پیارے مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس دن عرشِ الٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا اس دن اللہ عزوجل سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو تنہائی میں اللہ عزوجل کو یاد کرے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔

خوف خدا سے رونے کی فضیلت پر مشتمل اقوال بزرگانِ دین:

حضرت سیدنا ابو سلیمان دارنی قدس سرہُ النورانی فرماتے ہیں: جس شخص کی آنکھ خوف خدا میں آنسو بہاتی ہے روز قیامت اس شخص کا چہرہ سیاہ ہو گانہ اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ، جب اس کی آنکھ سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ عزوجل ان کے پہلے قطرے سے دوزخ کے شعلوں کو بجھا دیتا ہے اور اگر کسی امت میں ایک بھی شخص خوف خدا سے روتا ہے تو اس کی برکت سے اس امت پر عذاب نہیں کیا جاتا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: رونا خوف کے سبب ہوتا ہے جبکہ خوشی سے جھومنے اور شوق کی کیفیت امید سے پیدا ہوتی ہے۔

پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ عمل:

حضرت سیدنا کعب الاحبار علیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں اللہ عزوجل کے خوف سے روؤں یہاں تک کہ میرے آنسوں رخساروں پر بہیں یہ میرے نزدیک پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں: اللہ عزوجل کے خوف سے میرا ایک آنسو بہانا میرے نزدیک پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں!)

حضرت سیدنا حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ہم بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ حضور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا جس کے سبب دل نرم پڑگئے ، آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس آیا، میری بیوی مجھ سے قریب ہوئی اور ہمارے درمیان دنیوی گفتگو ہوئی تو میں ان باتوں کو بھول گیا جو پیارے مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے سیکھی تھیں اور دنیا میں لگ گیا، اس کے بعد جب مجھے وہ باتیں یاد آئیں تو میں نے اپنے دل میں کہا: میں تو منافق ہو گیا ہوں کیونکہ مجھ سے خوف اور رقت کی وہ کیفیت دور ہو گئی ہے۔ میں اپنے گھر سے باہر آگیا اور یہ ندا کرنے لگا: حنظلہ منافق ہو گیا۔ راستے میں مجھے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور میں نے انہیں اپنے معاملے کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا: حنظلہ ہر گز منافق نہیں ہوا ۔ اس کے بعد میں بار گاہ رسالت میں یہ کہتے ہوے حاضر ہوا کہ حنظلہ منافق ہو گیا۔ تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حنظلہ منافق نہیں ہوا۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ پ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا جس سے دل خوف زدہ ہو گئے ، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی، پھر جب میں اپنے گھر گیا تو دنیا کی گفتگو میں مشغول ہو گیا اور اس کیفیت کو بھول گیا جو آپ کی بارگاہ میں حاضری کے وقت تھی ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت پر قائم رہو تو راستوں میں اور تمہارے بستروں پر فرشتے تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے (انسان کی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں رہتی)۔

بہر حال امید اور رونے کی فضیلت،تقوی اور ورع کی فضیلت، علم کی فضیلت اور بے خوفی کی مذمّت کے بارے میں جس قدر روایات وغیرہ وارد ہیں وہ سب کی سب خوف کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کا کسی نہ کسی اعتبار سے خوف سے تعلق ضرور ہے۔

(احیاء العلوم جلد نمبر 4 صفحہ نمبر۔ 479 تا 481 )