فرامین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم :

1۔جس بندہ مومن کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ عزوجل اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔

2۔ اللہ عزوجل کے خوف کے سبب جب مؤمن کا دل کانپتا ہے تو اسکے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔

3۔جو شخص اللہ عزوجل کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔

4۔حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نجات کیاہے؟ ارشاد فرمایا: اپنی زبان قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔

5۔ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوگا ارشاد فرمایا ہاں وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئے۔

6۔اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں۔

7۔مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم یہ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ عزوجل مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو خوب بہنے والی ہوں اور تیرے خوف سے آ نسوبہا بہا کردل کو شفا بخشیں اس سے پہلے کہ آنسو خون اور داڑھی انگاروں میں تبدیل ہوجائیں۔

خوف خدا سے رونے کی فضیلت پر مشتمل تین اقوال بزرگانِ دین:

1۔امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جس سےہو سکے وہ روئے اور جسے رونا نہ آئے وہ رونے جیسی صورت ہی بنالے۔

2۔حضرت سیدنا محمد بن منکدررحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ جب روتے تو اپنے آ نسووں کو چہرے اور داڑھی پرمل لیتے اور فرماتے مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جہنم کی آگ ان اعضاء کو نہیں کھائے گی جن سے خوف خدا سے بہنے والے آنسو مس ہوئے ہوں۔

3۔حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:خوب رووں اور اگر رونا نہ آ ئے تو رونے جیسی صورت ہی بنالو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کسی شخص کو حقیقت حال کا علم ہو جائے تو وہ خوف خدا کے سبب اس قدر چخییں مارے کہ اس کی آواز ختم ہو جائے اور نماز کی اتنی کثرت کرے کہ اس کی کمر جواب دے جائے۔( احیاء العلوم جلد نمبر 4 صفحہ 478 تا480)