سمیع اللہ (درجہ
رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ امام احمد رضا خان حیدرآباد ہند)
حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے نام رکھنے کی وجہ سے
متعلق منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام اولاد کے لئے دعا مانگتے
تو اس کے بعد کہتے تھے "اِسْمَعْ اِیْلْ" یعنی اے اللہ میری دعا سن لے یعنی قبول فرما لے۔ جب اللہ
پاک نے فرزند عطا فرمایا تو اس دعا کی یاد گار میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے ان
کا نام اسماعیل رکھا، آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا لقب "ذبیح
اللّٰہ" ہے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضرت ابراہیم علیہ
الصلوٰۃ والسّلام کے پہلے فرزند ہیں۔(سیرت الانبیآء، ص345)
حضرتِ اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام انتہائی اعلیٰ و عمدہ
اوصاف کے مالک تھے جن میں سے 5 اوصاف یہ ہیں۔(1)آپ
علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء
واجداد میں سے ہیں۔ سورۃُ البقرہ کی اٰیت نمبر 133 میں ارشاد باری ہے: ﴿قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ
اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖ ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:
بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے والدوں ابراہیم و اسمٰعیل و اسحاق
کا ایک خدا ۔ (پ1،البقرۃ:133)حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو حضرت یعقوب
علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے آباء یعنی باپوں میں داخل کیا حالانکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام
حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے حقیقی والد نہ تھے۔ یہ اس لئے ہے کہ آپ علیہ
الصلوٰۃ والسّلام ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف
میں ہے۔ اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا نام حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے
پہلے ذکر فرمانا دو وجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام
سے چودہ سال بڑے ہیں دوسرا اس لئے کہ آپ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے آباء میں سے ہیں۔(صراط الجنان)
(2) آپ علیہ الصلوٰۃ
والسّلام وعدے کے سچے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں
اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا۔ (پ16، مریم:54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام وعدے
کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ
یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے، مثلاً جب
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو ذبح
کے وقت آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس
شان سے پورا فرمایا اس کی مثال نہیں ملتی۔(خازن، مریم، 3/238،تحت الاٰيۃ:54)
(3) آپ علیہ
الصلوٰۃ والسّلام غیب کی خبریں دینے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: غیب کی خبریں بتاتا۔(پ16، مریم:54)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا
ہے، اس بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت
صرف حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے لئے ہے اور حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسّلام
نبی نہیں ہیں۔( صراط الجنان)
(4) آپ علیہ الصلوٰۃ
والسّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل
کو اور سب اچھے ہیں ۔ (پ23،
صٓ:48) یعنی اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت
اسماعیل، حضرت یسع اور ذُوالکِفل علیہم الصلوٰۃ والسّلام کے فضائل اور ان کے صبر
کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔(خازن، ص، 4/44، تحت الاٰيۃ:48،
ملخصاً)
(5) آپ علیہ
الصلوٰۃ والسّلام بارگاہِ الٰہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے: ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم :
55)آپ علیہ الصلوٰۃ والسّلام اپنی اطاعت و اعمال، صبر و استقلال اور احوال و خِصال
کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے(صراط الجنان)آپ علیہ
الصلوٰۃ والسّلام کے مزید تفصیلی احوال جاننے کے لئے درج ذیل 6 سورتوں کی تفسیر کا
مطالعہ فرمائیں: (1) سورۂ بقرہ، اٰیت:125،127۔ (2) سورۂ انعام، اٰیت:86۔ (3) سورۂ
مریم، اٰیت:55،54۔ (4) سورۂ انبیاء، اٰیت:86،85۔ (5) سورۂ الصّٰٓفّٰت،
اٰیت:107،101۔ (6) سورۂ صٓ، اٰیت:48۔
اللہ پاک ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام سے
سچی عقیدت و محبت اور ادب و احترام کرنے کی توفیق فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم