انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اس دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے بعض لوگوں کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے جبکہ وہ بعض سے احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوچ وفکر، مزاج ، مشاغل، اور مقاصد کی ہم آہنگی کی وجہ سے انسان ایک لڑی میں پرو دیا ہے اسی طرح طبیعتوں ، نظریات اور اہداف کے اختلاف کی وجہ سے انسان لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ معاشرے میں جہاں انسان کے اعزہ واقارب اہل خانہ بیوی بچے اور بہن بھائی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی ہیں استخدام کا ذریعہ ہیں، وہیں اس کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں، خود غرض اور مفاد پرست دوست یقیناً انسان کے لیے ہر اعتبار سے خسارے کا سبب ہے۔یہاں دوستوں کے چند حقوق ذکر کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

(1) دوست کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا: انسان کو ہمیشہ اپنے دوست کو نیکی کا حکم دیتے رہنا چاہئے بہت سے لوگ اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ دوست کو بگڑتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس کو نصحیت نہیں کرتے

(2) نیکی کے کاموں میں معاونت اور برائی کے کاموں میں عدم معاونت : دوستی کا تقاضہ جہاں پر اچھی بات کرنا ہے اس پر بھلائی کے کاموں میں معاونت کرنا بھی دوست کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔

(3) دوست کی خوشی اور غمی میں شریک: دوستی کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوست کی خوشیوں میں شریک ہو اور اس کی خوشی کے موقع پر اس کی حوصلہ افزائی کرے اور جب اس پر کوئی غم بیماری یا آزمائش آئے تو ایسی صورت میں اس کے ساتھ بھر پور تعاون کرے اور اس کو دلاسہ دے۔

(4) دوست کا دفاع اور ذکر خیر : اپنے دوست کا جائز بات پر دفاع کرنا اور اس پر لگنے والے غلط الزام کو دھونے کی کوشش کرنا بھی ایک اچھے دوست کی نشانی ہے۔

(6) دوست کے جنازے میں شرکت ۔یا ساتھی کا انتقال ہو جانے کی صورت میں دوسرے دوست کو اس کے جنازے میں شرکت کرنی چاہئے اور اس کے لیے خلوص دل کے ساتھ دعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اس کے اہل خانہ کو دلاسہ دینا چاہئے۔

( 6) دوست کے لیے دعائے خیر اور اس کے لواحقین کا خیال: انسان کو دوست کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہئے اور اس کے لواحقین کے ساتھ بھی خیر والا معاملہ جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو لوگ اپنے دوستوں کے لیے دعائے خیر کرتے اور ان کے لواحقین کا خیال کرتے ہیں یقیناً وہ لوگ اپنے لیے بھی بھلائیوں کو جمع کر لیتے ہیں۔ الله تعالٰی ان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ایسا انتظام فرماتا ہے کہ لوگ اس کے مرجانے کے بعد اس کو اچھا اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور اس کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ۔

دعا ہے الله تعالٰی ہمیں اپنے دوستوں کے حقوق ادا کرتے کی توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد، اور جو دوستوں کے حقوق ہیں اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ اور حقوق العباد وہ حقوق ہیں کہ جب تک بندہ ان حقوق کو معاف نہ کر دے تب تک وہ حقوق معاف نہیں ہوتے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم حقوق العباد ادا کریں اور ایک دوسرے کے شریعت نے جو حقوق ہمیں عطا فرمائے ہیں اس پر عمل پیرا ہوں۔

نیک دوست ملنے کی فضیلت : من اراد الله به خیر ارزَقَهُ خَلِيلاً صَالِحاً إِنْ شَيَ ذَكَرَهُ وَإِنْ ذكر أغانه ، الله پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے نیک دوست عطا فرماتا ہے کہ اگر یہ بھولے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد کر یہ تو(نسائی، ص4210حدیث : 685)

دوست کے دین پر ہونا :فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث : 4833)

دوست کی دل سے خیر خواہی :دوستوں کے حقوق میں سے دوست کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی دل سے خیر خواہی کی جائے۔ ان کے راز کی حفاظت کی جائے اور صحیح مشورہ دیا جائے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے۔مؤمن و کافر دوست : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے دو دوست مؤمن ہیں اور دو دوست کافر ہیں مؤمن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے تو بارگاہ الہی میں عرض کرتا ہے یا رب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کرنے کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا مجھے برائیوں سے روکتا تھا اور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے اے رب میرے اسے گمراہ نہ کرنا اسے ایسی ہدایت عطا فرما جیسی مجھے عطا فرمائی اور اس کا ایسااکرام کر جیسا میرا اکرام فرمایا اور جب اس کا مؤمن دوست مر جاتا ہے اللہ تعالٰی دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے اور دو کا فر دوستوں میں سے ایک مرتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ فلاں مجھے تیری فرمانبرداری سے منع کرتا تھا، بدی کا حکم دیتا تھا تو الله پاک فرماتا تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ہر ایک کہتا ہے یہ بڑا بھائی بُرا دوست ہے۔ ( خازن، الزخرف تحت الآیۃ : 46)

صحبت صالح تُر ا صالح کند صحبت صالح تُر ا طالح کند

مصیبت کے وقت دوست کے کام آنا :دوست کی ایک صفت یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ مصیبت میں کام آئے ایک بزرگ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ان کا دوست آیا گھر پر دستک دی اور کہا کہ مجھے اتنی رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ وہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اندر گئے، بیگم صاحبہ رقم وصول کی اور یہ پیسے اُسے دے دیئے اور پھر رونے بیٹھ گئے ۔ بیگم صاحبہ نے کہا اگر ایسا ہی تھا تو آپ نے رقم اسے کیوں دی؟ ان بزرگ رحمۃ اللہ نے فرمایا: میں اس لیے نہیں رو رہا کہ مجھے پیسے دینا پڑے بلکہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ اسے میرے دروازے پر آنا ہی کیوں پڑا؟ میں نے اس بات کی پہلے سے خبر کیوں نہیں رکھی کہ وہ ضرورت مند ہے اگر خبر ہوتی تو اس سے پہلے کہ وہ میرے گھر پر آتا میں چپکے سے اس کی مدد کر دیتا ۔( احیاء العلوم ، 3/258)

راہ جنت کی طرف لے جانے والا دوست :دوست وہ ہو کہ جس کی دوستی جنت کی طرف لے جائے وہ اچھی ہے اور جو دوستی جہنم کی طرف لے جائے وہ بری دوستی ہے اسے چھوڑنا ضروری ہے۔

الله عزوجل ہمیں نیک صالح اور مخلص ساتھی عطا فرمائے اور ہمیں دوست کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسان خاندانی تعلقات اور رشتہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط و مستحکم رکھتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزارا ہوا وقت، یکساں مفادات اور سوچ و فکر کا اشتراک ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران بعض اوقات حد شرعی کو عبور کر جاتے ہیں جیسے شراب نوشی، قتل و غارت وغیرہ اور اس کے مد مقابل بہت سے لوگ دینی، روحانی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دین اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے ؟چنانچہ اللہ پاک سورہ ٔ توبہ آیت نمبر 71 میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (پ10، التوبۃ: 71)

اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مسلمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق (دوست) ہیں اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے اسی طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرما برداری کرتے ہیں۔

اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف تقویٰ کی بنیاد پر مضبوط ہونے والی دوستی ہی کام آئے گی اور شر کی بنیاد پر استوار ( مضبوط) ہونے والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور عداوت اور عذاب نار پر منتج ہوگی

دوستی کے متعلق چند اہم بائیں: (1) اپنے دوست کیلئے وہ پسند کرنا چاہیے جو انسان اپنے لیے پسند کرے اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے (3) برائی اور گناہوں کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے (4) دکھ اور مشکل میں دوست کے کام آنا چاہیے(5) اپنے دوست بلکہ ہر ایک مسلمان کے عیب چھپانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

صحابہ کرام کا طرز عمل : صحابہ کرام میں یہ بات بہت نمایاں تھی کہ وہ اپنے دوست احباب کی نسبت سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا کرتے تھے اور ان کی خبر گیری میں کبھی بھی کو تاہی نہ کرتے تھے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ اور اپنے دوستوں کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دوستی کے فرائض و حقوق کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام میں دوستی کی بہت اہمیت ہے۔ہر انسان کو دوسرے سے تعلق واسطہ پڑتا رہتا ہے مثلا رشتہ دار،پڑوسی،استاد شاگرد وغیرہ۔اس طرح ایک رشتہ ہے دوستی کا جس طرح اسلام زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اس طرح دوستی کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (سنن ترمذی،ابواب الذہد،باب،حدیث:2378)اسلام کی روشنی میں دوستی کے حقوق بیان کرتا ہوں۔

(1)اپنے لیے جو پسند کرے دوست کے لیے بھی پسند کرے: انسان ہمیشہ اخلاقی و نفسیاتی اعتبار سے دوست کے لیے ان چیزوں کو پسند کرے جو خود پسند کرتا ہو۔اگر وہ چاہتا ہے کی اس کی عزت کی جائے تو اسے اپنے دوست کی بھی عزت کرنی چاہیے اور جو چیزیں خود کے لیے ناپسند کرے وہ اپنے دوست کے لیے بھی ناپسند کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کوئی شخص کامل مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے کرتا ہے۔(سنن ترمذی،ابواب الصفۃ القیامۃ و الرقائق،باب،حدیث :2515)

(2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون: اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (پ6، المآئدۃ:2)چنانچہ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے ایک دوسرے کی نیکی کے کاموں میں مدد کرنی چاہیے۔ان کاموں میں بھی جن کا تعلق دنیاوی امور سے ہو مگر وہ جائز ہوں تو اس کام میں بھی اپنے دوست کی مدد کرنی چاہیے۔

(3) برائی اور گناہ کے کاموں سے اجتناب: سورہ مائدہ کی اس آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:"اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پ6،المآئدۃ:2)اس آیت کریمہ میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو دوستی کے باوجود بھی ان کاموں میں اپنے دوست کا معاون نہیں بننا چاہیے جن کا تعلق اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کے ساتھ ہو،ناجائز اور حرام کاموں میں اپنے دوست کا تعاون نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اس کام سے روکنا اور منع کرنا چاہیے۔

(4)دکھ اور مشکل میں کام آنا: انسان کو دکھ اور تکلیف میں اپنے دوست کے کام آنا چاہیے۔اگر اس کے گھر میں یا اس کے کسی رشتہ دار کی وفات ہوجائے تو اپنے دوست سے تعزیت کرنا،ایسے موقع پر اس کا معاون بننا اس کی مدد کرنا اور اسے حوصلہ دینا چاہیے۔اور اگر اس پر کوئی مشکل آجائے تو اس کی مدد کرنا،مثلا اگر وہ مقروض ہو اور پریشان ہو تو اس کی مدد کرنا اپنی استطاعت کے مطابق۔

(5)موت کے بعد دوست کی مدد: اگر دوست فوت ہوجائے تو اس کے خاندان اور اگر اس کی اولاد ہو تو ان سے تعزیت کریں، اپنے دوست کو کثرت سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔دوست کی اولاد اگر مالی لحاظ سے کمزور ہے تو اگر استطاعت ہو تو ان کی مدد کی جائے۔دوست کے لیے کثرت سے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے سے حقوق کا احساس نہیں کرتے اور اپنے دوست کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دوستی کے حقوق کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔نیک لوگوں سے دوستی کرنے اور بدمذہبوں اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دوستی بہت ہی قیمتی اور اہم رشتہ ہے ۔انسان کے پاس دنیا کی ساری آسائشیں اور سہولتیں ہوں مگر ایک مخلص دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی میں خوش نہیں رہ سکتا اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور صرف ایک سچا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے یوں بسر کرسکتا ہے کہ اپنی خوشی اور غم اپنے دوست کے ساتھ بانٹ لیتا ہے،جو بات ماں باپ ، بہن بھائی سے شئیر نہیں کرسکتا دوست سے بلا جھجک کہہ سکتا ہے ۔ دوست کوئی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سچی دوستی نہ تو شکل وصورت دیکھتی ہے نہ عمر،نہ مال و دولت دیکھتی ہے نہ غربت بلکہ سچی دوستی ایک ایسا بندھن ہے جو کسی بھی مقصد و لالچ کے بغیر ہوتی ہے۔

جہاں اسلام میں والدین،استاد،شاگر،زوجین وغیرہ کے حقوق بیان کیے ہیں وہاں دوستوں کے حقوق بھی بیان کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

(1) اصلاح کرے: اپنے دوست کو گناہ کرتایا بری عادت والا پائے تو اس کی اصلاح کرے۔﴿وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے

(2) آخرت کی فکر کرے: ایک دوست کو چاہیے کہ و ہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوست کی آخرت کی فکر کرے اگر وہ فرائض و واجبات میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کو اسکی ادائیگی کا ذہن دے بلکہ ان کاموں میں اپنے ساتھ رکھے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے بَدَل دے اور اگر وہ اِس کی قوّت نہیں رکھتا تو اپنی زَبان سے (روک دے) پھر اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ سب سے کمزور ایمان کادَرَجہ ہے۔(مسلم،ص 48، حدیث: 177)

(3)مصیبت میں مدد کرے:ایک دوست،جب دوسرے دوست کو مصیبت میں پائے تو اس کی مدد کرے کہ فرمانِ مصطفےٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جوکسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دورفرمائے گا ۔(مسلم، ص1069، حدیث:6578)

(4)بیمار ہونے پر عیادت:اگر دوست بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث:1971، 2، ص290 )

(5)دوست کی غم خواری: اگر دوست کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے یا گھر والوں کی طرف سے اس کی دل آزاری کی گئی ہو یا اس کا مالی نقصان ہو گیا ہو تو اس کی غم خواری کرے جیسا کہ حضرت جابر ہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی غم زدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ عز وجل اسے تقوی کالباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ عزوجل اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ (معجم الاوسط، ج 4، ص429، حدیث: 9392 )

(6)بیمار ہونے پر عیادت:اگر دوست بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1971،ج2، ص290)س

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں حقوق العباد کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دوستی انسانوں کے درمیان ایک رشتے اور تعلق کا نام ہے یہ رشتہ محض عام تعلق نہیں بلکہ ایک ایسا تعلق ہے جو دو یا دو سے زیادہ انسانوں کو محبت، سچائی ،تعاون ،اخلاص، باہمی تفاہم اور اعتماد کے رشتے میں ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے۔ جب کسی سے دوستی اور بھائی چارے کا تعلق قائم ہو جائے تو کچھ حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔چند زینت قرطاس کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

(1) دوست تنگدست ہو یا اسے مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)

(2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کہ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے تمام کاموں میں تعاون کرنا چاہیے اُن کاموں کا تعلق اگر دینی امور سے ہو تو اس صورت میں بھی اسے اپنے دوست کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔اور اگر ان معاملات کا تعلق دنیاوی امور سے ہو اور وہ کام شریعت کی رو سے جائز بھی ہوں تو ایسی صورت میں بھی اپنے دوست کے کام آنا چاہیے۔ کہ اللہ پاک قرآن عظیم میں فرماتا ہے : ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى۪ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(پ6، المآئدۃ:2)

(3) معافی اختیار کرنا کہ اگر دوست سے کوئی بھول چوک صادر ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے کہ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اگر تیرا کوئی بھائی قصور کر بیٹھے تو اس کی طرف سے 70 قسم کی عذر خواہی قبول کر۔

(4) علم دین سکھانا کہ اگر دوست کو علم دین کی ضرورت ہو تو اسے علم دین سکھایا جائے تاکہ وہ اس کے ذریعے گناہوں سے محفوظ رہے اور جہنم میں جانے سے بچ سکے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا بے حد ضروری ہے اور جو کچھ سکھائے اس پر عمل کرنے کی نصیحت بھی کرتا رہے ۔

(5) دوست کو تکلفات میں نہ ڈالا جائے کہ یہ دوستی ختم ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے ایک دانا کا قول ہے اگر تکلفات ساقط ہو جائیں تو الفت اور دوستی میں دوام پیدا ہوگا۔

(6) دوست کو اسکی غلطیوں پر آگاہ کرنا کہ بہترین دوست وہی ہے جو اپنے دوست کو اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائے، دوست کی غلطی کو غلط اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور اسکے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے پرخلوص ہو کر نصیحت کی جائے۔

(7) دوست کے اہل خانہ کی عزت کرنا کہ ان پر بری نظر نہ رکھی جائے اور اگر کوئی دوسرا شخص ان پر بری نظر رکھے ہوئے ہو تو اسے بھی مناسب انداز میں سمجھانے کی کوشش کرے کہ یہ دوست کا اہم ترین حق ہے۔

اللہ کریم ہم سب کو بہترین دوست عطا فرمائے اور ہمیں اپنے دوستوں کے لیے بہترین دوست بننے کی ہمت دے اور ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دوستی بہت ہی اہم اور قیمتی رشتہ ہے، سارے رشتے قابل احترام ہیں لیکن دوستی کے رشتے میں الگ ہی مروت و لحاظ پایا جاتا ہے، انسان کے پاس دنیا کی ساری سہولتیں ہوں مگر ایک سچے وفادار دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی خوشی سے گزار نہیں سکتا اور اگر کسی کے پاس دنیا کی سہولتیں نہ ہوں مگر ایک اچھا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو خوشی سے گزار سکتاہےکیونکہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں کامیاب رہے ہیں اور بعض اوقات انسان خوشی غمی پریشانی مشکل وقت اور اس کے علاوہ جو باتیں ماں باپ بھائی بہن سے بیان نہیں کرسکتا وہ اپنے دوست سے بلا جھجک شیئر کردیتا ہے، دوست کوئی بھی ہوسکتا ے سچی دوستی میں شکل و صورت مال و دولت عمر و غربت نہیں دیکھی جاتی اور دوستی بغیر لالچ و مقصد کے ہوتی ہے اور اچھے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں بھلائی کا سبب ہے جبکہ برے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتی ہے، دوستی اور صحبت ہمیشہ نیک، صالح اور قراٰن و حدیث پر عمل کرنے والوں سے کی جائے ، کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔

اچھے اور بُرے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھیے چنانچہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: اچھے برے ساتھی کی مثال مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مُشک اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا۔(مسلم، ص1084،حدیث 6692)لہٰذا ہمیں اچھے دوست کی صحبت اختیار کرنی چاہئے اور دوستوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے جن میں سے کچھ درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:

(1) انسان جو اپنے لیے پسند کرے وہ اپنے مسلمان بھائی (دوست) کے لئے پسند کرے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔

(2) نیک کاموں میں مدد کرے گناہ کے کاموں مدد نہ کرے : اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا ہے: نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔(پ 6 ، المآئدۃ:2)لہٰذا ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور گناہ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں۔

(3) مشکل وقت میں ساتھ دینا: دوستوں کو دکھ،تکلیف، پریشانی، مشکل حالات ، ایثار میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا جس طرح انصار نے مہاجرین کی ہرحال میں مدد کی اور ان کا ساتھ دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: بدترین دوست وہ ہے جس سے تجھے معذرت اور تکلف کرنے کی ضرورت پڑے (کیمیائے سعادت، ص 301)

(4)وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے: وفاداری کا ایک معنی یہ ے کہ اپنے دوست کے ساتھ اچھے انداز سے کلام کرنا نیک کاموں میں مدد کرنا اور اگر غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردینا اس کی زندگی اور وفات کے بعد دعا میں یاد رکھنا اور اس کی اولاد اور گھر والوں سے بھی حسن سلوک کرنا اس میں غفلت نہ کرنا ہے ۔

ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ نے اس کی بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب ہوئےآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی کرم نوازی کا سلوک ایمان میں سے ہے۔(کیمیائے سعادت، ص 301)

(5) دوستوں کو خود سے بہتر جانے: حضرت ابو معاویہ الاسود نے فرمایا: میں اپنے تمام دوستوں کو اپنے سے بہتر جانتا ہوں کیونکہ وہ ہر معاملے میں مجھے مقدم رکھتے ہیں اور میری فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں ( کیمیائےسعادت، 302)

دوستی کس سے کریں: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں: ایسے شخص سے دوستی کی جائے جس میں یہ 3 باتیں موجود ہو ں۔۱۔ عقلمند ہو کیونکہ احمق کی دوستی اور صحبت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ انجام کار ندامت اور نقصان لاحق ہوتا ہے۔ ۲۔2 اچھے اخلاق والا ہو کیونکہ بداخلاق سے سلامتی کی امید نہیں ہے اور جب اس کی بداخلاقی جوش پر آئے گی تو تیرا حق اور مرتبہ ضائع کردے گا اور اسے کچھ پرواہ نہ ہوگی ۔ ۳۔ نیک ہو کیونکہ جو گناہ پر اڑا ہوا ہوگا اس کو اللہ پاک کا خوف نہ ہوگا جو خوف خدا سے خالی ہو اس پر بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔(کیمیائے سعادت،ص290 پروگریسوبکس)

اللہ پاک ہم سب کو دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب کرے اور ہمارے تمام دوستوں کو شادوآباد رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اﷲ قراٰنِ مجید کی سورۂ انفال ایت نمبر 63 میں فرماتا ہے :اور اس نے مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ (پ10، الانفال:63)یعنی اگر انسان کسی سے انسیت پاتا ہے تو اس میں اسکا کمال نہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی۔ انسان عموماً جن لوگوں سے مانوس ہوتا ہے اس میں سرفہرست اس کے والدین ، اساتذہ، اپنی زوجہ و اولاد اور دوست ہیں۔

دوستی کے متعلق حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ عزوجل اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔(مسند الشامیین للطبرانی،حدیث: 157)امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دوست کے دوسرے دوست پر کئی حقوق ہوتے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

پہلا حق مالی معاونت:مسلمان بھائی کی اپنے مال کے ذریعے مدد کی جائے اور اس کا سب سے کم در جہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو غلام یا خادم کا مرتبہ دیں اور اس کی ضروریات اپنے بچے ہوئے مال سے پوری کریں۔ مثلاً اگر اسے کوئی ضرورت پیش آئے اورضرورت سے زائد مال ہو تو اس مال سے اس کی ضرورت پوری کریں۔ جب کہ اس کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو خود پر ترجیح دی جائے اور اس کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم جانیں۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو بکری کا سر ہدیہ دیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ”میر افلاں بھائی اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے “ وہ سری ان کی طرف بھیج دی، انہوں نے بھی یہی خیال کر کے آگے بھیج دی، اس طرح وہ سری ایک سے دوسرے کو بھیجی جاتی رہی حتی کہ سات ہاتھوں سے گزر کر واپس پہلے صحابی کی طرف لوٹ آئی۔

دوسرا حق بدنی معاونت:مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلمان دوست کا حق یہ بھی ہے کہ خود اپنے ہاتھ پاؤں کے ذریعے اس کے سوال سے پہلے اس کی حاجت پوری کی جائے۔ مروی ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله تعالى عنهما سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے اور دائیں بائیں دیکھ رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کی:میں ایک شخص کو محبوب رکھتا ہوں ، اسے دیکھ رہاہوں نظر نہیں آرہا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمہیں کوئی اچھا لگے تو اس کا اور اس کے باپ کا نام پوچھ لو اور اس کے گھر کا پتا معلوم کر لو، اگر وہ ببمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اگر کسی کام میں مصروف ہو تو اس کی مدد کرو۔( شعب الایمان للبہیقی، حدیث:726)حضرت سید نا امام شعبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کے پاس بیٹھ کر یہ کہنا کہ میں اس کا چہرہ پہچا نتاہوں اس کا نام نہیں جانتا“ بیوقوفی کی علامت ہے۔

تيسراحق خاموش رہنا:تیسرا حق دوست کا یہ ہے کہ کے اپنے دوست کے عیوب اور وہ باتیں جو اسے ناپسند ہوں ان سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا مثلا دوست کے عیوب بیان کرنے سے زبان کو روکے بلکہ مصنوعی ناواقفیت کا اظہار کرنا جب وہ گفتگو کر رہا ہو تو در میان میں اپنی بات شروع نہ کی جائے۔ جب اسے راستے میں دیکھے یا کسی کام میں مشغول پائے تو اس کی مشغولیت کے بارے میں سوال نہ کرے حتی کہ وہ خود بیان کر دے کیونکہ بعض اوقات اپنی مصروفیت بیان کرنا دشوار ہوتا ہے اور انسان جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے وغیرہ ۔امام غزالی علیہ الرحمۃ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں اپنے دوست کے لیے عزت، محبت اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ برائیاں اور عیوب دیکھتا ہے۔

