دوستی بہت ہی اہم اور قیمتی رشتہ ہے، سارے رشتے قابل احترام ہیں لیکن دوستی کے رشتے میں الگ ہی مروت و لحاظ پایا جاتا ہے، انسان کے پاس دنیا کی ساری سہولتیں ہوں مگر ایک سچے وفادار دوست کی کمی ہو تو ایسا شخص زندگی خوشی سے گزار نہیں سکتا اور اگر کسی کے پاس دنیا کی سہولتیں نہ ہوں مگر ایک اچھا دوست ہو تو وہ اپنی زندگی کو خوشی سے گزار سکتاہےکیونکہ بہت سے لوگ اچھے دوستوں کی وجہ سے دنیا میں کامیاب رہے ہیں اور بعض اوقات انسان خوشی غمی پریشانی مشکل وقت اور اس کے علاوہ جو باتیں ماں باپ بھائی بہن سے بیان نہیں کرسکتا وہ اپنے دوست سے بلا جھجک شیئر کردیتا ہے، دوست کوئی بھی ہوسکتا ے سچی دوستی میں شکل و صورت مال و دولت عمر و غربت نہیں دیکھی جاتی اور دوستی بغیر لالچ و مقصد کے ہوتی ہے اور اچھے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں بھلائی کا سبب ہے جبکہ برے دوست کی صحبت دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتی ہے، دوستی اور صحبت ہمیشہ نیک، صالح اور قراٰن و حدیث پر عمل کرنے والوں سے کی جائے ، کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔

اچھے اور بُرے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھیے چنانچہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہے: اچھے برے ساتھی کی مثال مُشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے) والے کی طرح ہے، مُشک اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا۔(مسلم، ص1084،حدیث 6692)لہٰذا ہمیں اچھے دوست کی صحبت اختیار کرنی چاہئے اور دوستوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے جن میں سے کچھ درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:

(1) انسان جو اپنے لیے پسند کرے وہ اپنے مسلمان بھائی (دوست) کے لئے پسند کرے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص کامل مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔

(2) نیک کاموں میں مدد کرے گناہ کے کاموں مدد نہ کرے : اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا ہے: نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔(پ 6 ، المآئدۃ:2)لہٰذا ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ بھلائی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور گناہ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں۔

(3) مشکل وقت میں ساتھ دینا: دوستوں کو دکھ،تکلیف، پریشانی، مشکل حالات ، ایثار میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا جس طرح انصار نے مہاجرین کی ہرحال میں مدد کی اور ان کا ساتھ دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: بدترین دوست وہ ہے جس سے تجھے معذرت اور تکلف کرنے کی ضرورت پڑے (کیمیائے سعادت، ص 301)

(4)وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے: وفاداری کا ایک معنی یہ ے کہ اپنے دوست کے ساتھ اچھے انداز سے کلام کرنا نیک کاموں میں مدد کرنا اور اگر غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردینا اس کی زندگی اور وفات کے بعد دعا میں یاد رکھنا اور اس کی اولاد اور گھر والوں سے بھی حسن سلوک کرنا اس میں غفلت نہ کرنا ہے ۔

ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ نے اس کی بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب ہوئےآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی کرم نوازی کا سلوک ایمان میں سے ہے۔(کیمیائے سعادت، ص 301)

(5) دوستوں کو خود سے بہتر جانے: حضرت ابو معاویہ الاسود نے فرمایا: میں اپنے تمام دوستوں کو اپنے سے بہتر جانتا ہوں کیونکہ وہ ہر معاملے میں مجھے مقدم رکھتے ہیں اور میری فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں ( کیمیائےسعادت، 302)

دوستی کس سے کریں: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں: ایسے شخص سے دوستی کی جائے جس میں یہ 3 باتیں موجود ہو ں۔۱۔ عقلمند ہو کیونکہ احمق کی دوستی اور صحبت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ انجام کار ندامت اور نقصان لاحق ہوتا ہے۔ ۲۔2 اچھے اخلاق والا ہو کیونکہ بداخلاق سے سلامتی کی امید نہیں ہے اور جب اس کی بداخلاقی جوش پر آئے گی تو تیرا حق اور مرتبہ ضائع کردے گا اور اسے کچھ پرواہ نہ ہوگی ۔ ۳۔ نیک ہو کیونکہ جو گناہ پر اڑا ہوا ہوگا اس کو اللہ پاک کا خوف نہ ہوگا جو خوف خدا سے خالی ہو اس پر بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔(کیمیائے سعادت،ص290 پروگریسوبکس)

اللہ پاک ہم سب کو دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب کرے اور ہمارے تمام دوستوں کو شادوآباد رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم