اﷲ قراٰنِ مجید کی سورۂ انفال ایت نمبر 63 میں فرماتا ہے :اور اس نے مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ (پ10، الانفال:63)یعنی اگر انسان کسی سے انسیت پاتا ہے تو اس میں اسکا کمال نہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی۔ انسان عموماً جن لوگوں سے مانوس ہوتا ہے اس میں سرفہرست اس کے والدین ، اساتذہ، اپنی زوجہ و اولاد اور دوست ہیں۔

دوستی کے متعلق حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کسی کو اپنا بھائی بنائے تو اللہ عزوجل اسے جنت میں بلند درجہ عطا فرمائے گا جس تک وہ اپنے کسی عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا۔(مسند الشامیین للطبرانی،حدیث: 157)امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دوست کے دوسرے دوست پر کئی حقوق ہوتے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

پہلا حق مالی معاونت:مسلمان بھائی کی اپنے مال کے ذریعے مدد کی جائے اور اس کا سب سے کم در جہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو غلام یا خادم کا مرتبہ دیں اور اس کی ضروریات اپنے بچے ہوئے مال سے پوری کریں۔ مثلاً اگر اسے کوئی ضرورت پیش آئے اورضرورت سے زائد مال ہو تو اس مال سے اس کی ضرورت پوری کریں۔ جب کہ اس کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو خود پر ترجیح دی جائے اور اس کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم جانیں۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو بکری کا سر ہدیہ دیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ”میر افلاں بھائی اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے “ وہ سری ان کی طرف بھیج دی، انہوں نے بھی یہی خیال کر کے آگے بھیج دی، اس طرح وہ سری ایک سے دوسرے کو بھیجی جاتی رہی حتی کہ سات ہاتھوں سے گزر کر واپس پہلے صحابی کی طرف لوٹ آئی۔

دوسرا حق بدنی معاونت:مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلمان دوست کا حق یہ بھی ہے کہ خود اپنے ہاتھ پاؤں کے ذریعے اس کے سوال سے پہلے اس کی حاجت پوری کی جائے۔ مروی ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله تعالى عنهما سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے اور دائیں بائیں دیکھ رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کی:میں ایک شخص کو محبوب رکھتا ہوں ، اسے دیکھ رہاہوں نظر نہیں آرہا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمہیں کوئی اچھا لگے تو اس کا اور اس کے باپ کا نام پوچھ لو اور اس کے گھر کا پتا معلوم کر لو، اگر وہ ببمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اگر کسی کام میں مصروف ہو تو اس کی مدد کرو۔( شعب الایمان للبہیقی، حدیث:726)حضرت سید نا امام شعبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کے پاس بیٹھ کر یہ کہنا کہ میں اس کا چہرہ پہچا نتاہوں اس کا نام نہیں جانتا“ بیوقوفی کی علامت ہے۔

تيسراحق خاموش رہنا:تیسرا حق دوست کا یہ ہے کہ کے اپنے دوست کے عیوب اور وہ باتیں جو اسے ناپسند ہوں ان سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا مثلا دوست کے عیوب بیان کرنے سے زبان کو روکے بلکہ مصنوعی ناواقفیت کا اظہار کرنا جب وہ گفتگو کر رہا ہو تو در میان میں اپنی بات شروع نہ کی جائے۔ جب اسے راستے میں دیکھے یا کسی کام میں مشغول پائے تو اس کی مشغولیت کے بارے میں سوال نہ کرے حتی کہ وہ خود بیان کر دے کیونکہ بعض اوقات اپنی مصروفیت بیان کرنا دشوار ہوتا ہے اور انسان جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے وغیرہ ۔امام غزالی علیہ الرحمۃ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں اپنے دوست کے لیے عزت، محبت اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ برائیاں اور عیوب دیکھتا ہے۔

چوتھاحق خوبیاں بیان کرنا:انسان کو چاہئے کہ دوست کے سامنے اپنی دوستی و محبت کا اظہار کرے، حتی المقدور اس کے معاملات سے باخبر رہے ۔ مثلاً اسے کوئی معاملہ درپیش ہو یا کسی سبب سے اس کا دل بے چین ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے اور وقتاً فوقتاً اس کی خیریت معلوم کرتا رہے۔حضرت سیدنا ابو سعید سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرمایا کرتے کہ جب تم کسی سے بھائی چارہ قائم کرنا چاہو تو اسے غصہ دلاؤ پھر اس پر ایک شخص مقرر کرو جو اس سے تمہارے اور تمہارے راز کے بارے میں پوچھے اگر وہ تمہارے بارے میں اچھے کلمات کہے اور تمہارے راز چھپائے تو اسے دوست بنالو۔

اسی طرح اس کے اہل و عیال، ہنر، افعال حتی کہ اس کے اخلاق ، شکل و صورت، تحریر اور اس کی ہر اس چیز کی تعریف کرنی چاہئے جس سے وہ خوش ہوتا ہے لیکن یہ سب جھوٹ اور مبالغہ کے بغیر ہو جو تعریف کی جائے وہ بخوشی اور اس کے سامنے بیان کریں کیونکہ تعریف چھپانا خالص حسد ہے۔ مزید یہ کہ اگر وہ کوئی بھلائی کرے یا بھلائی کا ارادہ ہی کرے تو بھی اس کا شکر یہ ادا کریں اگر چہ کام مکمل نہ ہوا ہو۔ خلیفہ چہارم امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کرم الله تعالی وجهہ الکریم نے فرمایا: جو اچھا ارادہ کرنے پر اپنے مسلمان بھائی کی تعریف نہیں کرتا وہ اس کے اچھے کام پر بھی اس کی تعریف نہیں کرتا۔

پانچواں حق دعا کرنا:دوستوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد دعا کی جائے اورساتھ ہی اس کے اہل وعیال اور متعلقین کے لئے بھی دعا کا اہتمام کیا جائے۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دعا اس طرح کی جائے کہ جس طرح اپنے لئے کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے دعا کرنا حقیقت میں اپنے لئے دعا کرنا ہے۔ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب آدمی اپنے بھائی کے لئے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی اس کی مثل ہو ایک روایت میں ہے : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اے میرے بندے میں تجھ سے شروع کروں گا (یعنی پہلے تجھے عطا کروں گا)۔ لہذا اپنے دوست کے لیے خوب اور خاص دعا کا اہتمام کیا جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب بھی دوستی کی جائے تو مقدم رضا الہی ہو اور ایک مرتبہ جب کسی کو اپنا بھائی بنالے توپھر حتی الامکان دوستوں کے حقوق ادا کرنے میں لگ جائے۔ مال اور بدن کے ذریعے اس کی مدد کی جاِئے۔ عیوب و غیبت کرنے سے اپنی زبان کو روکے رکھے بلکہ اس کی تعریف کرے اور پھر اس کے لیے سچے دل سے دعا کرے۔ اگر کوئی ان حقوق کو ادا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان شاء ﷲ حدیث پاک میں جو خوشخبری دی گئ ہے جنت میں بلند مقام کی، اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین