شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے اس کا برعکس ناشکری ہے اللہ تبارک و تعالی کے ہم پر اتنے احسانات اور اتنی نعمتیں ہیں اس نے ہمیں اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ہمارا حق یہ بنتا ہے کہ ہم اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کریں اگر ہم اس کی ناشکری کریں گے تو جو نعمتیں اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں عطا فرمائی وہ بھی ہم سے چھن جائیں گی کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور یہ ناشکری ایک گناہ ہے حرام ہے ائیے اس کے بارے میں مزید احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں

1 حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، 6 / 516، الحدیث: 9119)

2 حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 448، الحدیث: 60)

3 حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔ (رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، 3 / 555، رقم: 93)

4 حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی ہے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس کی وجہ کیا ہے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان کی ناشکری کرنے کی وجہ سے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی کیا عورتیں خدا کی ناشکری کیا کرتی ہیں تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت احسان کی ناشکری کرتی ہیں اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہیں (بخاری ج 3ص 463)

5 حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم روف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جنتی عمل کون سا ہے حضور نے فرمایا سچ بولنا بندہ جب سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو محفوظ ہو جاتا ہے اور جب محفوظ ہو جاتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے پھر اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جہنم میں لے جانے والا عمل کون سا ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جھوٹ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے (المسند الامام احمد بن حنبل رقم 6652ج2ص588)

سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، 2 / 123، الحدیث: 1522)

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے اٰمین۔


ناشکری ایک نا پسندیدہ بیماری ہے جس کی قرآن پاک اور آحادیث میں بہت مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ آپ بھی پڑھیے ’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم: 8) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت

1؛-حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: 7، 5/ 9)

2؛-حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، 1 / 232، الحدیث: 60

3؛-نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جسے کوئی عطیہ دیا جائے اگر ہوسکے تو اس کا بدلہ دے دے اور جو کچھ نہ پائے وہ اس کی تعریف کردے ۱؎ کہ جس نے تعریف کردی اس نے شکریہ ادا کیا جس نے چھپایا اس نے ناشکری کی ۲؎ اور جو ایسی چیز سے ٹیپ ٹآپ کرے جو اسے نہ دی گئی وہ فریب کے کپڑے بننے والے کی طرح ہے ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:3023 )

4:- حضرت ابی سعید خدری سےفرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقرعید یاعِید الفطرمیں عید گاہ۲؎تشریف لے گئے عورتوں کی جماعت پر گزرے۳؎ تو فرمایا کہ اے بیبیو!خوب خیرات کرو ۴؎ کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے ۵؎ کہ تم زیادہ دوزخ والی ہو،انہوں نے عرض کیا حضور یہ کیوں؟ فرمایا تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو ۶؎ خاوند کی ناشکری ۷؎ ہو تم سے بڑھ کر کوئی کم عقل دین پر کم عاقل عقلمند آدمی کی مت کاٹ دینے والی میں نے نہیں دیکھی۸؎عورتوں نے عرض کیاحضور ہمارے دین و عقل میں کمی کیونکر ہے۔فرمایا کہ کیا یہ نہیں ہے کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی ہے ۹؎ عرض کیا ہاں فرمایا یہ عورت کے عقل کی کمی ہے فرمایا کہ کیا یہ درست نہیں کہ عور ت حیض میں روزہ نماز ادا نہیں کرسکتی عرض کیا ہاں فرمایا یہ اس کے دین کی کمی ہے۱۰؎ کتا(:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:19)

اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


اللہ پاک نے انسان کو بے شمار  طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے جس کے مشاہدے کی چھوٹی سی مثال انسان کی ذات پر اللہ پاک کی عطا کی گئی نعمتیں ہیں۔ جب صرف اس کو دیکھا جائے۔ تو اللہ پاک کی اتنی عظیم نعمتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ صرف اسی پر اس کی ذات کے اعتبار سے اللہ پاک کی کتنی نعمتیں ہیں آنکھ, کان, ناک,ہاتھ, پاؤں اور دل و دماغ وغیرہ اللہ پاک کی وہ نعمتیں ہیں جن کی دنیوی اعتبار سے اگر قیمت دیکھی جاۓ تو لاکھوں کروڑوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ مگر اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے یہ سب نعمتیں اپنے بندوں کو بغیر کسی عوض و قیمت کے محض اپنے کرم و فضل سے عطا فرمائی ہیں۔ اور اگر ان علاوہ اللہ پاک کی انسان کو عطا کی گئی نعمتیں دیکھی جائیں تو وہ بھی شمار سے ورا ہیں۔ جب آدمی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے تو اُس مالک ِحقیقی کا شکر نہ بجا لانا اور اس کی یاد سے غافل رہنا کتنی بڑی ناشکری اور کس قدر محرومی کا سبب ہے؟

شکر اور ناشکری کی حقیقت:- شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جبکہ ناشکری یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔ (تفسیرِ صراط الجنان) اللہ پاک قرآن کے متعدد مقامات پر شکر بجا لانے اور نا شکری سے بچتے رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اللہ پاک فرماتا ہے:. لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ آسان ترجمۂ قرآن کنز العرفان:. اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (ابراھیم آیۃ،7) ایک اور مقام پر فرمایا :- وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲) ترجمہ کنزالایمان ۔ میرا حق مانو (شکر ادا کرو) اور میر ی ناشکری نہ کرو۔(پ ۲۔ البقرہ ۱۵۲) اور فرمایا:-

اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(12) جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک الله بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا ۔ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:.

{وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی ناشکری کی مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:-

(1)....... حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)

(2)....... رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲)

(3)...... حضرت حسن رَضِیَ اللہ ُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰)

(4)…... حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳ / ۵۵۵، رقم: ۹۳)

(5)...... حضرت حسن بصری فرماتے ہیں رحمتہ اللہ علیہ بیشک جب تک اللہ پاک چاہتا ہے اپنی نعمتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے۔ جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لیے عذاب بنا دیتا ہے (الدار المنثور, پ 2 البقرہ تحت آیۃ 152, ج,1,ص,369 )

ناشکری کا عقلی و نقلی اعتبار سے رد:- نا شکری عقل اور نقل دونوں اعتبار سے ہی مذموم ہیں

ناشکری کا نقلی اعتبار سے مذموم ہونا :- نقل کے اعتبار سے یوں کہ قرآن میں فرمایا : (وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))ترجمہ : اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ (پ13 ، ابراھیم : 7)

ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم ہونا:- ناشکری کا عقلی اعتبار سے مذموم ہونا یوں واضح ہے کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ محسِن و مُنعِم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہر انسان کی فطرت میں ہے۔ اسی لئے اگر کوئی اپنے محسن کی ناشکری کرے تو اُسے مذموم سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لئے دنیا میں جب کوئی کسی پر احسان کرتا ہے تو ہر مذہب و ملت اور علاقہ و قوم والا اپنی تہذیب و روایات کے مطابق مختلف الفاظ و اعمال کی صورت میں دوسرے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنی تمام نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین


ناشکری اللہ پاک کو ناپسندہے اور اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔ ناشکری بہت بُری عادت اور ایک بڑا گناہ ہے۔ جس طرح شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح ناشکری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب اور سزا بھی دی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں قراٰن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی نقصان بھی ہیں۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ناشکری کی مذمت بیان کرنے کی کوشش کروں گا پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1)لوگوں کی ناشکری: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے وہ الله کا شکریہ بھی ادا نہ کرے گا۔(ترمذی، 3/384، حدیث: 1962)

حدیث کی شرح: سبحٰن الله! کتنا عالی مقام ہے، بندوں کا ناشکرا رب کا بھی ناشکرا یقیناً ہوتا ہے، بندہ کا شکریہ ہر طرح کا چاہئے دلی، زبانی،عملی، یوں ہی رب کا شکریہ بھی ہر قسم کا کرے، بندوں میں ماں باپ کا شکریہ اور ہے، استاذ کا شکریہ کچھ اور ،شیخ بادشاہ کا شکریہ کچھ اور۔(مراٰۃ المناجیح، 4/357)

(2)تھوڑی نعمتوں کا ناشکرا: حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ پاک کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔(شعب الایمان،6/516،حدیث: 9119)

(3)ناشکری کا انجام: حضرت حسنرضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ پاک ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ پاک ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔

(موسوعہ ابن ابی دنیا،1/484، حدیث: 60)

(4)ناشکرےکے لئےجہنم کا طبق: حضرت کعب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور اس نعمت کی وجہ سے اللہ پاک کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں) عذاب دے گا یا اس سے دَرگزر فرمائے گا۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا، 3/555،حدیث: 93)

(5)نا شکری سے رزق کا چلے جانا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہافرماتی ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممکان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑ اپڑا ہوا دیکھا، اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا: ”عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔“(ابن ماجہ، 4/49، حدیث:3353)یعنی اگر ناشکری کی وجہ سے کسی قوم سے رزق چلا جاتا ہے تو پھر واپس نہیں آتا۔(بہار شریعت،3/364)

اللہ پاک ہمیں شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو آج ہم انشاءاللہ حضرت یسع علیہ السلام کی قرآنی صفات کے متعلق پڑھے  گے اللہ پاک نے قرآن پاک میں جن لوگوں کا ذکر خیر فرمایا ہے یعنی جن کی صفات بیان کی ہیں ان میں سے ایک عظیم ہستی حضرت یسع علیہ السلام بھی ہے ۔ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے (( وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ)) ترجمہ کنز الایمان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں ((پارہ 23،سورة ص،آیت 48)) یعنی اے حبیب! آپ حضرت اسماعیل،حضرت یسع اور حضرت ذوالکفل علیھم الصلاة والسلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو (( خازن،ص، تحت الایة44/4،48،ملخصا))

اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق وشوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں اور یاد رہے کہ حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں انہیں حضرت الیاس علیہ الصلاة والسلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا (( رو البیان،ص،تحت الایة 47/8،48))

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہیت بھی عطافرمائی۔آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے اور رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے آپ علیہ السلام بردبار۔محتمل مزاج اور غصہ نہ کرنے والے تھے۔آپ علیہ السلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت وسنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی سے کام نہ لیتے تھے قرآن کریم میں اللہ پاک نے حضرت یسع علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا۔ اور اسی طرح الله پاک نے حضرت یسع علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطافرمائی اللہ پاک اپنی بلند وبالا پاک کتاب میں ارشاد فرماتا ہے (( وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ)) ترجمہ کنزالعرفان : اور اسماعیل اور یسع اور لوط کو ((ہدایت)) دی اورہم نے تمام جہان والوں پر فضیلت عطافرمائی((پارہ 6،سورة انعام،آیت نمبر 86))

اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ پاک نے اٹھارہ انبیاء کرام کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ تو زمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاءکرام کے اسماء کو ذکر فرمایا ہے ان میں سے ہر ایک الگ ہی رتبہ ومقام رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انبیاءکرام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت وفضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا اور اسی طرح حضرت اسمعیل،یونس،لوط علیہ السلام کے ساتھ یسع علیہ السلام کا بھی ذکر خیر فرمایا یعنی ان تمام انبیاء کو ہدایت دی اور آپ کو بھی ہدایت دی اور تمام جہان والوں پر فضیلت عطافرمائی اور اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انبیاء کرام تمام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالم یعنی جہان میں الله پاک کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہو گئ(( خازن ،انعام،تحت الایة33/2،86))

حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے اور حضرت زکریا، یحیٰی، عیسیٰ، اور الیاس علیہ السلام ان تمام حضرات کے بعد الله پاک نے ان انبیاءکرام کا ذکر فرمایا جن کے نہ کوئی پیروکار باقی رہے اور نہ ان کی شریعت اور ان میں سے حضرت یسع علیہ السلام بھی ہیں الله پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے اور ہمیں حضرت یسع علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ پاک نے اس دنیا میں بھیجا۔ دین متین کی تبلیغ کرنے کیلئے ۔ جب اس دنیا میں لوگ مشرکین ہونے لگے اور بتوں  کی پوجا کرنے لگے تو اللہ پاک نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا کہ وہ دین کی تبلیغ کریں انہیں میں سے حضرت یسع علیہ السلام بھی ہے آپ کو اللہ پاک نے نبوت عطاء فرمائی اور اس کے ساتھ آپ علیہ السلام کو بادشاہت بھی عطاء فرمائی آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھا کرتے اور رات کو اللہ کے حضور کھڑے ہو کر نوافل ادا کرتے آپ علیہ السلام . حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں میں سے ہے جیسے حضرت یسع عدی بن شوتلم بن افرائیم بن یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراهیم خلیل اللہ علیہم علیهم السلام :- آئیے آپ علیہ السلام کے بارے میں مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:-

(1) تمام جہاں والوں پر فضیلت عطا فرمائی :- اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : واسمعيلَ وَالیسَعَ وَيُونُسَ ولُوطاً وكلا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ: (سورۃ الانعام آیت 86) ترجمه کنز العرفان: اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو( ہدایت دی) اور ہم نے سب کو تمام جہاں پر والوں پر فضیلت عطا فرمائی:

(2) بہترین لوگ : اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : وَاذْكُرِ اسمعِيلَ وَالْيُسْعَ وَذَا الْكِفْلَ وَكُلٌّ مِنَ الْأَحْيَارِ . سورة ص آیت (48) :- ترجمة كنز العرفان : اور اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں :-

(3) ہم نے انھیں چن لیا :- اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ سورۃ الانعام آیت (87) :- ترجمة كنز العرفان اور ان کے بآپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی.

(4)حکمت اور نبوت عطاکی :- أولَئِكَ الَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبُ مَا وَالْحُكُمُ والنبّوۃ:- (الانعام آیت 89) ترجمه کننز العرفان : یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی.

(5) تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو : الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ أولَئِكَ الَّذِينَ هد الله فَبھدا هُمُ اقْتَدِهُ :- (الانعام آیت 90) :- ترجمة كنز العرفان: یہی وہ (مقدس) ہستیاں ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین:-


جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے آور ان کی صفات بیان کی اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یسع علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور ان کی صفات کے بارے میں ایت مبارکہ نازل فرمائیں چند آیت مبارکہ آپ بھی ملاحظہ فرما لیجیۓ

(1) انبیاء علیہم السلام کے فضائل اور صبر سے تصلی حاصل کرنا وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر: {وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔ (حوالہ سورتہ ص آیت نمبر 48)

(2) حضرت یسع علیہ السلام کا ان کے وقت میں سب پر فضیلت کا ذکر وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔

تفسیر وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ:اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،اللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام ۔ ( حوالہ سورتہ انعام آیت نمبر 86)

(3) کتاب حکم اور نبوت کا انکار نہ کرنے والی قوم کا بیان اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَۚ-فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ(89) ترجمۂ کنز الایمان یہ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تو اگر یہ لوگ اس سے منکر ہوں تو ہم نے اس کیلئے ایک ایسی قوم لگا رکھی ہے جو انکار والی نہیں۔

