تنویر احمد (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں
اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اس دوران اس کی
ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے بعض لوگوں کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے
جبکہ وہ بعض سے احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوچ وفکر، مزاج ، مشاغل، اور مقاصد کی
ہم آہنگی کی وجہ سے انسان ایک لڑی میں پرو دیا ہے اسی طرح طبیعتوں ، نظریات اور
اہداف کے اختلاف کی وجہ سے انسان لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ معاشرے میں جہاں انسان کے
اعزہ واقارب اہل خانہ بیوی بچے اور بہن بھائی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی ہیں استخدام
کا ذریعہ ہیں، وہیں اس کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ اچھے
اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں، خود غرض اور مفاد پرست دوست
یقیناً انسان کے لیے ہر اعتبار سے خسارے کا سبب ہے۔یہاں دوستوں کے چند حقوق ذکر
کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1) دوست کو نیکی کا
حکم دینا اور برائی سے روکنا: انسان کو ہمیشہ اپنے دوست کو نیکی کا حکم دیتے رہنا
چاہئے بہت سے لوگ اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ دوست کو بگڑتا
ہوا دیکھنے کے باوجود اس کو نصحیت نہیں کرتے
(2) نیکی کے
کاموں میں معاونت اور برائی کے کاموں میں عدم معاونت : دوستی کا تقاضہ جہاں پر اچھی
بات کرنا ہے اس پر بھلائی کے کاموں میں معاونت کرنا بھی دوست کی اہم ذمہ داریوں میں
شامل ہے ۔
(3) دوست کی خوشی
اور غمی میں شریک: دوستی کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے
دوست کی خوشیوں میں شریک ہو اور اس کی خوشی کے موقع پر اس کی حوصلہ افزائی کرے اور
جب اس پر کوئی غم بیماری یا آزمائش آئے تو ایسی صورت میں اس کے ساتھ بھر پور
تعاون کرے اور اس کو دلاسہ دے۔
(4) دوست کا دفاع
اور ذکر خیر : اپنے دوست کا جائز بات پر دفاع کرنا اور اس پر لگنے والے غلط الزام
کو دھونے کی کوشش کرنا بھی ایک اچھے دوست کی نشانی ہے۔
(6) دوست کے جنازے میں شرکت ۔یا ساتھی کا انتقال ہو جانے کی
صورت میں دوسرے دوست کو اس کے جنازے میں شرکت کرنی چاہئے اور اس کے لیے خلوص دل کے
ساتھ دعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اس کے اہل خانہ کو دلاسہ دینا چاہئے۔
( 6) دوست کے
لیے دعائے خیر اور اس کے لواحقین کا خیال: انسان کو دوست کے لیے دعائے خیر کرتے
رہنا چاہئے اور اس کے لواحقین کے ساتھ بھی خیر والا معاملہ جاری رکھنے کی کوشش کرنی
چاہئے جو لوگ اپنے دوستوں کے لیے دعائے خیر کرتے اور ان کے لواحقین کا خیال کرتے ہیں
یقیناً وہ لوگ اپنے لیے بھی بھلائیوں کو جمع کر لیتے ہیں۔ الله تعالٰی ان کے عمل
کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ایسا انتظام فرماتا ہے کہ لوگ اس کے
مرجانے کے بعد اس کو اچھا اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور اس کے اہل خانہ اور
لواحقین کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں ۔
دعا ہے الله تعالٰی ہمیں اپنے دوستوں کے حقوق ادا کرتے کی
توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم