محمد امان اویسی (درجہ سادسہ جامعۃُ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد تیلنگانہ ہند)
اللہ پاک نے نبئ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰنِ
کریم نازل فرمایا اور اس میں احکام و واقعات بیان فرمائے اور اس میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصافِ جمیلہ کا ذکر فرمایا۔ اسی طرح اللہ پاک نے قراٰنِ
کریم کئی انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ان کی صفات بیان فرمائی۔ آئیے ہم اللہ پاک
کے نبی حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ السّلام کی چند صفات قراٰنِ کریم سے پڑھتے ہیں۔
(1) ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں
اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔
(پ16، مریم:54) اس آیت میں حضرت
اسماعیل علیہ السّلام کی دو صفت بیان کی گئی۔ (1) آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے
تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے
کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ
گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3 دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح
(جب حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر
کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔
(2) آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ آپ علیہ السّلام کو رسول
اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی
اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود
تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت
اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں ۔
(3) ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل
کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)اس آیت مبارکہ
میں حضرت اسمعٰیل علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ مخلوق میں بہترین
افراد میں ہیں۔ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ : اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ حضرت اسماعیل، حضرت یسع اور حضرت ذو الکفل
علیہم السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔ اور
ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ
ہیں۔
(4) ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ
الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55) یہاں
اہل سے گھر والوں کے ساتھ ساتھ امت بھی ہے کیوں کہ نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدنا اسمعٰیل علیہ السّلام کے 3 اوصاف بیان کئے گئے۔
(1،2) وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا : یہاں ان دو عبادتوں
کو خاص کیا گیا کیوں کہ ان میں سے ایک مالی اور دوسری بدنی ہے۔ ( مدارک، پ 16،
مریم:55) (3) آپ علیہ السّلام اپنی طاعت
و اعمال ،صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔
(5) ﴿ وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ
خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86) اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے اسمعٰیل علیہ السّلام کا ایک
خاص وصف بیان فرمایا ہے اور وہ اللہ پاک کی رحمت کا ان پر ہونا۔ اس رحمت سے مراد
یا تو نبوت ہے یا آخرت میں نعمت۔ ( مدارک، پارہ 17، الانبیآء:86)