چوتھاحق خوبیاں بیان کرنا:انسان کو چاہئے کہ دوست کے سامنے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کرے، حتی المقدور اس کے معاملات سے باخبر رہے ۔ مثلاً اسے کوئی معاملہ درپیش ہو یا کسی سبب سے اس کا دل بے چین ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے اور وقتاً فوقتاً اس کی خیریت معلوم کرتا رہے۔حضرت سیدنا ابو سعید سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرمایا کرتے کہ جب تم کسی سے بھائی چارہ قائم کرنا چاہو تو اسے غصہ دلاؤ پھر اس پر ایک شخص مقرر کرو جو اس سے تمہارے اور تمہارے راز کے بارے میں پوچھے اگر وہ تمہارے بارے میں اچھے کلمات کہے اور تمہارے راز چھپائے تو اسے دوست بنالو۔

اسی طرح اس کے اہل و عیال، ہنر، افعال حتی کہ اس کے اخلاق ، شکل و صورت، تحریر اور اس کی ہر اس چیز کی تعریف کرنی چاہئے جس سے وہ خوش ہوتا ہے لیکن یہ سب جھوٹ اور مبالغہ کے بغیر ہو جو تعریف کی جائے وہ بخوشی اور اس کے سامنے بیان کریں کیونکہ تعریف چھپانا خالص حسد ہے۔ مزید یہ کہ اگر وہ کوئی بھلائی کرے یا بھلائی کا ارادہ ہی کرے تو بھی اس کا شکر یہ ادا کریں اگر چہ کام مکمل نہ ہوا ہو۔ خلیفہ چہارم امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم الله تعالی وجهہ الکریم نے فرمایا: جو اچھا ارادہ کرنے پر اپنے مسلمان بھائی کی تعریف نہیں کرتا وہ اس کے اچھے کام پر بھی اس کی تعریف نہیں کرتا۔

پانچواں حق دعا کرنا:دوستوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد دعا کی جائے اورساتھ ہی اس کے اہل وعیال اور متعلقین کے لئے بھی دعا کا اہتمام کیا جائے۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دعا اس طرح کی جائے کہ جس طرح اپنے لئے کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے دعا کرنا حقیقت میں اپنے لئے دعا کرنا ہے۔ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب آدمی اپنے بھائی کے لئے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی اس کی مثل ہو ایک روایت میں ہے : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اے میرے بندے میں تجھ سے شروع کروں گا (یعنی پہلے تجھے عطا کروں گا)۔ لہذا اپنے دوست کے لیے خوب اور خاص دعا کا اہتمام کیا جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب بھی دوستی کی جائے تو مقدم رضا الہی ہو اور ایک مرتبہ جب کسی کو اپنا بھائی بنالے توپھر حتی الامکان دوستوں کے حقوق ادا کرنے میں لگ جائے۔ مال اور بدن کے ذریعے اس کی مدد کی جاِئے۔ عیوب و غیبت کرنے سے اپنی زبان کو روکے رکھے بلکہ اس کی تعریف کرے اور پھر اس کے لیے سچے دل سے دعا کرے۔ اگر کوئی ان حقوق کو ادا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان شاء ﷲ حدیث پاک میں جو خوشخبری دی گئ ہے جنت میں بلند مقام کی، اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین


انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ اس دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کی طرف تو اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے اور بعض سے وہ احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ معاشرے میں جہاں انسان کے اعزہ و اقارب اور اہل خانہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور استحکام کا ذریعہ ہیں ، وہیں اس کے دوست احباب بھی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں اور برے اور مفاد پرست دوستوں کا میسر آ جانا یقیناً انسان کےلئے ہر اعتبار سے خسارے کا سبب ہے۔ لہذا جو لوگ اچھے اور مخلص دوستوں کو اختیار کرتے ہیں یقیناً وہ دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو اپنے لیے سمیٹ لیتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے جب انسان کسی سے دوستی کرتا ہے تو اس حوالے سے اس پر بعض اہم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند زینتِ قرطاس کئے جا رہے ہیں توجہ سے پڑھئے:

(1)پہلا حق تو یہ ہے کہ دوست کو جب بھی مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے۔ جیسے قرآنِ مجید میں فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)

(2) دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں اس کے کہنے سے پہلے اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی خدمت کرے۔ سلف صالحین میں سے ایک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے بعد چالیس سال تک اس کے بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔

(3) دوستوں کے حقوق میں ایک اہم حق زبان کا بھی ہے کہ وہ یہ کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات کہے ان کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور ایسا خیال کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ پس پشت اس کے ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔

(4) زبان سے شفقت اور دوستی کا اظہار کرے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: إِذَا أَحَبَّ أحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمُهُ ایاہ ترجمہ : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ کر دے، یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔

(5) اگر اسے علم دین کی ضرورت ہو تو سکھائے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچاناد نیا کے رنج و الم سے نجات دینے سے زیادہ اہم وضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو اسے سمجھائے نصیحت کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔

(6) اپنے دوست کو دعائے خیر میں یاد رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی نیز اس کے بال بچوں کے لیے بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا حقیقتاً تو خود اپنے لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر کہتا ہے خدا تجھے بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس دعا کے جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔( صحیح مسلم ، کتاب الدعوات ،حدیث: 2228)

(7) وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے، وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل و عیال اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔ ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے اس کی بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔ کرم نوازی کا ایسا سلوک ایمان میں سے ہے۔

(8) دوست کے حق میں تکلیف و بناوٹ کو قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے رہتا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔

(9) اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و تحکم کے ساتھ پیش نہ آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اپنی رضا کے لیے دوستی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سمجھدار، با اخلاق اور نیک مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنے والا بنائے ۔ ہمارے ایمان، اخلاق اور نیک اعمال میں خرابی کا باعث بننے والے دوستوں سے بچائے۔ کافروں، نافرمانوں، ظالموں اور فاسقوں کے ساتھ دوستی سے محفوظ رکھے۔ دوستی اور بھائی چارے کے تمام حقوق کا خیال رکھنے کی سعادت دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دوستی ایک اہم اور غیر معمولی طبعی تعلق ہے جو دوستوں کے درمیان محبت، احترام اور وفاداری پر مبنی ہوتا ہے۔ دوستی کے حقوق اور واجبات کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنا ایک صحیح دوستی تعلق کے لئے بہت اہم ہے۔ یہاں کچھ اہم دوستی کے حقوق درج کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

احترام کا حق: دوستی کااہم ترین بنیادی حق ہے کہ آپ دوست کی عزت کریں اور ان کی توقعات کو اہمیت دیں ان کے خیالات کو احترام سے سنیں اور مختلف نقطہ نظر کو قبول کریں۔

دوستانہ معاونت کا حق: دوستی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور مدد کرنا اہم ہے، دوست کی مشکلات میں ان کا ساتھ دینا، ان کے ساتھ خوشیاں منانا اور ان کی مدد کرنا ایک دوست کا فرض ہے۔

وفاداری کا حق: دوستی میں ایک دوسرے کے ساتھ وفادار ہونا بہت اہم ہے، آپ کو دوست کے ساتھ حقیقت میں ایک اچھا دوست ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ کسی بھی حالت میں وفادار رہنا ہے۔

خصوصی وقت دینے کا حق: دوستی میں دوست کے لئے وقت نکالنا اور ان کے ساتھ خصوصی وقت گزارنا بہت اہم ہے۔ اپنے دوست کو احساس دلانا کہ آپ انہیں اہم سمجھتے ہیں اور ان کے لئے وقت نکال سکتے ہیں۔

رازداری کا حق: دوستی میں رازداری ایک اہم اصول ہے، اپنے دوست کے ساتھ ان کا اعتماد رکھنا اور ان کے راز کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

اخلاص کا حق: دوستی میں اخلاص بہت اہم ہے، اپنے دوست کے ساتھ صرف نہیں دکھانا چاہئے بلکہ اخلاص اور سچائی سے ان کے ساتھ رہنا ہے۔

بد دعا سے باز رہنے کا حق: دوستی میں اگر کبھی آپ کے دوست نے غلطی کی ہو، تو بد دعا کے بجائے ان کو معاف کر دینا اور ان کے خوبصورت اور بہتر مستقبل کی دعا کرنا چاہئے۔

یہ دوستی کے حقوق مختلف معاشرتی تعلقات کے لئے مشترک ہیں، دوستی ایک متبادل معاشرتی رشتہ ہے جس کو احترام، وفاداری، اخلاص اور محبت کے ساتھ نبھانا چاہئے۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


اچھا دوست اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے ، دوستی کے چند حقوق بھی ہیں ملاحظہ کیجئے:

(1) ہر شخص کو اپنا اچھا دوست بنانا چاہئےیہ دوستوں کے حقوق میں سے ہے ، اسی ضمن میں ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دوست کا دوسرے دوست پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے دوست کے دین کی حفاظت کرے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد،باب45، 4/167، حدیث:2385)

(2) دوست کا حق ہے کہ اسکی صحبت کی بھی حفاظت کرےکیونکہ اگر دوست کی ہی صحبت درست نہیں ہو گی تو بندہ اپنی صحبت کیسے درست کرے گا، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو:(۱) بہت جھوٹ بولنے والا، کیونکہ تم اس سے صرف دھوکا کھاؤ گے (۲) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا (۳) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا(۴) بزدل شخص، کیونکہ یہ تم کو مصائب میں چھوڑ دے گا(۵) فاسق شخص، کیونکہ وہ تم کو ایک لقمہ سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ ،2/214، 215) اسی کے متعلق حضرت مولانا معنوی قدّس سرّہ فرماتے ہیں :

صحبت صالح تُرا صالح کُنَد

صحبت طالح تُرا طالح کند

یعنی اچھے آدمی کی صحبت تجھے اچھا کر دے گی اور برے آدمی کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔(صراط الجنان،پ5، النسآء:140، ج2)

(3)دوست کو اپنا دوست سچا اور دیندار بنانا چاہئے نہ کہ ایسا دوست بنائے جو اسکے دین و دنیا کی بربادی کا سب بنےاور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ،2/214)

(4) اپنا دوست ایسا بنائیں جو کہ اپنے ساتھ ساتھ آپکو بھی محبتِ الٰہی کی طرف راغب کرےیہ بھی دوستوں کے حقوق میں سے ہے ، اسی کے ساتھ ، دوست کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ دوست اپنے دوست کے دنیا و آخرت دونوں میں کام آئے قیامت کے دن نفسانی دوستی فائدہ نہ دے گی، یاد رہے کہ اس آیت میں نفسانی اورطبعی دوستی کی نفی ہے اور ایمانی دوستی جومحبتِ الٰہی کے سبب سے ہو وہ باقی رہے گی جیسا کہ سورہ زخرف کی آیت نمبر 67 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار۔ (پ25، الزخرف:67)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت و دوستی ہی قیامت کے دن کام آئے گی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایمان والوں کی آپس میں محبت اور دوستی قیامت کے دن کام آئے گی۔

(5) ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار بندوں کو اپنا دوست بنائے اور ان سے محبت رکھے تاکہ آخرت میں ان کی دوستی اور محبت کام آئے۔ (صراط الجنان، پارہ 25)﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار۔ (پ25، الزخرف:67)

(6) پنے دوست کے ساتھ وفادار رہیں اور ان کی مدد اور حمایت کریں، چاہے وہ خوشی کے وقت ہو یا مشکلات کے وقت ہو ۔


صرف رضائے الٰہی کے لئے کسی سے دوستی کرنا اور بھائی چارہ قائم کرنا دین اسلام کی افضل عبادتوں میں سے ہے۔ چنانچہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :افضلُ الأعمالِ الحب فی اللہ و البغض فی اللہیعنی بہترین عمل الله کے لئے محبت اور الله کے لئے عداوت ہے۔(مشکاة المصابیح،1/ 15)دینِ اسلام نے جیسے دیگر امور میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔اسی طرح تعلقات و معاملات میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ لہٰذا جب بھی کسی دوستی اور بھائی چارے کا تعلق قائم ہوجائے تو کچھ حقوق کا خیال رکھنا چاہیے ۔

پہلا حق یہ ہے کہ دوست کو مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے، جیسے قراٰنِ مجید میں فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)

دوسرا حق یہ ہے کہ دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں اس کے کہنے سے پہلے اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی خدمت کرے۔ سلف صالحین میں سے ایک بزرگ تھے۔ جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے بعد چالیس سال تک اس کے بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔

تیسر ا حق زبان کا حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات کہے۔ ان کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور ایسا خیال کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ پس پشت اس کے ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔

چوتھا حق یہ ہے کہ زبان سے شفقت اور دوستی کا اظہار کرے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: اذَا أَحَبَّ اَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ کر دے۔ (ترمذی حدیث:2399) یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔

پانچواں حق یہ ہے کہ اگر اسے علم دین کی ضرورت ہو تو سکھائے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا دنیا کے رنج و الم سے نجات دینے سے زیادہ اہم و ضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو اسے سمجھائے نصیحت کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔

چھٹی قسم حقوق کی یہ ہے کہ جو بھول چوک صادر ہو جائے اسے معاف کر دینا چاہیے کہ بزرگان دین نے کہا ہے کہ اگر تیرا کوئی بھائی قصور کر بیٹھے تو اس کی طرف سے ستر قسم کی عذر خواہی قبول کر۔

ساتویں قسم کا یہ حق ہے کہ اپنے دوست کو دعائے خیر میں یاد رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد کبھی نیز اس کے بال بچوں کے لیے بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا حقیقتا تو خود اپنے لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر کہتا ہے خدا تجھے بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس دعا کے جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔

آٹھویں قسم کا حق یہ ہے کہ وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل و عیال اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔

نویں قسم کا حق یہ ہے کہ دوست کے حق میں تکلیف و بناوٹ کو قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے رہتا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔ دسویں قسم کا حق یہ ہے کہ اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و تحکم کے ساتھ پیش نہ آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے۔(کیمیائے سعادت مترجم ص 291 تا 302 ملخصاً)

یا اللہ کریم ہمیں صرف اپنی رضا کی خاطر دوستی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اور دوستی اور بھائی چارہ کے تمام حقوق کا خیال رکھنے کی سعادت عطا فرما۔آمین