محمد اسامہ عطاری مدنی (مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ کراچی، پاکستان)
حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد،
اور جو دوستوں کے حقوق ہیں اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ اور حقوق العباد وہ حقوق
ہیں کہ جب تک بندہ ان حقوق کو معاف نہ کر دے تب تک وہ حقوق معاف نہیں ہوتے۔ لہذا
ہمیں چاہیے کہ ہم حقوق العباد ادا کریں اور ایک دوسرے کے شریعت نے جو حقوق ہمیں
عطا فرمائے ہیں اس پر عمل پیرا ہوں۔
نیک دوست ملنے کی فضیلت : من اراد
الله به خیر ارزَقَهُ خَلِيلاً صَالِحاً إِنْ شَيَ ذَكَرَهُ وَإِنْ ذكر أغانه ، الله پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے نیک
دوست عطا فرماتا ہے کہ اگر یہ بھولے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر اسے یاد ہو تو وہ
اس کی مدد کر یہ تو(نسائی، ص4210حدیث : 685)
دوست کے دین پر ہونا :فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ
دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث : 4833)
دوست کی دل سے خیر خواہی :دوستوں کے حقوق میں سے دوست کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی دل سے خیر خواہی کی
جائے۔ ان کے راز کی حفاظت کی جائے اور صحیح مشورہ دیا جائے اور ان کی اجازت کے بغیر
ان کی کوئی چیز استعمال نہ کی جائے۔مؤمن و کافر دوست : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے دو دوست مؤمن ہیں اور دو دوست کافر ہیں مؤمن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے
تو بارگاہ الہی میں عرض کرتا ہے یا رب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری
کرنے کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا مجھے برائیوں سے روکتا تھا اور یہ خبر دیتا
تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے اے رب میرے اسے گمراہ نہ کرنا اسے ایسی ہدایت
عطا فرما جیسی مجھے عطا فرمائی اور اس کا ایسااکرام کر جیسا میرا اکرام فرمایا اور
جب اس کا مؤمن دوست مر جاتا ہے اللہ تعالٰی دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ
تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے یہ اچھا بھائی ہے، اچھا
دوست ہے، اچھا رفیق ہے اور دو کا فر دوستوں میں سے ایک مرتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ
فلاں مجھے تیری فرمانبرداری سے منع کرتا تھا، بدی کا حکم دیتا تھا تو الله پاک
فرماتا تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ہر ایک کہتا ہے یہ بڑا
بھائی بُرا دوست ہے۔ ( خازن، الزخرف تحت الآیۃ : 46)
صحبت صالح تُر ا صالح کند صحبت
صالح تُر ا طالح کند
مصیبت کے وقت دوست کے کام آنا :دوست کی ایک صفت یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ مصیبت میں کام آئے
ایک بزرگ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ان کا دوست آیا گھر پر دستک دی اور کہا کہ مجھے
اتنی رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ وہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اندر گئے، بیگم صاحبہ رقم
وصول کی اور یہ پیسے اُسے دے دیئے اور پھر رونے بیٹھ گئے ۔ بیگم صاحبہ نے کہا اگر
ایسا ہی تھا تو آپ نے رقم اسے کیوں دی؟ ان بزرگ رحمۃ اللہ نے فرمایا: میں اس لیے
نہیں رو رہا کہ مجھے پیسے دینا پڑے بلکہ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ اسے میرے
دروازے پر آنا ہی کیوں پڑا؟ میں نے اس بات کی پہلے سے خبر کیوں نہیں رکھی کہ وہ
ضرورت مند ہے اگر خبر ہوتی تو اس سے پہلے کہ وہ میرے گھر پر آتا میں چپکے سے اس کی
مدد کر دیتا ۔( احیاء العلوم ، 3/258)
راہ جنت کی طرف لے جانے والا دوست :دوست وہ ہو کہ جس کی دوستی جنت کی طرف لے جائے وہ اچھی ہے
اور جو دوستی جہنم کی طرف لے جائے وہ بری دوستی ہے اسے چھوڑنا ضروری ہے۔
الله عزوجل ہمیں نیک صالح اور مخلص ساتھی عطا فرمائے اور ہمیں
دوست کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم