آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں ، آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر   اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ علیہ السلام کو شرف نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ یہاں آپ علیہ السلام کا ذکر خیر دو ابواب میں کیا گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن پاک میں دو مقامات پر آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے: (2) سورۂاص، آیت: 48 (1) سورہ انعام، آیت: 86۔

حضرت يسع علیہ السلام کا تعارف آپ علیہ السلام کا مبارک نام یسع" ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں اور ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام

کا نسب نامہ یہ ہے: یسع بن عدی بن شو قلم بن افراہیم بن حضرت یوسف علیه السلام بن حضرت یعقوب علیه السلام بن حضرت اسحاق علیه السلام بن حضرت ابراہیم علیه السلام "

بعثت و تبلیغ: آپ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکم الہی کے مطابق لوگوںکو تبلیغ و نصیحت فرمائی اور کفار کو دین حق کی طرف بلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔

اوصاف و خصوصیات اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے، رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے۔ آپ علیہ السلام بردبار متحمل مزاج اور غصہ نہ کرنے والے تھے۔ آپ ملیہ السلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے کام نہ لیتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: اور اسماعیل اور سمیع اور ذو الکفل کو یاد

انعام الهی: اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ فرمانِ باری تعالی ہے : ترجمه: اور اسماعیل اور تیسع اور یونس اور لوط کو( ہدایت دی) اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔

مروی ہے کہ آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔ جب آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیجئے تا کہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کر سکیں۔ آپ علیہالسلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تم بیٹھ جاؤ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے، لیکن آپ علیہ السلام کے دوبار و کہنے پر وہی تو جو ان ہی کھڑا ہوا اور اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو : (1) تم سوئے بغیر ساری رات عبادت میں بسر کیا کرو گے۔ (2) روزانہ دن میں روزو رکھو گے اور کبھی چھوڑو گے نہیں۔ (3) غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔ اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔


آپ علیہ السّلام کا نام مبارک یسع ہے اور آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے    آیت قرآنی سورۃ الانعام ۔وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے بآپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی تفسیر صراط الجنان

{ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ:اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب علیہم السلام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء علیہم السلام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس علیہم السلام کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 33) اس شان سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 33)۔ *سورۃ ص * وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر صراط الجنان {وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: 48، 4 / 44، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں ،انہیں حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: 48، 8/ 47، صاوی، ص، تحت الآیۃ: 48، 5 / 1774، ملتقطاً


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں حضرت یسع علیہ السّلام کی شخصیت انتہائی پرکشش، پر وقار اور بارعب تھی۔  آپ علیہ السّلام اعلی لباس زیب تن فرماتے تھے ہاتھ میں عصا عموماً ہوتا تھا طبیعت میں سادگی اور بے نیازی تھی۔ آپ علیہ اسلام کا ذریعہ معاش کھیتی باری تھا۔ دن بھر کھیتوں میں ہل چلانے اور راتوں کو اللہ عزوجل کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ علیہ اسلام کو اللہ عزوجل نے نبوت عطا فرمائی۔ اور اللّہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بادشاہت بھی عطا فرمائی آپ علیہ السّلام دن میں روزے رکھا کرتے اور رات کو اللّہ عزوجل کے حضور کھڑے ہو کر نوافل ادا کیا کرتے تھے آپ علیہ السّلام کو کسی بات پر غصّہ نہیں آتا تھا خصوصاً آپ علیہ السّلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ کیا کرتے تھے کسی قسم کی جلد بازی نہ کرتے_ آپ علیہ السّلام حضرت ابرہیم علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السّلام حضرت الیاس علیہ السّلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک لوگوں کو تبلیغ حق کرتے رہے۔ نیز آپ علیہ السّلام نے کفار کو دین اسلام کی طرف لانے کا فریضہ بھی سر انجام دیا اللّہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو نبوت بھی عطا فرمائی چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ھے وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) :-ترجمہ کنزالایمان اور اسمعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت عطا فرمائی

اس آیت مبارکہ میں اللّہ پاک نے ان انبیاء کرام علیہم السّلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیر و کار باقی رہے نہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت یسع ، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہ السّلام ایک اور جگہ اللّہ پاک قرآن پاک ارشاد فرماتا ھے سورۃ ص آیت نمبر 48 پارہ نمبر 23 وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) -:ترجمہ کنزالایمان اور یاد کرو اسمعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں

تفسیر صراط الجنان یعنی اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ! آپ حضرت اسماعیل ، حضرت یسع اور حضرت ذوالکفل علیہ السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں۔

یادر ہے کہ حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاءکرام میں سے ہیں اُنہیں حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا

وفات سے پہلے کا وقت۔۔ آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ اب کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیں تاکہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کریں تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔ ملک کی باگ دوڑ میں اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دینے پر تیار ہوگا۔ کسی شخص نے بھی اس بات کی ضمانت قبول نہ کی سوائے ایک نوجوان کے اس نوجوان نے کہا میں ضمانت دیتا ہوں آپ علیہ السلام نے اس کو کہا بیٹھ جاؤں۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے۔ لیکن پھر سے وہی نوجوان کھڑا ہوا اور کہا کہ میں زمہ داری قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کروں.

(1) پہلی یہ کہ تم تمام راتیں عبادت میں بسر کروں گے یاد رہے سونا نہیں۔

(2) دوسری بات یہ کہ ھر دن روزہ رکھنا ھے۔

(3) تیسری یہ کہ غصے کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔

اس نوجوان نے تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا اور اپنا جانشین قرار دیا (روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیہ 9/85 /108 الجزء السابع عشر)

خیال رہے کہ نبوت میں خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا، اللہ تعالیٰ جسے چاہے نبی بنا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے -:ترجمہ کنزالایمان اللہ خوب جانتا ہے جسے چاہے رسالت کے منصب سے نواز دے۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں عرض ہے رب کریم ہمیں انبیاء کرام کا فیضان نصیب فرمائے اور ان کی سیرت طیبہ پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے آمین


اللہ پاک نے کفر و شرک گمراہی اور بد عملی کی تاریکیوں میں بھٹکے افراد کو نور ہدایت سے روشناس کرا نے کیلئے  اپنے مقرب وصالح بندوں انبیاء کرام مھم السلام کو مبعوث فرمایا یہ کائنات کی عظیم ترین اور انسانوں میں بیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی جس کا تذکرہ خیر آنکھوں کو دوشنی، روح کو قوت، کردار کو حسن قوموں کو عروج بخشنے کے ساتھ ساتھ سنت الہی اور نزول رحمت کا سبب ہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے (کشف الخفاء رقم 1770 ج 2 ص 168)

ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ایک حضرت یسع علیہ السلام بھی ہیں اس روایت پر عمل کی نیت سے آپ بھی حضرت یسع علیہ السلام کا قرآنی تذکرہ پڑھیے اور قلوب و اذہان کو معطر کیجئے

نام و نسب مبارک :آپ علیہ السلام کا مبارک نام یسع ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہیں ہیں آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے : یسع بن عدی بن شو تلم بن افراہیم بن حضرت یوسف علیہ السلام ابن حضرت یعقوب علیہ اسلام بن حضرت اسحاق بن حضرت ابراهیم علیم السلام (روح البيان، الانعام،تحت الآية 4 : 279/86)

بعثت و تبلیغ آپ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکم الہی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و نصیحت فرمائی اور کفار کو دین حق کی طرف بلانے کا فریضہ سر انجام دیا (سیرت الانبیاء ص 728 مطبوعہ مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی) ،

عبادات و معمولات :اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ باد شاہت بھی عطا فرمائیآپ دن کو روزہ رکھا کرتے اور رات کواللہ تعالٰی کے حضور کھڑے ہو کر نوافل اداکرتے تھے آپ علیہ السلام کسی بات پر غصہ نہ کرتے۔ خصوصا آپ اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ فرماتے کسی قسم کی جلدبازی اور غصہ سے فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔ ( تذكرة الانبياء ص 335 مطبوعہ ضیاء العلوم راولپنڈی)

انعام الہی : اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہاں والوں پر خصوصی فضیلت عطا فرمائی فرمان باری تعالٰی ہے۔وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ، ترجمہ کنزالعرفان: اور اسمعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو ہدایت دی اور ہم نے سب کو تمام جہاں پر فضیلت عطا فرمائی (پ 7 انعام 86)

اوصاف : اللہ پاک نے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام کو بھی کثیر عمدہ صفات اور اعلیٰ اوصاف کے ساتھ متصف فرمایا چنانچہ آپ بھی چند پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے

1؛-۔بہترین لوگ : آپ علیہ السلام اللہ پاک کے مقرب و برگزیدہ اور عبادات گزار تھے اس وجہ سے اللہ پاک نے آ پ علیہ السلام کو اپنے بہترین بندوں میں شمار فرمایا ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ترجمہ وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48): اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔ (پ 23 ص 48)

کتاب و نبوت عطا ہونا :- آپ علیہ السلام اللہ پاک کی ان ہستیوں میں سےہیں جنہیں اللہ پاک نے کتاب نبوت اور حکمت عطا فرمائی جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَۚ-ترجمہ : یہ وہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی ا(پ 7 انعام 89) اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ خیر کرنے اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


اللہ تعالیٰ نے مخلوق خدا کی رہنمائی کیلئے بہت سے انبیاء بھیجے جنہوں نے  اپنی اپنی امتوں کو حق تعالیٰ کی پہچان کروانے میں زندگیاں گزاری انہیں نبیوں میں سے ایک اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت سیدنا یسع علیہ السلام بھی ہیں آئیے آپ کا قرآنی تذکرہ اور مختصر احوال سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں

آپ علیہ السلام کا مبارک نام "الیسع" ہے اور آپ علیہ اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

نسب شریف: ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام الخطوب بن مجوز کے فرزند ہیں اور ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے "یسع بن عدی بن شو قلم بن افراہیم بن حضرت یوسف علیه السلام بن حضرت یعقوب علیه السلام بن حضرت اسحاق علیه السلام بن حضرت ابراهیم علیه السلام " آپ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصہ تک حکم الہی کے مطابق لوگوں کو وعظ و نصیحت و تبلیغ دین متین فرمائی اور کفار کو دین حق کی طرف بلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔

اوصافِ حمیدہ اللہ کریم نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے، رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے۔ آپ علیہ السلام برد بار متحمل مزاج اور غصہ پی جانے والے تھے۔ آپ علیہ السلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے کام نہ لیتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَار ترجمہ کنزالعرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اورسب بہترین لوگ ہیں (پارہ 23 سورہ ص آیت48)

اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی چنانچہ فرمان باری تعالی ہے وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی (پ 7 آیت 86 سورہ انعام)

ظاہری وصال شریف کے وقت جانشینی مروی ہے کہ آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔ جب آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیجئے تا کہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کر سکیں۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔

ارشاد فرمایا تم بیٹھ جاؤ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے، لیکن آپ علیہ السلام کے دو بار کہنے پر وہی نوجوان ہی کھڑا ہوا اور اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو،

1...تم سوئے بغیر ساری رات عبادت میں بسر کیا کرو گے۔

2...روزانہ دن میں روزے دار رھو گے اور کبھی روزہ ترک نہیں کرو گے

3...غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔

اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا (روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیہ 85، 9/108 الجزء السابع عشر)

اللہ کریم ہمیں انبیاء کرام علیہم السّلام کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت یسع علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطاء فرمائی اور اس کے ساتھ ہی آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی، آپ دن کو روزہ رکھا کرتےتھے اور رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا، خصوصاً آپ  اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ فرماتے، کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔

الیسع''جن کانام صرف دومرتبہ قرآن میں ایا ہے اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(87)

ترجمۂ کنز الایمان اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے بآپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔

تفسیر صراط الجنان:

اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب علیہم السلام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء علیہم السلام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔

پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس علیہم السلام کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

اس شان سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر صراط الجنان

یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۴۴، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں ،انہیں حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۸ / ۴۷، صاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۱۷۷۶، ملتقطاً)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضرت یسع علیہ السلام کی طرح دن کو روزہ رکھنے اور رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر نوافل ادا کرنے اور کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے فیصلہ نا کرنے اور دوسروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین


پیارے اسلامی بھائیوں! ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے زمین پر  اپنی خلافت قائم کرنے کے لیے بے شمار انبیاء کرام کو بھیجا- جنہوں نے انسان کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر حق و باطل میں فرق سکھایا اور لوگوں کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کا درس دیا- اگر ہم ان انبیاء کرام کی سیرت مبارکہ کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے بہت زیادہ مشقت کے ساتھ دین حق کی دعوت دی- اسے پھیلانے کے لیے بہت سی مشکلات و پریشانیاں برداشت کیں اور اس کے لیے کئی بار ظلم و زیادتی کا سامنا کیا- ان کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں قران پاک میں کئی مقامات پر انبیاء کرام کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ فرما کر مسلمانوں کو نصیحت فرمائی گئی ہے

ان پاک ہستیوں میں سے ایک حضرت یسع علیہ السلام بھی ہیں- آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ قران کریم میں آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا گیا- چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(سورۂ ص،48) ترجمہ: اور اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔

ایک اور مقام پر آپ علیہ السلام کو ہدایت یافتہ اور تمام جہان والوں پر فضیلت والا فرمایا گیا چنانچہ ارشاد ہوا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(الانعام: 86) ترجمہ اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی) اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔

اے عاشقان انبیاء! ان اوصاف میں ہمارے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے کہ انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان ہمت ہار کر مایوس ہو جاتا اور وہ مسائل کا سامنا نہیں کر پاتا ہے تو ان انبیاء کرام کے اوصاف اور ان کی سیرت کو پڑھ کر انسان کو صبر اور حوصلہ ملتا ہے لہذا حضرت یسع علیہ السلام کے قرانی اوصاف پر عمل کرکے ہمیں بھی بہترین انسان بننے اور راہ ہدایت پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایسی بہت سی دلچسپ معلومات حاصل کرنے کے لیے اور ان اعلی اوصاف پر عمل کرنے کے لیے ہر جمعرات بعد از نماز عشاء دعوت اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی، بروز ہفتہ بعد از نماز عشاء مدنی چینل پر ہونے والے مدنی مذاکرہ کو دیکھنے کی اور دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ہونے والے مدنی قافلوں میں سفر کی مدنی التجا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں ہدایت پر استقامت اور ان اوصاف کو اپنا نے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین!


اللہ  پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیھم السلام کو معبوث فرمایا انبیاء کرام کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔

ان ہی انبیاء کرام میں سے ایک نبی حضرت یسع علیہ السلام ہیں: آپ علیہ السلام کا نام مبارک یسع ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں اور قول کے مطابق آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے: یسع بن عدی بن شوتلم بن افراثیم بن یوسف علیہ السلام بن یعقوب علیہ السلام بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام.

آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء کرام میں سے ہیں، آپ علیہ السلام کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور حضرت الیاس علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا.

آپ علیہ السلام کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا. (حوالہ: تفسیر مصباحین ترجمہ و شرح تفسیر جلالین ج 2، ص 557).

آپ علیہ السلام ایک عرصے تک حکم الہٰی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و نصیحت فرمائی اور کفار کو دین حق کی طرف بلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔

اللہ عزوجل نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی. آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے، رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے.

آپ علیہ السلام بردبار متحمل مزاج اور غصّہ نہ کرنے والے تھے.

آپ علیہ السلام اپنی امت کے تمام معاملات میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی اور غصّہ سے کام نہ لیتے تھے.

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(سورۃ ص، آیت نمبر 48):وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں۔

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام ہدایت و نبوت نواز اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے (سورۃ الانعام آیت نمبر 86): وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی.

انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگیاں ہمارے کے لیے بہترین عملی نمونہ ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو انبیاء کرام کی سیرت کے بارے میں بتائےتاکہ ان کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور ہمارے بچے ان سے محبت کرتے ہوۓ ان کی سنتوں پر عمل کرئے ۔ انبیاء کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے مفتی محمد قاسم عطاری کی کتاب سیرت الانبیاء انتہاہی مفید ہے۔

دعا ہے اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی سیرت کو پڑھنے اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں آپ کوحضرت الیاس نے بنی اسرائیل پر  اپنا خلیفہ مقررکیااوربعدمیں آپ علیہ السلام کو شرف نبوت سے سرفرازفرمایاگیا. آپ علیہ السلام کا مبارک نام یسع ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں الله پاک نے آپ کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطافرمائ قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کا تزکرمتعدجگہوں پر ہیں۔

الله پاک نے آپ کو بہترین لوگوں میں شمار کیا ہے: آیت: وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48)ترجمہ . . اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کویادکرواورسب بہترین لوگ ہیں

یعنی اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم آپ حضرت اسماعیلص حضرت یسع اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کے فضائل اوران کے صبرکویادکریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو.اوران کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کاذوق وشوق حاصل کریں اوروہسب بہترین لوگ ہیں۔

تمام جہان والوں پرفضیلت دی:آیت : فرمان باری تعالی ہے : وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86 ترجمہ اوراسماعیل اوریسع اوریونس اورلوط کو(ہدائت دی) اورہم نے سب کوتمام جہان والوں پرفضیلت عطافرمائ ہے۔

اللہ پاک نے اس آپ آیت میں ان انبیاء کرام کاذکرفرمایاجن کےنہپروکارباقی رہےاورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسماعیل

حضرت لوط علیھم السلام: خازن النعام تحت الآیت32/2086/ اوراس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ جہان میں اللہ عزوجل کے سواتمام موجودات داخل ہیں توفرشتے بھی اس میں داخل ہیں اورجب تمام جہان والوں پرفضیلت دی توفرشتوں پربھی فضیلت ثابت ہوگئ ہے اوریہ آپ علیہ السلام کاقرآنی تزکرہ بھی ہے۔ ( خازن الآنعام تحت الآیتہ32/2086/)

ان دونوں آیتوں الله پاک نے آپ علیہ السلام کاتزکرہ اورقرآنی صفات بیان کی ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم بھی انبیاءکرام کی سیرت پرعمل کریں اوردوسروں تک پنجاۓ اللہ پاک سے دعاہے کہ ہمیں انبیاء کرام علیھم السلام کاادب واحترام کرنے کی توفیق عطافرماۓ امیں۔ بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم. امین ثم آمین جزاک اللہ خیرا


پیارے اسلامی بھائیو اللہ تبارک و تعالی نے اس نظام عالم کو چلانے کے لیے  اور توحید بیان کرنے کے لیے کچھ مخصوص لوگوں کا انتخاب فرمایا جنہیں ہماری شریعت میں انبیاء اور رسل علیہم السلام کے نام سے جانا جاتا ہے انہی اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک نام حضرت یسع علیہ السلام آپ کا ہے ۔

انشاءاللہ عزوجل ابھی ہم انہی کے حوالے سے پڑھیں گے آیا کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو کتنا بلند مقام عطا کیا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں آپ علیہ السلام کا ذکر خیر دو مقامات پر ملتا ہے 1۔ سورہ انعام۔ آیت نمبر:86۔2۔ سورہ ص.آیت نمبر: 48۔3۔آپ علیہ السلام کا مختصر تعارف۔

پیارے اسلامی بھائیو :حضرت یسع علیہ السلام آپ نبی ہیں اور بنی اسرائیل میں سے ہیں پہلے آپ حضرت الیاس علیہ السلام کے خلیفہ بنے حضرت الیاس علیہ السلام کے کہنے پر بعد میں آپ کو شرف نبوت سے سرفراز کر دیا گیا اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔

اس شان سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

تفسیر صراط الجنان:

اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ء8، 2 / 33)

اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: سورہ ص۔آیت نمبر: 48 وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایماناور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر صراط الجنان:{وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: 48، 4 / 44، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: 48، 8 / 47، صاوی، ص، تحت الآیۃ: 48، 5 / ء177، ملتقطاً)

نام مبارک: آپ علیہ السلام کا مبارک نام یسع ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں

نسب نامہ: ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں اور ایک قول کے مطابق آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے : یسع بن عدی بن شو تلم بن افراثیم بن حضرت یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب علیہ السلام بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ (روح المعانی٫ الانعام ۔تحت الآیۃ: ٫279/86٫4 الجزاء السابع۔ البدایتہ و النہایۃ۔قصۃ الیسع علیہ السلام ۔449/1)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کا صحیح معنوں میں ذکر خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


حضرت یسع علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطاء فرمائی اور اس کے ساتھ ہی آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی، آپ دن کو روزہ رکھا کرتےتھے اور رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا، خصوصاً آپ  اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ فرماتے، کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔

الیسع''جن کانام صرف دومرتبہ قران میں آیا ہے : اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(87)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے بآپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔

تفسیر صراط الجنان:

اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب نکتہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب علیہم السلام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء علیہم السلام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔

پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس علیہم السلام کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 23)

اس شان سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 33)

اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر صراط الجنان:

یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: 24، 4/ 44، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں ،انہیں حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: 48، 8 / 47، صاوی، ص، تحت الآیۃ: 48، 5 / 1774، ملتقطاً)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضرت یسع علیہ السلام کا خصوصی فیضان نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت یسع علیہ اسلام کا تذکیر ہ قرآن کریم میں صرف دو ہی مقام پر ہے۔ پہلا مقام وہ سورہ انعام میں ہے۔ دوسرا مقام وہ سورہ ص میں ہے۔  پہلا مقام وہ سورہ انعام ہے جس میں حضرت یسع علیہ السلام کا ذکر خیر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا ہے۔

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَترجمہ کنزالعرفان:اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ۔ (پ 7 آیت 86 سورہ انعام )

آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت یسع علیہ سلام کو اللہ تعالٰی نے ہدایت و نبوت سے سرفراز فرمایا اور نبوت کے مرتبہ کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضلیت عطا فرمائی۔

دوسرا مقام وہ سورت مبارکہ جس میں حضرت یسع علیہ السلام کا ذکر خیر ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد کی خداوندی ہے : وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِترجمہ کنزالعرفان:اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اورسب بہترین لوگ ہیں(پ 23 س ص آیت 48)

اللہ تعالی نے حضرت یسع علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ تمام جہان والوں پر فضلیت بخشی۔ اور آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہترین لوگوں میں شمار فرمایا کہ آپ علیہ السلا دن میں روزہ رکھتے اور رات میں کچھ دیر آرام فرماتے اور رات کا بقیہ حصہ اللہ تعالی کی یاد میں نوافل کی ادائیگی میں گزار دیتے تھے ۔ آپ علیہ اسلام نرم مزاج اور لوگوں پر غصہ کرنے والے نہ تھے۔ آپ علیہ السلام اپنی اُمت کے معاملات میں بڑی سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اُمت کے فیصلہ کرنے میں آپ علیہ السلام جلد بازی نہ فرماتے اسی بناء پر اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا جیسکہ مذکورہ آیت مبارکہ میں ارشاد فرمایا کہ

اور اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کرو وہ تمام بہترین لوگوں میں سے ہیں۔

آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔ جب آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیجئے تا کہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کر سکیں۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔

ارشاد فرمایا تم بیٹھ جاؤ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے، لیکن آپ علیہ السلام کے دو بار کہنے پر وہی نوجوان ہی کھڑا ہوا اور اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو،

1...تم سوئے بغیر ساری رات عبادت میں بسر کیا کرو گے۔

2...روزانہ دن میں روزے دار رھو گے اور کبھی روزہ ترک نہیں کرو گے

3...غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔

اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا (روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیہ 85، 9/108 الجزء السابع عشر)

اللہ تعالی حضرت یسع علیہ السلام کی مزار پر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور حضرت یسع علیہ السلام کے صدقے ہم سب کی اور ہمارے فوت شدگان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النین صلی اللہ علیہ وسلم