محمد اویس عطاری (درجہ رابعہ ،جامعۃُ المدینہ،
فیضان عثمان غنی رضی اللہ عنہ،کراچی)
پیارے
اسلامی بھائیو :اللہ تعالی کی رضا کا حاصل ہو جانا بہت بڑی سعادت مندی ہے وہ شخص
بہت خوش نصیب ہے کہ جسے موت سے پہلے اللہ تبارک و تعالی کی رضا حاصل ہو جائے یقینا
مالک کائنات جس انسان سے راضی ہو گیا دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی اس کے قدم
چومے گی۔ اسے نہ تو ایمان کی بربادی کا خطرہ ہے اور نہ عذابات قبر کا ،نہ میدان
محشر کی ذلت اس کا مقدر بنے گی اور نہ ہی پل صراط اور جہنم کا خوف اسے لاحق ہوگا۔
جب
یہ تمام امور تسلیم شدہ ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ دنیا میں ایسے اعمال
کرے جن کے باعث اللہ تعالی کی رضا کا حصول ممکن و آسان ہو جائے۔ میں آپ لوگوں کی
خدمت میں ایک ایسے ہی عمل کے بارے میں چند حدیث پاک پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں
گا جس پر عمل پیرا ہونے کی سعادت حاصل کے بعد انشاءاللہ ہماری دنیا و آخرت سنور
جائے گی۔
عَن اَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكٰى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ حَتّٰى
يَعُوْدَ اللَّبَنُ فيِ الضَّرْعِ وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَدُخَانُ
جَهَنَّمَ. ترجمہ: حضرت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :اللہ عزوجل کے خوف سے رونے والا جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ دودھ تھنوں
میں واپس لوٹ جائے اور راہ خدا کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے ۔
( فیضان ریاض الصالحین :4/605)
حدیث پاک میں ہے :جس مومن کی آنکھوں سے خوف خدا
کے سبب آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے
ظاہری حصے کو پہنچے تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ:4/467)
حضرتِ سَیِّدُنا محمد
بن مُنکَدِر(مُن۔کَ۔دِر) رضی اللہ عنہ جب
روتے تو اپنے چِہرے اور داڑھی پر آنسو مل لیتے اور فرماتے کہ مجھے معلوم ہوا ہے
کہ آگ اُس جگہ کو نہ چُھوئے گی جہاں خوفِ خدا سے نکلنے والے
آنسو لگے ہوں ۔(اِ حیاءالْعُلوم 4/480)
حضرت
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا
میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔( خوف خدا ،ص:142)
منقول ہے کہ بروزِ قیامت جہنم سے پہاڑ کے برابر آگ نکلے گی
اور امتِ مصطفی کی طرف بڑھے گی توسرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ
وسلم اسے روکنے کی
کوشش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل کو بلائیں گے
کہ’’ اے جبرائیل اس آگ کو روک لو ، یہ میری امت کو جلانے پر تُلی ہوئی ہے۔‘‘ حضرت
جبرائیل ایک پیالے میں تھوڑا سا پانی لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کریں گے ، ’’اس پانی کو اس آگ
پر ڈال دیجئے ۔‘‘ چنانچہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کو آگ پر انڈیل دیں گے ، جس سے وہ آگ فوراً بجھ
جائے گی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل سے دریافت کریں گے ،
’’اے جبرائیل ! یہ کیسا پانی تھاجس سے آگ فوراً بجھ گئی ؟‘‘ تو وہ عرض کریں گے کہ
، ’’یہ آپ کے ان امتیوں کے آنسوؤں کا پانی ہے جو خوفِ خدا کے سبب تنہائی میں
رویا کرتے تھے، مجھے رب تَعَالٰی نے اس پانی کو جمع کرکے محفوظ رکھنے کا حکم
فرمایا تھا تاکہ آج کے دن آپ کی امت کی طرف بڑھنے والی اس آگ کو بجھایا جا سکے
۔‘‘
(خوف
خدا،ص:144)