایک پیالے میں تھوڑا سا پانی لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کریں گے ، ’’اس پانی کو اس آگ پر ڈال دیجئے ۔‘‘ چنانچہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کو آگ پر انڈیل دیں گے ، جس سے وہ آگ فوراً بجھ جائے گی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل سے دریافت کریں گے ، ’’اے جبرائیل ! یہ کیسا پانی تھاجس سے آگ فوراً بجھ گئی ؟‘‘ تو وہ عرض کریں گے کہ ، ’’یہ آپ کے ان امتیوں کے آنسوؤں کا پانی ہے جو خوفِ خدا کے سبب تنہائی میں رویا کرتے تھے، مجھے رب تَعَالٰی نے اس پانی کو جمع کرکے محفوظ رکھنے کا حکم فرمایا تھا تاکہ آج کے دن آپ کی امت کی طرف بڑھنے والی اس آگ کو بجھایا جا سکے ۔‘‘

(خوف خدا،ص:144)


خوف خدا ایک بہت بڑی نعمت اور اچھی خصلت اور مومن کا اہم ہتھیار ہے۔بڑی نعمت اس اعتبار سے کہ اللہ تعالی اپنے خاص اور اچھے بندوں کو دیتا ہے ۔ خوف رکھنے والے کو ہر شخص پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ رہنا اور معاملات کرنے کا شوقین ہوتا ہے ۔مومن کا  اہم ہتھیار اس لیے کہ گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کا سبب خوف خدا بنتا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ ایک زبردست ڈاکو تھے ایک دن انہوں نے یہ آیت سنی : اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ ترجَمۂ کنزُالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ اُن کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا ۔(پ:27،الحدید:16)

گویا یہ تاثیر ربانی کا تیر بن کر دل میں پیوست ہوگئی اور اس کا اتنا اثر ہوا کہ آ پ خوف خدا سے کانپنے لگے اور پھر توبہ کی اور علم حاصل کیا اور محدث بن گئے۔جب خوف خدا کے بہت فضائل ہیں تو خوف خدا میں رونے کے کس قدر فضائل ہوں گے۔ ان فضائل میں سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

(1)۔ رَحمتِ عالمیان صلّی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا:’’خوفِ خدا سے رونے والا ہرگز جہنَّم میں   داخِل نہیں   ہوگا حتّٰی کہ دودھ تھن میں   واپَس آجائے ۔‘‘ 

(شُعَبُ الْاِیمان ،1/490، حدیث :800)

(2)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے ، اللہ عزوجل اس کی بخشش فرما دے گا۔(ابنِ عدی ،5/396)

(3)۔ حضرتِ سیِّدُنا عُقبہ بن عامِر رضی اللہ عنہ نے عرض کییارَسُولَ اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلم !نَجات کیا ہے؟ فرمایا(1) اپنی زَبان کو روک رکھو ( یعنی اپنی زَبان وہاں  کھولو جہاں   فائدہ ہو،نقصان نہ ہو ) اور (2)تمہارا گھر تمہیں   کِفایت کرے (یعنی بِلا ضَرورت گھر سے نہ نکلو) اور (3)گناہوں پر رَونا اختیار کرو۔(سُنَنِ تِرمِذی 4/186)

(4)۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائےگا؟"تو فرمایا؛" ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔

(احیا العلوم، کتاب الخوف والرجاء:4/200)

(5)۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے رویا ہو ۔‘‘(شعب الایمان ، 1/489، حدیث نمبر 798)

(6)۔ امیرُالمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے ۔‘‘

(اِحیاء الْعُلوم ،4/201)

(7)۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو خوف خدا سے رونا آئے تو وہ آنسوؤں کو کپڑے سے صاف نہ کرے بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت میں رب تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔(شعب الایمان ،1/493، حدیث :808)

(8)۔ حضرتِ سَیِّدُناعبدُاللہ بِن عَمرْو بِن عاص رضی اللہ عنہمَانے فرمایا:’’اللہ تعالٰی کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صَدَقہ کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان  ج1ص502،حدیث 842)

(9)۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے :" اے اللہ عزوجل! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو کثرت سے آنسو بہاتی ہوں اور آنسو گرنے سے تسکین دے،اس سے پہلے کہ آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگاروں میں بدل جائیں۔

(احیاء العلوم، کتاب الخوف والرجاء :4/200)

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب" وسائل بخشش" میں تحریر کرتے ہیں:

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم

تیرے خوف سے ! یا خدا یا الہی

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ

میں تھرتھر رہوں کانپتا یا الہی

خوف خدا میں رونے کے فضائل کے بارے میں مزید معلومات کے لیے "خوف خدا" اور" احیاءالعلوم جلد 4" کا مطالعہ مفید ہوگا ۔

اللہ ہمیں خوف خدا میں رونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


پیارے اسلامی بھائیوں ! اللہ پاک کا خوف بہت بڑی نعمت ہے خوف خدا میں رونا انبیاء کی سنت ہے ۔ خوف خدا میں رونا نیک لوگوں  کی علامت ہے ۔

چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے۔(پ2، آل عمران: 102)

دوسری جگہارشاد فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘

(پ :27، الرحمن: 46)

حدیث مبارکہ میں خوف خدا کی فضیلت:

حدیث پاک میں خوف خدا کی بہت فضیلت ہے چنانچہ

1۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ پاک فرمائے گا کہ اسے آگ سے نکال لو جس نے مجھے ایک دن یاد کیا ہو یا ایک دن مجھ سے خوف کیا ہو ۔(مشکوٰۃ المصابیح باب البکاء والخوف حدیث نمبر 5111)

2 ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں دو خوف اور دو امن ایک بندے میں جمع نہیں کروں گا ۔ یعنی اگر کوئی شخص دنیا میں مجھ سے ڈرے گا آخرت میں اس جو بے فکر رکھوں گا اگر دنیا میں وہ بے فکر رہے گا تو قیامت کے دن اس کو خوف میں رکھو گا۔ ( کیمائے سعادت مترجم صفحہ 706)

3۔سرور کونین نانائے حسنین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جو کوئی خدا سے ڈرے تمام مخلوق اس سے ڈرے گی اور جو کوئی خدا سے نہیں ڈرے گا تو اللہ پاک تمام مخلوق کا ڈر اس کے دل میں ڈال دے گا۔ (کیمائے سعادت مترجم 706)

4۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ سات شخص اللہ پاک کے سائے عرش میں رہیں گے ان میں سے ایک وہ ہے جو خلوت میں خدا کو یاد کرے اور اس کی آنکھ سے آنسو نکلے ۔( کیمائے سعادت مترجم 706)

5۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب خوف خدا سے کسی بندے کے بال اس کے جسم پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ خوف الہٰی کا خوف کا خیال کرے تو اس کے گناہ اس کے جسم سے اس طرح گر پڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے ۔(کیمائے سعادت مترجم صفحہ 706)

خوف خدا کے بارے میں بزرگوں کے اقوال :

1۔شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کوئی روز ایسا نہیں ہوا جس میں مجھ پر خوف خدا غالب ہو اور اس دن حکمت و عبرت کا دروازہ مجھ پر کھلا نہ ہو ۔ (کیمائے سعادت مترجم صفحہ 707)

2 ۔ شیخ ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس کا دل خوف الہٰی سے خالی ہو وہ ویران ہو جائے گا ۔(کیمائے سعادت مترجم صفحہ 707)

4۔حضرت کعب بن احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قسم ہے اللہ پاک کی ایسا رونا جس سے چہرہ تر ہو جائے اس سے بہتر کہ میں فقیروں کو ہزار دینار دوں ۔

( کیمائے سعادت مترجم صفحہ 707)

5۔حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب نماز کےلیے کھڑے ہوتے تو خوف خدا کے سبب اس قدر روتے کہ ایک میل کے فاصلے سے آپ کے سینے میں ہونے والی گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی ۔( احیاء العلوم مترجم جلد 4 صفحہ 533)

اللہ پاک ہمیں اپنا خوف عطا فرمائے ۔آمین ۔

ترے خوف سے ترے ڈر سے ہمیشہ

میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الٰہی


فرامین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم :

1۔جس بندہ مومن کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ عزوجل اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔

2۔ اللہ عزوجل کے خوف کے سبب جب مؤمن کا دل کانپتا ہے تو اسکے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔

3۔جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔

4۔حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نجات کیاہے؟ ارشاد فرمایا: اپنی زبان قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔

5۔ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوگا ارشاد فرمایا ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئے۔

6۔اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں۔

7۔مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم یہ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ عزوجل مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو خوب بہنے والی ہوں اور تیرے خوف سے آ نسوبہا بہا کردل کو شفا بخشیں اس سے پہلے کہ آنسو خون اور داڑھی انگاروں میں تبدیل ہوجائیں۔

خوف خدا سے رونے کی فضیلت پر مشتمل تین اقوال بزرگانِ دین:

1۔امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جس سےہو سکے وہ روئے اور جسے رونا نہ آئے وہ رونے جیسی صورت ہی بنالے۔

2۔حضرت سیدنا محمد بن منکدررحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ جب روتے تو اپنے آ نسووں کو چہرے اور داڑھی پرمل لیتے اور فرماتے مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جہنم کی آگ ان اعضاء کو نہیں کھائے گی جن سے خوف خدا سے بہنے والے آنسو مس ہوئے ہوں۔

3۔حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:خوب رووں اور اگر رونا نہ آ ئے تو رونے جیسی صورت ہی بنالو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کسی شخص کو حقیقت حال کا علم ہو جائے تو وہ خوف خدا کے سبب اس قدر چخییں مارے کہ اس کی آواز ختم ہو جائے اور نماز کی اتنی کثرت کرے کہ اس کی کمر جواب دے جائے۔( احیاء العلوم جلد نمبر 4 صفحہ 478 تا480)


خوفِ خدا اورعشق مصطفے ٰ میں رونا مقدَّر والوں کا حصّہ ہے نیز خوفِ خدا عزوجل اورعشق مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں رونا ایک عظیم الشّان’’نیکی ‘‘ہے ۔

خوفِ خدا کی تعریف :‏خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔

(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ200)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا شِعار:

اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸) ترجمہ کنز العرفان: جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر پڑتے ہیں ۔(پ 16,سورۃ مریم :58) *

(یہ آیت سجدہ ہے اسے پڑھنے سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہے)

کم ہنستے اور زیادہ روتے:

حضرتِ سَیِّدُنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ اُس جیسا خطبہ پہلے کبھی نہیں سنا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ” جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم لوگ وہ جان لیتے تو کم ہنستے اور زیادہ روتے ۔ “ حضرت سَیِّدُنَا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” پھر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ہچکیوں سے رونے لگے ۔ ( بخاری ، کتاب التفسیر ، 3 / 217 ، حدیث : 4621)

تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی:’’حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی۔ ایک آنکھ وہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے باز رہی۔‘‘

( أخرجہ الطبرانی في المعجم الکبیر، 19 / 416، الرقم : 1003)

خوفِ خدا سے رونے والا دوزخ میں داخل نہ ہوگا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ کی راہ میں پہنچنے والی گرد و غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔

( اخرجہ الترمذی في السنن، 4 / 171، الرقم : 1633)

مکھی کے سرکے برابر آنسو :فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’جس مُؤمِن کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں اگرچِہ مکھی کے سرکے برابر ہوں ، پھر وہ آنسو اُس کے چہرے کے ظاہِر ی حصّے کو پہنچیں تو اللہ ع عزوجل اُسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے ۔ ‘‘

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تعالی ، 1 / 491 ، حدیث : 802)

جہنّم کی آگ کبھی نہیں چُھوئے گی:حضرت سیِّدُنا کَعْب اَحْبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جس شخص کی آنکھوں سے خوفِ خدا کے سبب آنسو جاری ہوجائیں اور اس کے قَطْرے زمین پر گِریں تو جہنّم کی آگ اسے کبھی نہیں چُھوئے گی"۔ (حلیۃ الاولیاء،ج 5،ص401، رقم:7516)


پیارے مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس دن عرشِ الٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا اس دن اللہ عزوجل سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو تنہائی میں اللہ عزوجل کو یاد کرے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔

خوف خدا سے رونے کی فضیلت پر مشتمل اقوال بزرگانِ دین:

حضرت سیدنا ابو سلیمان دارنی قدس سرہُ النورانی فرماتے ہیں: جس شخص کی آنکھ خوف خدا میں آنسو بہاتی ہے روز قیامت اس شخص کا چہرہ سیاہ ہو گانہ اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ، جب اس کی آنکھ سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ عزوجل ان کے پہلے قطرے سے دوزخ کے شعلوں کو بجھا دیتا ہے اور اگر کسی امت میں ایک بھی شخص خوف خدا سے روتا ہے تو اس کی برکت سے اس امت پر عذاب نہیں کیا جاتا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: رونا خوف کے سبب ہوتا ہے جبکہ خوشی سے جھومنے اور شوق کی کیفیت امید سے پیدا ہوتی ہے۔

پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ عمل:

حضرت سیدنا کعب الاحبار علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں اللہ عزوجل کے خوف سے روؤں یہاں تک کہ میرے آنسوں رخساروں پر بہیں یہ میرے نزدیک پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں: اللہ عزوجل کے خوف سے میرا ایک آنسو بہانا میرے نزدیک پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں!)

حضرت سیدنا حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ حضور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا جس کے سبب دل نرم پڑگئے ، آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس آیا، میری بیوی مجھ سے قریب ہوئی اور ہمارے درمیان دنیوی گفتگو ہوئی تو میں ان باتوں کو بھول گیا جو پیارے مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے سیکھی تھیں اور دنیا میں لگ گیا، اس کے بعد جب مجھے وہ باتیں یاد آئیں تو میں نے اپنے دل میں کہا: میں تو منافق ہو گیا ہوں کیونکہ مجھ سے خوف اور رقت کی وہ کیفیت دور ہو گئی ہے۔ میں اپنے گھر سے باہر آگیا اور یہ ندا کرنے لگا: حنظلہ منافق ہو گیا۔ راستے میں مجھے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور میں نے انہیں اپنے معاملے کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا: حنظلہ ہر گز منافق نہیں ہوا ۔ اس کے بعد میں بار گاہ رسالت میں یہ کہتے ہوے حاضر ہوا کہ حنظلہ منافق ہو گیا۔ تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حنظلہ منافق نہیں ہوا۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ پ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا جس سے دل خوف زدہ ہو گئے ، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی، پھر جب میں اپنے گھر گیا تو دنیا کی گفتگو میں مشغول ہو گیا اور اس کیفیت کو بھول گیا جو آپ کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تھی ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت پر قائم رہو تو راستوں میں اور تمہارے بستروں پر فرشتے تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے (انسان کی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں رہتی)۔

بہر حال امید اور رونے کی فضیلت،تقوی اور ورع کی فضیلت، علم کی فضیلت اور بے خوفی کی مذمّت کے بارے میں جس قدر روایات وغیرہ وارد ہیں وہ سب کی سب خوف کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کا کسی نہ کسی اعتبار سے خوف سے تعلق ضرور ہے۔

(احیاء العلوم جلد نمبر 4 صفحہ نمبر۔ 479 تا 481 )


سب خوبیاں اللہ عزوجل کیلئے ہیں جس نے خائفین کی آنکھوں کوخوفِ وعید سے رُلایا توان کی آنکھوں سے چشموں کی مانند آنسو جاری ہوگئے اوران ہستیوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے بادل برسائے جن کے پہلُو بستروں سے جدارہتے ہیں انہوں نے تقویٰ کو اپنافخریہ لباس بنایا خوف نے ان کی نیند اوراُنگھ اُڑادی جب  لوگ خوش ہوتے ہیں تووہ غمگین ہوتےہیں آنسوؤں نے ان کی نیند اورسکون ختم کردیاپس وہ غمگین اوردرد بھرے دل سے روتے ہیں انہوں نے آہ وبکا کواپنی عادت اورآنسوؤں کوپانی بنالیا پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کوہنسایا اوررُلایا اور زندگی اور موت عطافرمائی اورماضی ومستقبل کاعلم سکھایا یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ربّ عظیم عزوجل نے ارشاد فرمایا:

اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸) ترجمہ کنزالایمان : جب ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے ۔(پ 16,سورۃ مریم :58)

نوٹ : یہ آیت سجدہ ہے اسے پڑھنے سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے : رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ۠(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی یہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے ۔(پ 30، البینہ 8)

اسی طرح حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل کے خوف سے آنسو کاایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

(احیاء علوم الدین کتاب الخوف والرجا. بیان فضیلۃ الخوف ج 4ص 201)

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس بندے کی آنکھوں سے خوف خداعزوجل کے سبب آنسو نکل کر چہرے تک پہنچتے ہیں تواللہ عزوجل اس کوآگ پر حرام فرمادیتاہے اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں۔

(سنن ابن ماجہ. ابواب الزھد. باب الخزن والبکاء الحدیث 4197ص 2732)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رَاْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللہ ..حکمت کی اصل اللہ تعالی کاخوف ہے۔ (شعب الایمان جلد 1 ص 470حدیث 743)

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتاہے : اِذَااقْشَعَرّ قَلْبُ الْمُوْمِنِ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ تَحَاتّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا یَتَحَاتُ مِنَ الشَجَرَۃَ وَرَقُھَا۔جب مومن کادل اللہ تعالٰی کے خوف سے لرزتاہے تواس سے خطائیں جھڑ جاتی ہے جس طرح درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔

(شعب الایمان ،جلد1 ،ص 491،حدیث: 802)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم نے پڑھاکہ خوف خدا عزوجل کے کتنے فضائل ہیں اوراس کاکتنا زیادہ اجروثواب ملتاہے اورآخرت میں بھی خوف خدا عزوجل بحشش ومغفرت کاذریعہ ہے اللہ عزوجل سے دعاہے کہ وہ ہم سب کوبھی اپنا خوف عطافرمائے۔ اوراپنے خوف میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


خوفِ خدا سفرِ آخرت کی کامیابی کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی بے نیازی، اُس کی ناراضی، اُس کی گرفت اور اُس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔

اگر ہمارے دل میں اللہ عزوجل کا خوف پیدا ہوگیا تو یہ خوفِ خدا کا دل میں پیدا ہونا اور اُس خوف کی وجہ سے رونا ہمیں ربّ تعالٰی کی ناراضگی سے بچا کر اُس کی رِضا تک پہنچائے گا۔ بطورِ ترغیب اِن روایات کو ملاحظہ فرمائیں:۔

حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ'' جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ تو اصحابِ صُفَّہ رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے رویا ہو ۔‘‘

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تَعَالٰی ، 1/489، حدیث نمبر 798)

حضرتِ سیِّدُنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا،"یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم! میں کس چیز کے ذریعے جہنم سے بچ سکتا ہوں؟" تو رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ"اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے سے کیونکہ جو آنکھ اللہ عزوجل کے خوف سے روتی ہے اسے جہنم کی آگ کبھی نہ چھوئے گی۔

(الترغیب والترہیب، رقم09،جلد04،صفحہ نمبر 114)

حضرتِ سیِّدُتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی،"یا رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ وسلّم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟" تو فرمایا،"ہاں! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئے۔

(احیاء العلوم،کتاب الخوف والرجاء،جلد04،صفحہ نمبر 200)

دنیا میں بہت سے عظیم المرتبت بُزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللہُ المُبِین گزرے ہیں جن کا دل خوفِ خدا سے لرزتا رہتا تھا انہی میں سے ایک عظیم شخصیت امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز بھی ہیں چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت عبدُالمک رحمۃ اللہ علیھا سے امیر المؤمنین کی عبادت کا حال دریافت کیا گیا تو کہنے لگیں: "وہ اور لوگوں سے بڑھ کر نَماز، روزہ کی کثرت تو نہیں کرتے تھے لیکن میں نے اُن سے بڑھ کر کسی کو اللہ تعالٰی کے خوف سے کانپتے نہیں دیکھا، وہ اپنے بستر پر اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے تو خوفِ خدا کی وجہ سے چڑیا کی طرح پَھڑ پَھڑانے لگتے یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوتا کہ ان کا دَم گُھٹ جائے گا اور لوگ صبح کو اُٹھیں گے تو خلیفہ سے مَحرُوم ہوں گے۔ (سیرت ابن عبدالحکم،صفحہ نمبر 42)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے بُزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللہ المُبِین خوفِ خدا عزوجل سے کس طرح لَرزَاں و تَرساں رہا کرتے تھے، بہت زیادہ عبادت و رِیاضت اور گناہوں سے دُوری کے باوجود پاکیزہ خَصلت لوگ حَشر نَشر کے بارے میں کس قدر فکرمند رہتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی آخرت اور حساب و کتاب کو بُھولے ہیں، نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر ہم نے گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، نہ گناہوں کے اِرتِکاب پر ندامت ہے نہ نیکیوں سے مَحرُومی پر شرمندگی ہے۔اے کاش! ان پاکیزہ ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی اشکِ ندامت نصیب ہوجائیں۔

نَدامت سے گناہوں کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا

ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے نَدامت سے


دل میں درد، سوزش اور گھبراہٹ کا کسی در پیش نقصان کے سبب پیدا ہونا خوف کہلاتا ہے۔ خوفِ خدا کبھی اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کی معرفت کے سبب پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو سب کچھ ہلاک فرمادے تو اسے کوئی پرواہ ہے نہ پوچھنے والا۔ اور کبھی بندہ بہت گناہ گار ہو تو خوفِ خدا پیدا ہو جاتا ہے۔ جبکہ زیادہ تر دونوں خوفِ خدا کا سبب بنتے ہیں ۔ خوفِ خدا سے رونے کے کثیر فضائل احادیث اور بزرگانِ دین کے اقوال میں موجود ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ " جس بندہ مومن کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرمادیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ ، 4 / 467، الحدیث :4197)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ تعالٰی کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں ۔(جامع الترمذی، الحدیث1669، ص1823)

حضرتِ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ” اللہ تعالٰی کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

(احیاالعلوم(مترجم)4/480)

اللہ تعالٰی نے اپنی کسی آسمانی کتاب میں ارشاد فرمایاکہ”میری عزت و جلال کی قسم ! جو بندہ میرے خوف سے روئے گا میں اس کے بدلے مقدس نور سے اسے خوشی عطا کروں گا۔ میرے خوف سے رونے والوں کو بشارت ہو کہ جب رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے انہی پر نازل ہوتی ہے۔اور میرے گناہ گار بندوں سے کہہ دو کہ” وہ میرے خوف سے آہ و بقا کرنے والوں کی محفل اختیار کریں تاکہ جب رونے والوں پر رحمت نازل ہو تو ان کو بھی رحمت پہنچے۔

(موسوعۃ للامام ابن ابی الدنیا ، الحدیث :27/18/8 ، ج3 ، ص 171 تا 174)

ہمیں بھی چاہیے کہ خوفِ خدا میں روئیں۔اور اگر رونا نہ آتا ہو تو خوفِ خدا سےرونے کا ذہن بنانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں اوّل تا آخر شرکت کرنی چاہیے جس میں رقت انگیز دعا ہوتی ہے۔اس دعا کی برکت سے کئی لوگ اپنے گناہوں پر ندامت کے سبب رورو کے اللہ سے معافیاں مانگتے، توبہ کرتے اور اپنی زندگی سنتوں کے مطابق گزارنے لگتے ہیں ۔

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

اللہ تعالٰی ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے ۔ آمین


محترم قارئین! خوفِ خدا میں رونا ایک عظیم الشان نیکی  ہے اور یہ رونا مقدر والوں کا حصہ ہے آئیے خوفِ خدا میں رونے کے فضائل کے متعلق احادیث مبارکہ اور اقوال بزرگانِ دین سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

خوفِ خدا عزَّوجل میں رونا سنّت ہے: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ جب یہ آیتِ مبارَکہ نازِل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰) ترجمہ کنزالایمان:تو کیا اس بات سے تم تَعجُّب کرتے ہو،اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔( پارہ 28،النجم 59 ،60) تو اصحابِ صُفَّہ رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے رویا ہو ۔‘‘(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تَعَالٰی ، 1/489، حدیث نمبر 798)

اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سرد ہوگا؟

رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

بخشش کا پروانہ:حضرت سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہ عَنہ سے مَروی ہے کہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،" جو شخص اللہ تعالٰی کے خوف سے رُوئے ، وہ(یعنی اللہ پاک) اس کی بخشش فرما دے گا۔ (کنزالعمال، 3 / 63 ،حدیث : 5909)

آگ نہ چھوئے گی:حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضَیِ اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلّٰی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا، دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں رب عزَّوَجل کے خوف سے رُوئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا عزَّوجل میں پہرہ دینے کے لیے جاگے۔(شعب الایمان ،باب فی الخوف من اللّہِ تعالٰی ، 1/378، حدیث : 794)

پسندیدہ قطرہ:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں جو (آنکھ سے) اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔"(اِحْیاءُ العلوم ،کتاب الخوف و الرجاء، 4 /200)

مکّھی کے سر برابر آنسو:رسولُ اللہ صلی علیہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مُؤْمِن کی آنکھوں سے اللہ عزَّوجلَّ کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکّھی کے سر کے برابر ہوں۔پھر وہ آنسو اُس کے چِہرے کے ظاہِری حصّے کو پَہُنْچِیْں اللہ عزَّوجلَّ اُسے جہنّم پر حرام کر دیتا ہے۔

(شعب الایمان : 1 / 391 حدیث : 802)

خوف خدا میں رونے سے متعلق بزرگان دین کے اقوال:

حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عمْر بن عاص رَضِیَ اللہ تعالیٰ عنہما فرماتےہیں: رویا کرو!اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو، اُس ذات کی قسم! جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کسی کو علم ہوتا تو وہ اِس قدر چِیختا کہ اُس کی آواز ٹُوٹ جاتی اور اِس طرح نماز پڑھتا کہ اُس کی پیٹھ ٹُوٹ جاتی۔(احیاء العلوم، کتاب الخوف والرجاء)

حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عمْر رَضِیَ اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دِینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

(شعب الایمان 1/520، حدیث : 482)

ایک قطرے کی وجہ سے جہنّم سے آزادی:مروِی ہے کہ قِیامت کے دن ایک شخص کو بارگاہِ خداوندی میں لایا جائے گا اور اُسے اُس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ اُس مِیں کثیر گناہ پائے گا۔ پھر عرض کرے گا"، یاالٰہی! مَیں نے تو یہ گناہ کئے ہی نہیں؟" اللّٰہ عزَّوجل ارشاد فرمائے گا،" میرے پاس اِس کے مضبوط گواہ ہیں۔" وہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا اور کہے گا،" یا رب عزّوجل! وہ گواہ کہاں ہیں؟" تو اللہ تعالیٰ اُس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔کان کہیں گے،" ہاں! ہم نے (حرام سنا) اور ہم اس پر گواہ ہیں۔" آنکھیں کہیں گی،" ہاں!ہم نے (حرام) دیکھا ۔"زبان کہے گی،" ہاں! مَیں نے (حرام) بولا تھا۔" اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کہیں گے،" کہ ہاں!ہم (حرام کی طرف) بڑھے تھے۔" شرمگاہ کہے گی،" ہاں مَیں نے زنا کیا تھا۔" وہ بندہ یہ سب سُن کر حیران رہ جائے گا۔پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کے لئےجہنّم میں جانے کا حکم فرمائے گا تو اس شخص کی سیدھی آنکھ کا ایک بال ،رب تعالیٰ سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کرے گا اور اجازت ملنے پر عرض کرے گا،"یااللہ عزّوجل؟کیا تو نے نہیں فرمایا تھا کہ میرا جو بندہ اپنی آنکھ کے کسی بال کو میرے خوف میں بہائے جانے والے آنسوؤں میں تر کرے گا،میں اس کی بخشش فرما دوں گا؟"اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ،" کیوں نہیں !" تو وہ بال عرض کرے گا ،"مَیْں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گناہ گار بندہ تیرے خوف سے رُویا تھا، جس سے مَیْں بِھیگ گیا تھا۔" یہ سُن کر اللہ تعالیٰ اُس بندے کو جنت میں جانے کا حکم فرمائے گا۔ ایک مُنادِی پکار کر کہے گا،" سنو فلاں بن فلاں اپنی آنکھ کے ایک بال کی وجہ سے جہنّم سے نجات پا گیا۔"(درۃالناصحین،المجلس الخامس والستون۔ص،294)

اللہ عزَّوجلّ ایک قطرہ آنسو سے آگ کے کئی سَمُندر بجھادے گا:حضرت ابو سُلیمان دارانی رحمۃُ اللہ تَعَالیٰ فرماتے ہیں: خوفِ خدا کے باعث جو آنکھیں ڈَبڈَبائیں گی (یعنی آنسوؤں سے بھر جائیں گی)، اُس چِہرے پر قِیامت کے دن سیاہی اور ذِلّت نہیں چڑھے گی اور اگر ڈَبڈَبانے والی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن آنسوؤں کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی آگ کے کئی سَمُندروں کوبُجھادے گا اور جس قوم میں سے کوئی شخص (خوفِ خدا عزَّوجلّ)سے روتا ہے اُس قوم پر رحم کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم :4/201)


طلحہ حسن (عمر کوٹ)

Thu, 9 Dec , 2021
2 years ago

                          حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام بہت سے لوگوں کو لے کر بارش کی دعا کرنے چلے ، وحی نازل ہوئی کہ" جب تک تمہارے ساتھ گناہگار لوگ موجود ہیں بارش نہیں برسائی جائے گی ۔‘‘ چنانچہ آپ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان کیا: ’’تم میں سے جو جو گناہگار ہے وہ چلا جائے ،جس نے کوئی گناہ کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ رکے ۔‘‘ یہ سن کر تمام لوگ واپس پلٹ گئے لیکن ایک ایسا شخص باقی رہا جس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی ۔آپ علىٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے دریافت فرمایا:’’تم واپس کیوں نہیں گئے؟‘‘ وہ شخص عرض گزار ہوا:"یا روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام! میں نے لمحہ بھر بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کی ، البتہ ! ایک مرتبہ بلا قصد میری نظر ایک اجنبی عورت کے پاؤں پر پڑگئی تھی ، اپنے اس فعل پر میں بہت شرمندہ ہوا اوراپنی سیدھی آنکھ نکال پھینکی خدا عزوجل کی قسم !اگر میری دوسری آنکھ ایسی خطا کرتی تو میں اسے بھی نکال پھینکتا ۔‘‘

یہ سن کر حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ، پھر اس شخص سے فرمایا" تو ہمارے لئے دعا کر میری نسبت تو زیادہ دعا کرنے کا حقدار ہے کیونکہ میں تو نبوت کی وجہ سے گناہوں سے معصوم ہوں ،اور تو معصوم بھی نہیں لیکن پھر بھی ساری زندگی گناہوں سے بچتا رہا"۔ چنانچہ وہ شخص آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ بلند کردیئے، پھر کچھ اس طرح سے بارگاہ خداوندی عزوجل میں عرض گزار ہوا: "اے ہمارے پروردگار عزوجل! تو نے ہی ہمیں پیدا فرمایا اورتو ہماری پیدائش سے پہلے بھی جانتا تھا کہ ہم کیا عمل کرنے والے ہیں ، پھر بھی تو نے ہمیں پیدا فرمایا، جب تو نے ہمیں پیدا فرمادیا تو تُو ہی ہمارے رزق کا کفیل ہے۔ اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل! ہمیں باران رحمت عطا فرما‘‘راوی فرماتے ہیں : اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی جان ہے! ابھی وہ شخص دعا سے فارغ بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایسی بارش آئی گویا آسمان پھٹ پڑا ہو اور اس کی دعا کی برکت سے پیاسے سیراب ہو گئے ۔

(عیون الحکایات :ج1، ص 101)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے اس شخص نے خوف خدا کی وجہ سے اپنی آنکھ نکالی تو اس کی برکت سے اللہ کے نبی علیہ السلام نے اس سے دعا کروائی۔ واقعی خوف خدا میں رونے کے بہت فضائل ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمۂ کنز العرفان :اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پارہ:18 النور 52)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"جو اللہ عزوجل کو یاد کرے اور اس کی آنکھ خوف خدا سے بہنا شروع کردیں یہاں تک کہ اس کے آنسوں زمیں پر جا گریں تو اس شخص کو بروز قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا (مستدرک،کتاب التوبہ، باب لایلج النار احد بکی من خشیۃ اللہ،رقم:7742 ج : 5 ص:369)

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" جو اللہ عزوجل کو یاد کرے اور اس کی آنکھ خوف خدا عزوجل سے بہنا شروع کردیں یہاں تک کہ اس کے آنسو زمین پر جا گریں تو اس شخص کو بروز قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔ (مستدرک، کتاب التوبہ، رقم :7746، 5 / 369)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے خوف خدا میں رونے کے کتنے فضائل ہیں۔ اللہ کریم ہمیں خوف خدا میں رونا نصیب کرے ۔(آمین)


فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۸۲) ترجمۂ کنز العرفان:تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور بہت روئیں بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔(پ:10،التوبۃ:82)

رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،" جو شخص اللہ تعالی کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا حتی کہ دودھ (جانور کے) تھن میں واپس آجائے۔

(شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالٰی ،1/490، الحدیث :800)

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو شخص اللہ تعالی کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔

(کنزالعمال :3/63،رقم الحدیث :5909)

حضرت سَیِّدُنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نجات کیا ہے؟ ؛ارشاد فرمایا،" اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے (یعنی بلا ضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔

(شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالی :1/492،رقم الحدیث :805)

ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائےگا؟"تو فرمایا؛" ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔

(احیا العلوم، کتاب الخوف والرجاء:4/200)

حضرت سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،" دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی،ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں رب عزوجل کے خوف سے روئے اوردوسری وہ جو راہ خدا میں پہرہ دینے کے لیے جاگے۔

(شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالیٰ ،1/478،رقم الحدیث :796 )

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،"اللہ تعالی کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں جو (آنکھ سے) اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔( احیا العلوم ،کتاب الخوف والرجاء :4/200)

مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے:اللَّهُمَّ ارْزُقْنِىْ عَيْنَيْنِ هَطَالَتَيْنِ تُشْفَيَانِ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ قَبْلَ أَنْ تَصيرَ الدُّموعَ دَمَأً وَالْاَضْرَاسُ جمرَأً۔اے اللہ عزوجل! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو کثرت سے آنسو بہاتی ہوں اور آنسو گرنے سے تسکین دے،اس سے پہلے کہ آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگاروں میں بدل جائیں۔

(احیاء العلوم، کتاب الخوف والرجاء :4/200)

ایک مرتبہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو حاضرین میں سے ایک شخص رو پڑا۔یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر آج کی اس محفل میں تم میں سے ہر ایک پر پہاڑ کے برابر بھی گناہ ہوتے تو اس شخص کی آہ وبقاء کے صدقے معاف کر دیے جاتے،کیونکہ ملائکہ بھی رو رو کر دعا کر رہے ہیں، "اے اللہ عزوجل !گریہ و زاری کرنے والے کی شفاعت نہ رونے والوں کے حق میں قبول فرما"

(شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالیٰ :1/494،رقم الحدیث: 810)

حضرت سیّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)ترجمہ کنزالایمان:تو کیا اس بات سےتم تعجب کرتے ہو ،اور ہنستے ہواور روتے نہیں۔ (پ 27،النجم 59،60) تو اصحابِ صُفَّہ رَضِیَ اللہ عَنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے رویا ہو ۔‘‘

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تَعَالٰی ، 1/489، حدیث نمبر 798)

حضرتِ سَیِّدُنا ذکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت سیّدُنا یحییٰ علیہ السلام ایک مرتبہ کہیں کھو گئے تھے۔تین دن کے بعد آپ ان کی تلاش میں نکلے تو دیکھا حضرت سیّدُنا یحیٰی علیہ السلام نے قبر کھود رکھی ہے اور اس میں کھڑے ہو کر رو رہے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا،"اے میرے بیٹے! میں تمہیں تین دن سے ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں قبر میں کھڑے آنسو بہا رہے ہو؟" تو انہوں نے عرض کی کہ، ابا جان! کیا آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک خشک وادی ہے جسے رونے والوں کے آنسو ہی بھر سکتے ہیں؟" تو آپ نے فرمایا" ضرور ضرور! میرے بیٹے۔" اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر رونے لگے۔

( شعب الایمان ،باپ فی الخوف من اللہ تعالی: 1/494،رقم الحدیث :809)

امیر المؤمنین حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، جو شخص رو سکتا ہو روئے اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے"۔

(احیاءالعلوم ،کتاب الخوف و الرجاء :ج 4 ،ص201)

امیر المؤمنین حضرت سیّدُنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے فرمایا ،جب تم میں سے کسی کو رونا آئے تو وہ آنسوؤں کو کپڑے سے صاف نہ کرے بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت میں رب تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔

(شعب الایمان باب فی الخوف من اللہ تعالی: ج 1ص494،رقم الحدیث 808 )

حضرتِ سَیِّدُنا کعب الاحبار رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: خوف خدا سے آنسو بہانہ مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کروں اس لیے کہ جو شخص اللہ عزوجل کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔ ( درة الناصحين ،المجلس الخامس والستون ص 293)