خوفِ خدا سفرِ آخرت کی کامیابی کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی بے نیازی، اُس کی ناراضی، اُس کی گرفت اور اُس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔

اگر ہمارے دل میں اللہ عزوجل کا خوف پیدا ہوگیا تو یہ خوفِ خدا کا دل میں پیدا ہونا اور اُس خوف کی وجہ سے رونا ہمیں ربّ تعالٰی کی ناراضگی سے بچا کر اُس کی رِضا تک پہنچائے گا۔ بطورِ ترغیب اِن روایات کو ملاحظہ فرمائیں:۔

حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ'' جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ تو اصحابِ صُفَّہ رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ تَعَالٰی کے ڈر سے رویا ہو ۔‘‘

(شعب الایمان ، باب فی الخوف من اللہ تَعَالٰی ، 1/489، حدیث نمبر 798)

حضرتِ سیِّدُنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا،"یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم! میں کس چیز کے ذریعے جہنم سے بچ سکتا ہوں؟" تو رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ"اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے سے کیونکہ جو آنکھ اللہ عزوجل کے خوف سے روتی ہے اسے جہنم کی آگ کبھی نہ چھوئے گی۔

(الترغیب والترہیب، رقم09،جلد04،صفحہ نمبر 114)

حضرتِ سیِّدُتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی،"یا رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ وسلّم! کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟" تو فرمایا،"ہاں! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئے۔

(احیاء العلوم،کتاب الخوف والرجاء،جلد04،صفحہ نمبر 200)

دنیا میں بہت سے عظیم المرتبت بُزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللہُ المُبِین گزرے ہیں جن کا دل خوفِ خدا سے لرزتا رہتا تھا انہی میں سے ایک عظیم شخصیت امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز بھی ہیں چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت عبدُالمک رحمۃ اللہ علیھا سے امیر المؤمنین کی عبادت کا حال دریافت کیا گیا تو کہنے لگیں: "وہ اور لوگوں سے بڑھ کر نَماز، روزہ کی کثرت تو نہیں کرتے تھے لیکن میں نے اُن سے بڑھ کر کسی کو اللہ تعالٰی کے خوف سے کانپتے نہیں دیکھا، وہ اپنے بستر پر اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے تو خوفِ خدا کی وجہ سے چڑیا کی طرح پَھڑ پَھڑانے لگتے یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوتا کہ ان کا دَم گُھٹ جائے گا اور لوگ صبح کو اُٹھیں گے تو خلیفہ سے مَحرُوم ہوں گے۔ (سیرت ابن عبدالحکم،صفحہ نمبر 42)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے بُزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللہ المُبِین خوفِ خدا عزوجل سے کس طرح لَرزَاں و تَرساں رہا کرتے تھے، بہت زیادہ عبادت و رِیاضت اور گناہوں سے دُوری کے باوجود پاکیزہ خَصلت لوگ حَشر نَشر کے بارے میں کس قدر فکرمند رہتے تھے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی آخرت اور حساب و کتاب کو بُھولے ہیں، نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر ہم نے گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، نہ گناہوں کے اِرتِکاب پر ندامت ہے نہ نیکیوں سے مَحرُومی پر شرمندگی ہے۔اے کاش! ان پاکیزہ ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی اشکِ ندامت نصیب ہوجائیں۔

نَدامت سے گناہوں کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا

ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے نَدامت سے