عبدالرحمٰن عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی ، پاکستان)
صرف رضائے الٰہی کے لئے کسی سے دوستی کرنا اور بھائی چارہ
قائم کرنا دین اسلام کی افضل عبادتوں میں سے ہے۔ چنانچہ خاتم النبیین صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :افضلُ الأعمالِ الحب فی اللہ و البغض
فی اللہیعنی بہترین عمل الله کے لئے محبت اور الله کے لئے عداوت ہے۔(مشکاة
المصابیح،1/ 15)دینِ اسلام نے جیسے دیگر امور میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔اسی
طرح تعلقات و معاملات میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ لہٰذا جب بھی کسی دوستی
اور بھائی چارے کا تعلق قائم ہوجائے تو کچھ حقوق کا خیال رکھنا چاہیے ۔
پہلا حق یہ ہے کہ دوست کو مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار
کرے، جیسے قراٰنِ مجید میں فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں
اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ 28، الحشر : 9)
دوسرا حق یہ ہے کہ دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں
اس کے کہنے سے پہلے اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی
خدمت کرے۔ سلف صالحین میں سے ایک بزرگ تھے۔ جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے
بعد چالیس سال تک اس کے بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔
تیسر ا حق زبان کا حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات
کہے۔ ان کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور
ایسا خیال کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ
پس پشت اس کے ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔
چوتھا حق یہ ہے کہ زبان سے شفقت اور دوستی کا اظہار کرے
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: اذَا أَحَبَّ اَحَدُكُمْ
أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ ترجمہ: جب تم
میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ کر دے۔ (ترمذی حدیث:2399)
یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔
پانچواں حق یہ ہے کہ اگر اسے علم دین کی ضرورت ہو تو سکھائے
کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچانا دنیا کے رنج و الم سے نجات دینے سے زیادہ
اہم و ضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو اسے سمجھائے نصیحت
کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔
چھٹی قسم حقوق کی یہ ہے کہ جو بھول چوک صادر ہو جائے اسے
معاف کر دینا چاہیے کہ بزرگان دین نے کہا ہے کہ اگر تیرا کوئی بھائی قصور کر بیٹھے
تو اس کی طرف سے ستر قسم کی عذر خواہی قبول کر۔
ساتویں قسم کا یہ حق ہے کہ اپنے دوست کو دعائے خیر میں یاد
رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد کبھی نیز اس کے بال بچوں کے لیے
بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا حقیقتا تو خود اپنے
لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنے بھائی
کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر کہتا ہے خدا تجھے
بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس دعا کے
جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔
آٹھویں قسم کا حق
یہ ہے کہ وفائے دوستی کی حفاظت کی جائے وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے
کے بعد اس کے اہل و عیال اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔
نویں قسم کا حق یہ ہے کہ دوست کے حق میں تکلیف و بناوٹ کو
قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے رہتا ہے۔ اگر ایک
دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔ دسویں قسم کا حق یہ ہے کہ
اپنے آپ کو اپنے دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و
تحکم کے ساتھ پیش نہ آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام
حقوق ادا کرے۔(کیمیائے سعادت مترجم ص 291 تا 302 ملخصاً)
یا اللہ کریم ہمیں صرف اپنی رضا کی خاطر دوستی اور بھائی
چارہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اور دوستی اور بھائی چارہ کے تمام حقوق کا
خیال رکھنے کی سعادت عطا فرما۔آمین