محمد عظیم عطاری (درجۂ ثالثہ ، جامعۃُ
المدینہ فیضان امام غزالی ، فیصل آباد، پاکستان)
کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسان خاندانی تعلقات اور
رشتہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط و
مستحکم رکھتے ہیں۔ دوستی کی بنیاد عام طور پر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ گزارا
ہوا وقت، یکساں مفادات اور سوچ و فکر کا اشتراک ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں دیکھا
گیا ہے کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے کے دوران بعض اوقات حد شرعی کو
عبور کر جاتے ہیں جیسے شراب نوشی، قتل و غارت وغیرہ اور اس کے مد مقابل بہت سے لوگ
دینی، روحانی اعتبار سے بھی دوستی کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دین
اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے ؟چنانچہ اللہ پاک سورہ ٔ توبہ آیت نمبر 71 میں ارشاد
فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے
رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ
دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ
غالب حکمت والا ہے۔ (پ10، التوبۃ: 71)
اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مسلمان مرد اور عورتیں ایک
دوسرے کے رفیق (دوست) ہیں اور وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے اسی
طرح وہ نمازوں کو قائم کرتے اور زکوۃ ادا کرتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و
فرما برداری کرتے ہیں۔
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کل قیامت کے دن صرف
تقویٰ کی بنیاد پر مضبوط ہونے والی دوستی ہی کام آئے گی اور شر کی بنیاد پر استوار
( مضبوط) ہونے والی دوستی قیامت کے دن دشمنی اور عداوت اور عذاب نار پر منتج ہوگی
دوستی کے متعلق چند اہم بائیں: (1) اپنے دوست کیلئے وہ پسند کرنا چاہیے جو انسان اپنے لیے
پسند کرے اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیل میں پیش کیا جاتا
ہے: حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک
کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ
اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (2) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے (3)
برائی اور گناہوں کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے (4) دکھ اور مشکل میں دوست کے کام
آنا چاہیے(5) اپنے دوست بلکہ ہر ایک مسلمان کے عیب چھپانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
صحابہ
کرام کا طرز عمل : صحابہ کرام میں یہ بات بہت نمایاں تھی کہ وہ اپنے دوست
احباب کی نسبت سے ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا کرتے تھے اور ان کی خبر
گیری میں کبھی بھی کو تاہی نہ کرتے تھے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوستی کے حوالے
سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ اور اپنے دوستوں کو مشکل وقت
میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دوستی کے فرائض و حقوق کو
سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم