دل میں درد، سوزش اور گھبراہٹ کا کسی در پیش نقصان کے سبب پیدا ہونا خوف کہلاتا ہے۔ خوفِ خدا کبھی اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کی معرفت کے سبب پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالٰی چاہے تو سب کچھ ہلاک فرمادے تو اسے کوئی پرواہ ہے نہ پوچھنے والا۔ اور کبھی بندہ بہت گناہ گار ہو تو خوفِ خدا پیدا ہو جاتا ہے۔ جبکہ زیادہ تر دونوں خوفِ خدا کا سبب بنتے ہیں ۔ خوفِ خدا سے رونے کے کثیر فضائل احادیث اور بزرگانِ دین کے اقوال میں موجود ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ " جس بندہ مومن کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرمادیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ ، 4 / 467، الحدیث :4197)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ تعالٰی کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں ۔(جامع الترمذی، الحدیث1669، ص1823)

حضرتِ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ” اللہ تعالٰی کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

(احیاالعلوم(مترجم)4/480)

اللہ تعالٰی نے اپنی کسی آسمانی کتاب میں ارشاد فرمایاکہ”میری عزت و جلال کی قسم ! جو بندہ میرے خوف سے روئے گا میں اس کے بدلے مقدس نور سے اسے خوشی عطا کروں گا۔ میرے خوف سے رونے والوں کو بشارت ہو کہ جب رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے انہی پر نازل ہوتی ہے۔اور میرے گناہ گار بندوں سے کہہ دو کہ” وہ میرے خوف سے آہ و بقا کرنے والوں کی محفل اختیار کریں تاکہ جب رونے والوں پر رحمت نازل ہو تو ان کو بھی رحمت پہنچے۔

(موسوعۃ للامام ابن ابی الدنیا ، الحدیث :27/18/8 ، ج3 ، ص 171 تا 174)

ہمیں بھی چاہیے کہ خوفِ خدا میں روئیں۔اور اگر رونا نہ آتا ہو تو خوفِ خدا سےرونے کا ذہن بنانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں اوّل تا آخر شرکت کرنی چاہیے جس میں رقت انگیز دعا ہوتی ہے۔اس دعا کی برکت سے کئی لوگ اپنے گناہوں پر ندامت کے سبب رورو کے اللہ سے معافیاں مانگتے، توبہ کرتے اور اپنی زندگی سنتوں کے مطابق گزارنے لگتے ہیں ۔

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

اللہ تعالٰی ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے ۔ آمین