اعتصام شہزاد عطّاری (درجۂ ثالثہ مرکزی
جامعۃُ المدینہ فیضان عطار اٹک، پاکستان)
انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں ، کالجوں ،
یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ اس
دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کی طرف تو اس کی
طبیعت مائل ہوتی ہے اور بعض سے وہ احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ معاشرے میں جہاں
انسان کے اعزہ و اقارب اور اہل خانہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور استحکام کا ذریعہ
ہیں ، وہیں اس کے دوست احباب بھی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار
ادا کرتے ہیں۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں اور
برے اور مفاد پرست دوستوں کا میسر آ جانا یقیناً انسان کےلئے ہر اعتبار سے خسارے
کا سبب ہے۔ لہذا جو لوگ اچھے اور مخلص دوستوں کو اختیار کرتے ہیں یقیناً وہ دنیا
اور آخرت کی بھلائیوں کو اپنے لیے سمیٹ لیتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے جب انسان کسی
سے دوستی کرتا ہے تو اس حوالے سے اس پر بعض اہم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن
میں سے چند زینتِ قرطاس کئے جا رہے ہیں توجہ سے پڑھئے:
(1)پہلا حق تو یہ ہے
کہ دوست کو جب بھی مال کی ضرورت ہو تو اس پر ایثار کرے۔ جیسے قرآنِ مجید میں
فرمایا: ﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو (پ
28، الحشر : 9)
(2) دوست اور ساتھی کی حاجات و ضروریات میں اس کے کہنے سے پہلے
اس کی مدد کرے اور خوش دلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ اس کی خدمت کرے۔ سلف صالحین
میں سے ایک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے دینی بھائی کی موت کے بعد چالیس سال تک اس کے
بال بچوں کی خبر داری کا فریضہ ادا کیا۔
(3) دوستوں کے حقوق
میں ایک اہم حق زبان کا بھی ہے کہ وہ یہ کہ اپنے بھائیوں کے حق میں نیک بات کہے ان
کے عیب چھپائے۔ اگر کوئی پس پشت ان کی بد گوئی کرے تو اس کا جواب دے اور ایسا خیال
کرے کہ وہ دیوار کے پیچھے سن رہا ہے اور جس طرح یہ خود چاہتا ہے کہ وہ پس پشت اس کے
ساتھ وفادار رہے اس کے پس پشت یہ خود بھی اس کا وفادار رہے۔
(4) زبان سے شفقت
اور دوستی کا اظہار کرے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
إِذَا أَحَبَّ أحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمُهُ ایاہ ترجمہ : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے دوستی رکھتا ہو تو اس کو اس سے آگاہ
کر دے، یہ آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہو۔
(5) اگر اسے علم دین
کی ضرورت ہو تو سکھائے کہ اپنے بھائی کو دوزخ کی آگ سے بچاناد نیا کے رنج و الم سے
نجات دینے سے زیادہ اہم وضروری ہے۔ اگر اسے سکھایا پھر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو
اسے سمجھائے نصیحت کرے اور خدائے تعالیٰ کا خوف دلائے۔
(6) اپنے دوست کو
دعائے خیر میں یاد رکھے اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی نیز اس کے
بال بچوں کے لیے بھی دعا کرتا رہے۔ جس طرح اپنے لیے دعا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا
حقیقتاً تو خود اپنے لیے کرے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے
ہیں: جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی
دعا پر کہتا ہے خدا تجھے بھی ایسا ہی عطا کرے اور ایک روایت میں ہے کہ خدا تعالیٰ
فرماتا ہے میں اس دعا کے جواب میں عطا کرنے میں تجھ سے ابتدا کرتا ہوں۔( صحیح مسلم
، کتاب الدعوات ،حدیث: 2228)
(7) وفائے دوستی کی
حفاظت کی جائے، وفاداری کا ایک معنی یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل و عیال
اور دوستوں سے غفلت نہ برتے۔ ایک بوڑھی عورت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے اس کی بڑی عزت کی لوگ اس عزت افزائی پر متعجب
ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ عورت میری زوجہ خدیجہ کے زمانے میں ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔
کرم نوازی کا ایسا سلوک ایمان میں سے ہے۔
(8) دوست کے حق میں
تکلیف و بناوٹ کو قریب نہ آنے دے اور دوستوں کے درمیان بھی اسی طرح رہے جیسے اکیلے
رہتا ہے۔ اگر ایک دوسرے سے رعب و دبدبے سے پیش آئیں تو وہ دوستی ناقص ہے۔
(9) اپنے آپ کو اپنے
دوستوں سے کمتر خیال کرے اور ان کے ساتھ کسی معاملے میں رعب و تحکم کے ساتھ پیش نہ
آئے اور رعایت کی بات ان سے پوشیدہ نہ رکھے اور ان کے تمام حقوق ادا کرے۔
اللہ پاک ہمیں بھی اپنی رضا کے لیے دوستی اور بھائی چارہ
قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سمجھدار، با اخلاق اور نیک مسلمانوں کے ساتھ دوستی
کرنے والا بنائے ۔ ہمارے ایمان، اخلاق اور نیک اعمال میں خرابی کا باعث بننے والے
دوستوں سے بچائے۔ کافروں، نافرمانوں، ظالموں اور فاسقوں کے ساتھ دوستی سے محفوظ
رکھے۔ دوستی اور بھائی چارے کے تمام حقوق کا خیال رکھنے کی سعادت دے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم