آپ علیہ السّلام کا نام مبارک "اسماعیل" ہے، اپ علیہ السّلام کا لقب ذبیح اللہ ہے ، کیونکہ اللہ پاک نے آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور آپ علیہ السّلام نے حکم الہی سن کر خود کو قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا۔ اللہ پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو بہت سارے اوصاف سے نوازا  ہے ، جن میں سے 5 یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔

(1،2)وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے : قراٰن پاک میں آپ علیہ السّلام کے ان اوصاف کا ذکر ان الفاظ میں ہے ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔

( 3)مخلوق میں ایک بہترین فرد: ارشاد باری ہے : ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(4)اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ بندے: آپ علیہ السّلام اپنے اعمال و صبر کی وجہ سے بارگاہ الہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا :﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(5) صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صبر کرنے والوں کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل تھے۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

آپ علیہ السّلام کے صبر کرنے والے واقعات میں سے دو نمایاں واقعات یہ ہیں۔ (1) اللہ پاک کے حکم پر خود کو قربانی کے لیے پیش فرمانا۔ (2) بغیر پانی اور سازو سامان کے مکہ میں رہنا۔(سیرت الابنیاء،ص347)اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ علیہ السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ مجید میں 26 انبیائے کرام علیہم السّلام کا ذکر صراحتاً آیا جس میں سے ایک حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند ہیں۔ آپ علیہ السّلام انتہائی اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے آپ کے کچھ اوصاف کا تذکرہ قراٰنِ مجید میں بھی آیا۔

(1) بہترین فرد: آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(2) پسندیدہ بندہ:آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال، صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے بارگاہ الہی کے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(3، 4) سچے اور غیب کی خبریں دینے والے: آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے مثلاً والد صاحب سے وعدہ کیا کہ آپ مجھے حکمِ خداوندی پر ذبح کریں آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر آپ علیہ السّلام نے اس وعدے کو پورا کیا۔ ( تفسیر صراط الجنان ،6/121)

(5) صبر کرنے والے: آپ علیہ السّلام صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85) مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام عبادات کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔

انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت، اوصاف و کمالات کو جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ تصنیف "سیرت الانبیاء‏ " کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نبی اور رسول کی تعریف : "نبی" اس بشر ( یعنی انسان ) کو کہتے ہیں جس کی طرف رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ اور ان نبیوں میں سے جو نئی شریعت "اسلامی قانون اور رب العالمین کے احکام" لے کر آئے ، اسے "رسول" کہتے ہیں۔رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش 1لاکھ 24ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام بھیجے ، جن میں بعض بعض سے بلند درجے پر فائز تھے اور ان تمام انبیا کے سردار ہمارے پیارے آخری نبی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند اور حضرت ہاجرہ کے بطن اطہر سے پیدا ہونے والے بیٹے "حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السّلام" ہیں۔

حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے ایک چھوٹے بھائی حضرت اسحاق علیہ السّلام تھے۔ مگر زیادہ خصوصیات و واقعات کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا ذکر خیر کثرت سے کیا جاتا ہے۔آپ علیہ السّلام کا قراٰن مجید میں مختصر تذکرہ متعدد سورتوں میں موجود ہے مگر کچھ احوال کا تفصیلی ذکر درج ذیل سورتوں 6 میں موجود ہے۔(1)۔ سورہ بقرہ ، آیت 125،127۔ (2)۔ سورہ انعام ، آیت 86 ۔(3)۔ سورہ مریم ، آیت 54،55 ۔(4)۔ سورہ انبیاء ، آیت 85،86 ۔(5)۔ سورہ صافات ، آیت 101،107 ۔(6)۔ سورہ صٓ ، آیت 48 ۔قراٰن مجید نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے اوصاف کو ذکر فرمایا جن میں سے 5درج ذیل ہیں۔

(2،1)حضرت اسماعیل علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔قراٰنِ مجید میں ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54) نوٹ: یاد رکھیں انبیائے کرام علیہم السّلام کے وعدے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ کا خصوصی ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ جب آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو حکم ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کریں ، تو اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر ایسا صبر کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔

(3)حضرت اسماعیل علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشاد باری ہے:﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(4)حضرت اسماعیل علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال ، صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے بارگاہ الٰہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔قراٰن مجید میں ارشاد باری ہے : ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(5)حضرت اسماعیل علیہ السّلام صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل تھے۔ قراٰن مجید میں ارشاد باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85) حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی ان صفات میں ہمارے لیے بہت درس ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے صبر اور پختہ وعدے نے ہمیں بتلایا کہ دنیا کی کوئی بھی مشکل آن پہنچے ہمیں ہر وقت صبر کرنا ہے، کرنا ہوگا اور ہر حال میں اپنے وعدے کو مکمل کرنا ہوگا ، اسی میں عافیت ہے اور یہی عمل حصول برکت کا ذریعہ ہے۔ اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے ، اور اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیے۔


اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور مخلوق کو کفر و شرک ، گمراہی اور  بد عملی سے روکنے ، ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اپنے مقرب بندے ( یعنی انبیائے کرام ) کو نبوت ورسالت کا منصب عطا فرما کر امت کی طرف بھیجا اور انبیائے کرام اپنے رب کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش کرتے رہے انہی انبیائے کرام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ کے بے شمار اوصاف ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر کیا جائے گا۔

(1)وعدے کے سچے :آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)

(2)پسندیدہ بندے : آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال ، صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے بارگاہ الہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(3)صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلی ترین گروہ میں داخل تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

(4)بہترین فرد : آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(5)زمانے والوں پر فضیلت : آپ علیہ السّلام کو آپ کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور تمام مخلوقات میں انسانوں اور جنوں کو مکلف بنایا اور ان کی راہ نمائی کے لیے انبیا و رسل بھیجے ان انبیا و رسل نے ان کی راہ نمائی کی ۔اللہ پاک نے  ان برگزیدہ ہستوں کو بہت بڑے مقام و مرتبے عطا فرمائے ان میں سے 26 انبیا علیہم السّلام کا نام صراحتاً قراٰن مجید میں مذکور ہے جن میں ایک نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں یہ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ۔قراٰنِ پاک کی بہت سی آیات میں ان کا ذکر موجود ہے ان کی شان میں بہت سی آیات نازل ہوئی جن میں سے بعض میں ان کے اوصاف کا تذکرہ بھی ہے ویسے تو بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

(1)آپ کے بارے میں فرمایا گیا آپ وعدے کے سچے ہیں

(2)آپ غیب کی خبریں بتانے والے رسول ہیں۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)آپ کیسے وعدے کے سچے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔(صراط الجنان پارہ16 سورہ مریم تحت آیت نمبر 58)

(3)حضرت اسماعیل علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین آدمی تھے ۔قراٰنِ مجید میں ارشاد ہوا: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48) اس آیت میں اللہ پاک نے آپ کا تذکرہ اچھے لوگوں میں کیا ۔

(4) آپ علیہ السّلام اپنے اوصاف کی وجہ سے اپنے رب کے پسندیدہ بندے تھے ۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55) جن کی طرف آپ علیہ السّلام مبعوث تھے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اَعمال ،صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔(صراط الجنان پارہ 16سورہ مریم تحت آیت نمبر 55)

(5)آپ کے اوصاف میں نمایاں پہلو آپ علیہ السّلام کا صبر بھی ہے اسی وجہ سے اللہ پاک نے قراٰن پاک میں آپ علیہ السّلام کا ذکر صبر کرنے والوں کے گروہ میں کیا ہے ۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا : ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء‏: 86،85) حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔ (صراط الجنان پارہ 17 سورہ انبیاء تحت آیت نمبر 85 )اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سیدنا اسماعیل علیہ السّلام کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے اس عالم میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام و رسل عظام کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ لوگوں تک اللہ پاک کا پیغام پہنچائیں اور لوگوں کو اللہ پاک کی طرف بلائیں۔ ان تمام انبیائے کرام و رسل عظام  میں سے اللہ کے پانچ نبی ایسے ہیں جن کی شان و مرتبہ باقی انبیا و رسل سے زیادہ ہے۔ ان حضرات کو ””مرسلین اولوالعزم““ کہتے ہیں۔ان اولوا العزم مرسلین میں ایک نام حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہے۔ جب آپ علیہ السّلام کی عمر مبارک 99سال ہوئی تو اللہ پاک نے آپ کو بیٹے کی نعمت سے نوازا اور ان کو بھی اللہ نے نبوت عطا فرمائی۔ جن کا نام حضرت اسماعیل علیہ السّلام ہے۔ اللہ پاک نے اپنی لاریب کتاب قراٰنِ کریم میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر فرمایا ۔اور ان کے اوصاف بیان فرمائے۔ قراٰن میں مذکور اسماعیل علیہ السّلام کے اوصاف میں سے چند یہ ہیں۔اللہ پاک نے سورہ مریم کی آیت نمبر 54 حضرت اسماعیل علیہ کے دو اوصاف کو بیان فرمایا

(1) وعدے کا سچا ہونا: تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر آپ کا خصوصی ذکر اس لیے فرمایا کیوں کہ آپ اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص آپ علیہ السّلام کو یہ کہہ کر گیا کہ جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں۔تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3 دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔

(2) غیب کی خبریں دینے والے رسول: آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا۔ اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں تھے ۔ اللہ نے ان دو اوصاف کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)

(3) نماز اور زکوة کا حکم دینا: آپ علیہ السّلام اپنے گھر والوں کو اور اپنی قوم جرہم جس کی طرف آپ علیہ السّلام مبعوث تھے ان کو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتے تھے ۔

(4)رب کے پسندیدہ بندے: آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے اللہ پاک کے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ نے قراٰنِ کریم میں آپ علیہ السّلام کی ان صفات کو یوں بیان فرمایا: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)

(5)صبر والا ہونا: اللہ نے قراٰن میں آپ کا ایک وصف صابر ہونا بھی ذکر فرمایا ۔آپ علیہ السّلام عبادات کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔آپ علیہ السّلام نے اپنے ذبح کیے جانے پر کیا۔اس وقت آپ ننھے منے مدنی منے تھے ،اس کے صلے میں اللہ نے انہیں یہ مقام عطا فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ان کی نسل سے ظاہر فرمایا۔ اللہ نے آپ علیہ السّلام کی اس صفت کو یوں بیان فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)


الله پاک نے انسان کو پیدا فرمایا تو ساتھ ہی اس کی راہ نمائی کے لیے انبیا اور رسل عظام کو بھی مبعوث فرمایا۔ رسولوں کو نئی شریعت کے ساتھ  جبکہ نبیوں کو پرانی شریعت پر ہی مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السّلام سے لیکر ہمارے پیارے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان میں سے بعض صرف نبی ہیں اور بعض نبی اور رسول دونوں ہیں۔ انہیں میں سے ایک جلیل القدر نبی و رسول حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند ہیں کہ جن کی پیروی کرنے کا حکم خود نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ﴿ ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِـعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۲۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا۔ (پ14، النحل:123)

حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السّلام کے فضائل کے واقعات ایسے ہیں کہ وہ ہر خاص و عام کی زبان پر عام ہیں جیسا کہ آپ کی جگہ جنت سے مینڈھا آنا۔ آپ کے پاؤں کی ایڑی مبارک کی جگہ سے آبِ زم زم جاری ہونا وغیرہ۔ یہاں ہم آپ علیہ السّلام کی چند ایسی صفات ذکر کریں گے کہ جو قراٰنِ عظیم میں مذکور ہیں:

(1) صادق الوعد: آپ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ وعدے کے سچے تھے۔آپ کی یہی صفت اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا ۔ (پ16، مریم:54)

(2) رسول و نبی: ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں لیکن اللہ کریم نے آپ کو دونوں صفات سے متصف فرمایا ہے آپ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ۔ اللہ کریم قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمہ کنزالایمان: اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا ۔(پ16، مریم:54)

(3) نماز و زکوٰۃ کی تلقین: آپ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ نماز و زکوٰۃ کی تلقین فرماتے تھے۔ الله کریم قراٰنِ مجید میں آپ کی اس صفت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا ۔(پ 16، مریم : 55)

(4) رب کا پسندیدہ بندہ: آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اَعمال ،صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ الله کریم قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)

(5) صابر :آپ کی ایک صفت صبر بھی ہے۔ الله کریم قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

محترم قارئین! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم انبیاء علیہم السّلام اور بزرگانِ دین کی صفات و خصوصیات کا مطالعہ کریں اور ان کی زندگی کے معمولات کا مطالعہ کر کے ان کو اپنی زندگی میں بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیا اور اولیا کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے اپنے انبیا و رُسل مبعوث فرمائے انہی میں سے ایک نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدِ اعلیٰ ہیں۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔حضرت اسماعیل علیہ السّلام انتہائی اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جن میں سے 5 یہ ہیں:

(1)وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے: قراٰنِ مجید میں ہے :﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجَمۂ کنز الایمان : اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بےشک وہ وعدے کا سچا تھااور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔(پ16، مریم: 54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہمُ السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے مثلاً والدِ ماجد سے وعدہ کیا کہ آپ مجھے حکمِ خداوندی پر ذبح کر دیں، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر آپ علیہ السّلام نے اس وعدے کو پورا کیا۔ ( سیرت الانبیاء ،ص 347)

اس آیت میں اسماعیل علیہ السّلام کا ذکر علیحدہ سے کئے جانے کی کچھ وجوہات ہیں: (1)آپ فضیلت و شان میں حضرت اسحاق و یعقوب علیہما السّلام سے زیادہ ہیں(2) آپ کی شریعت اور آپ کی امت مستقل ہے(3)آپ معمارِ کعبہ ہیں (4) حضرت ابراہیم جَدُّ العرب ہیں اور آپ ابو العرب ہیں۔ (تفسیر نعیمی، 16/ 285،284)

(2) بہترین فرد :آپ علیہ السّلام مخلوق میں بہترین فرد تھے ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸) ترجَمۂ کنز العِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48) یعنی اے حبیب! آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہمُ السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔ (خازن، 4/44، صٓ،تحت الآیۃ: 48) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں۔(صراط الجنان،8/409)

(3) بارگاہِ الٰہی میں پسندیدہ:ارشاد فرمایا:﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجَمۂ کنز الایمان : اور اپنے رب کو پسند تھا۔ (پ16، مریم: 55) آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اَعمال، صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔(صراط الجنان،6/122)

(4) صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) ترجَمۂ کنز الایمان : اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85) حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔(صراط الجنان، 6/364)

(5)خاص رحمتِ الٰہی میں داخل: اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَترجَمۂ کنزالعرفان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق لوگوں میں سے ہیں ۔ (پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت پڑھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ پاک نے نبئ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰنِ کریم نازل فرمایا اور اس میں احکام و واقعات بیان فرمائے اور اس میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصافِ جمیلہ کا ذکر فرمایا۔ اسی طرح اللہ پاک نے قراٰنِ کریم کئی انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ان کی صفات بیان فرمائی۔ آئیے ہم اللہ پاک کے نبی حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ السّلام کی چند صفات قراٰنِ کریم سے پڑھتے ہیں۔

(1) ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54) اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی دو صفت بیان کی گئی۔ (1) آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3 دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔

(2) آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں ۔

(3) ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)اس آیت مبارکہ میں حضرت اسمعٰیل علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ مخلوق میں بہترین افراد میں ہیں۔ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ : اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ حضرت اسماعیل، حضرت یسع اور حضرت ذو الکفل علیہم السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔ اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں۔

(4) ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55) یہاں اہل سے گھر والوں کے ساتھ ساتھ امت بھی ہے کیوں کہ نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السّلام کے 3 اوصاف بیان کئے گئے۔ (1،2) وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا : یہاں ان دو عبادتوں کو خاص کیا گیا کیوں کہ ان میں سے ایک مالی اور دوسری بدنی ہے۔ ( مدارک، پ 16، مریم:55) (3) آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال ،صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔

(5) ﴿ وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86) اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے اسمعٰیل علیہ السّلام کا ایک خاص وصف بیان فرمایا ہے اور وہ اللہ پاک کی رحمت کا ان پر ہونا۔ اس رحمت سے مراد یا تو نبوت ہے یا آخرت میں نعمت۔ ( مدارک، پارہ 17، الانبیآء:86)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے حضرت اسمعٰیل علیہ السّلام اللہ پاک کے کیسے برگزیدہ بندے ہیں۔ اللہ پاک نے انکے کتنے اوصاف قراٰنِ کریم میں بیان فرمائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان کو پڑھ کر ان پر عمل کرے اور اللہ پاک کے نیک بندو کے صدقے کچھ نیکیاں کما لیں۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السّلام کے اوصاف کا صدقہ عطا فرمائے اور ہمیں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے نام رکھنے کی وجہ سے متعلق منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام اولاد کے لئے دعا مانگتے تو اس کے بعد کہتے تھے "اِسْمَعْ اِیْلْ" یعنی اے اللہ میری دعا سن لے یعنی قبول فرما لے۔ جب اللہ پاک نے فرزند عطا فرمایا تو اس دعا کی یاد گار میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے ان کا نام اسماعیل رکھا، آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا لقب "ذبیح اللّٰہ" ہے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے پہلے فرزند ہیں۔(سیرت الانبیآء‏، ص345)

حضرتِ اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام انتہائی اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جن میں سے 5 اوصاف یہ ہیں۔(1)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء واجداد میں سے ہیں۔ سورۃُ البقرہ کی اٰیت نمبر 133 میں ارشاد باری ہے: ﴿قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖترجَمۂ کنزُالایمان: بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے والدوں ابراہیم و اسمٰعیل و اسحاق کا ایک خدا ۔ (پ1،البقرۃ:133)حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے آباء یعنی باپوں میں داخل کیا حالانکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے حقیقی والد نہ تھے۔ یہ اس لئے ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا نام حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے پہلے ذکر فرمانا دو وجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے چودہ سال بڑے ہیں دوسرا اس لئے کہ آپ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء میں سے ہیں۔(صراط الجنان)

(2) آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام وعدے کے سچے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا۔ (پ16، مریم:54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے،‌ مثلاً جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو ذبح کے وقت آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اس کی مثال نہیں ملتی۔(خازن،‌ مریم، 3/238،تحت الاٰيۃ:54)

(3) آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام غیب کی خبریں دینے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: غیب کی خبریں بتاتا۔(پ16، مریم:54)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے لئے ہے اور حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام نبی نہیں ہیں۔( صراط الجنان)

(4) آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔ (پ23، صٓ:48) یعنی اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل،‌ حضرت یسع اور ذُوالکِفل علیہم الصلوٰۃ والسّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔(خازن، ص، 4/44، تحت الاٰيۃ:48، ملخصاً)

(5) آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام بارگاہِ الٰہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے: ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام اپنی اطاعت و اعمال، صبر و استقلال اور احوال و خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے(صراط الجنان)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے مزید تفصیلی احوال جاننے کے لئے درج ذیل 6 سورتوں کی تفسیر کا مطالعہ فرمائیں: (1) سورۂ بقرہ، اٰیت:125،127۔ (2) سورۂ انعام، اٰیت:86۔ (3) سورۂ مریم، اٰیت:55،54۔ (4) سورۂ انبیاء، اٰیت:86،85۔ (5) سورۂ الصّٰٓفّٰت، اٰیت:107،101۔ (6) سورۂ صٓ، اٰیت:48۔

اللہ پاک ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام سے سچی عقیدت و محبت اور ادب و احترام کرنے کی توفیق فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت اسماعیل علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جد اعلیٰ ہیں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی ولادت سے پہلے ہی اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آپ علیہ السّلام کی بشارت دے دی۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:  ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)

آپ علیہ السّلام کی والدہ کا نام حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا ہے آپ علیہ السّلام کا نام اسماعیل اس لئے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب اللہ پاک سے اولاد کے لیے دعا مانگتے: ﴿ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:100) تو اس کے بعد کہتے تھے اسمع ایل ( یعنی اے اللہ میری دعا سن لیں) تو جب اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو فرزند عطا فرمایا تو اس کی یادگار میں آپ علیہ السّلام نے ان کا نام اسماعیل رکھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا لقب ذبیح اللہ اس لیے ہے کہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا اور آپ نے حکم الہی سن کر بغیر کسی شکوہ و شکایت کے خود کو قربانی کیلئے پیش کر دیا ۔ آپ علیہ السّلام کی مبارک ایڑی لگنے کی جگہ سےاللہ پاک نے زم زم کا چشمہ جاری فرما دیا اور یہ آج تک جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ اور آپ علیہ السّلام ہی نے سب سے پہلے فصیح و بلیغ عربی زبان میں کلام فرمایا۔ آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے قبیلہ جرہم اور سر زمین حجاز میں رہنے والی قوم عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا جنہیں آپ علیہ السّلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی تو کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور کچھ کافر ہی رہے۔ قراٰن و حدیث اور دیگر کتب میں آپ علیہ السّلام کے مختلف احوال مکتوب ہیں قراٰنِ پاک سے آپ علیہ السّلام کے چند اوصاف آپ کے سامنے نذر کرتا ہوں‌۔‌

(2،1) آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)نوٹ : یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السّلام وعدے کے سچے تھے مگر یہاں پر خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔

(3) آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔ (پ23، صٓ:48)

(4) آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے بارگاہ الہی میں بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(5) آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلی ترین گروہ میں داخل تھے۔ اللہ پاک ارشاد عطا فرماتا ہے:﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء‏: 86،85)

اس میں ہمارے لیے درس و نصیحت کی چند انمول باتیں ہیں۔ جیسے کہ حکم الہی پر بخوشی خود کو پیش کر دینا اور مصیبتوں پر صبر کرنا اور کسی سے وعدہ کریں تو اس وعدے کو پورا کرنا۔ اللہ پاک ہمیں بھی بزرگان دین اور انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسّلام کا صدقہ عطا فرمائے اور ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہدایت انسان کے لیے انبیائے کرام کو بھیجا۔ یہ انبیائے کرام اچھے انداز کے ساتھ اپنے فریضہ کو انجام دیتے رہے۔ ان انبیائے کرام میں سے ایک نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام جو انتہائی اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے ان کے کچھ اوصاف رقم طراز کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

(1، 2)آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ چنانچہ فرمان باری ہے : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)

آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیٰ نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسّلام اس کے انتظار میں 3 دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔( خازن، مریم، 3/190)

(3) آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے ، ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔ (پ23، صٓ:48)

(5،4) آپ علیہ السّلام اپنے اہل خانہ کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے رہتے تھے اور اپنی طاعت و اعمال، صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے بار گاہ الہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ چنانچہ فرمان باری ہے: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)

(6) آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) آپ علیہ السلام نے حکم الہی پر خود کو قربانی کے لیے پیش کرنے پر بھی صبر فریا یا۔

پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے حضرت اسماعیل علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السّلام کے اوصاف سنے ان میں سے ایک وصف ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے تو ہم بھی اپنے آپ کو انبیا علیہم الصلوٰۃ و السّلام کے غلام کہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خود بھی نماز کا پابند بنے اور گھر والوں، دوستو کو صوم و صلوۃ کی ترغیب دیتے رہیئے۔