تفسیر { اُولٰٓىٕكَ: یہی وہ ہستیاں ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ جن انبیا ءِ کرام علیہم السلام کا ذکر کیا گیا یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب ،حکمت اور نبوت عطا کی ہے تو اگر یہ کفارِ مکہ کتاب، حکمت اور نبوت کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان تمام چیزوں کے حقوق ادا کرنے کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں (حوالہ سورتہ انعام آیت نمبر 89)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے اور انبیاء علیہم السلام کی صفات جیسی صفات اپنا نے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اس دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے ۔ ان میں سے ہر ایک کو اللہ عزوجل نے بہت سی شان وکمالات سے نوازا ہے ۔ ان میں سے حضرت يسع علیہ السلام بھی ہیں ۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آپ علیہ السلام کا تذکرہ خیر ملتا ہے۔ چنانچہ آپ بھی پڑھئے اور قلوب وازہان کو معطرکیجیے۔

نام مبارک : آپ علیہ السلام کا مبارک نام " یسع " ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

نسب نامہ : آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے۔ يسع بن عدی بن شو تلم بن افراثیم بن حضرت یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب علیہ السلام بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکم الہی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ ونصیحت فرمائی۔

اوصاف و خصوصیات : الله عز و جل نے آپ علیہ السلام کونبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن کو روزہ رکھتے رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی کرتے تھےآپ علیہ السلام بردبار متحمل مزاج اور غصہ نہ کرنے والے تھے۔ اور آپ علیہ السلام اپنی امت میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے تھے ۔ جلد بازی اور غصے سے کام نہیں لیتے تھے ۔ آپ علیہ السلام اپنے زمانے میں سب سے افضل تھے اور اللہ عز و جل نے آپ علیہ السلام کی افضلیت کا ذکر قرآن میں بھی فرمایا ہے ۔

(1) حضرت یسع علیہ السلام کی فضیلت : الله عز و جل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی ( پارہ 7 سورہ انعام آیت 86)

2)حضرت یسع علیہ السلام اچھے لوگوں میں سے ہیں : اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں (پارہ 23 آیت 48)

(3) حضرت یسع علیہ السلام نبی تھے : الله عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَۚ- ترجمۂ کنز الایمان یہ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی یہاں جن کو کتاب حکم اور نبوت عطا کی ان میں سے حضرت یسع علیہ السلام بھی ہیں۔ (پارہ 7 سوره انعام آیت 89 صراط الجنان)


آپ [علیہ السلام] کا مبارک نام "یَسَع" ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراھیم [علیہ السلام] کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ [علیہ السلام] بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں، آپ کو حضرت اِلیاس[علیہ السلام] نے بنی اِسرائیل پر اپنا خلیفہ مُقرر کیا اور بعد میں آپ[علیہ السلام] کو شرفِ نبوّت سے سَرفراز فرمایا گیا۔

1 [بہترین لوگوں میں سے] آپ [علیہ السلام] بردبار متحمل مزاج اور غصہ نہ کرنے والے، اپنی اُمّت کے بارے میں بڑی متانت وسنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی سے کام نہ لیتے تھے قرآن کریم میں اللّٰه پاک نے آپ[علیہ السلام] کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا ارشادِ باری تعالٰی ہے:- وَاذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ترجمہ کنزالایمان:-اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔ [پ23،صٓ آیت48]

2 [ اپنے زمانے میں سب سے افضل] اللّٰه پاک نے حضرت یَسَع[علیہ السلام] کو مَنصبِ نبوّت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائ۔ فرمانِ باری تعالٰی ہے:-وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًاؕ-وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالایمان:-اور اِسمٰعیل اور یَسع اور یُونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ [پ7،الانعام آیت90]

3 [ان کی پیروی کا حکم] قرآن کریم میں اللّٰه پاک نے حضرت یَسَع[علیہ السلام] اور دیگر اَنبیاء کرام[علیھم السلام] کا تذکرہ فرمانے کے بعد ان کی پیروی کا حکم ارشاد فرمایا۔ارشادِ باری تعالٰی ہے:- اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ ترجمہ کنزالایمان:-یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تو تم انہیں کی راہ چلو. [پ7،الانعام آیت90]

الله پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو [آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏]


آپ علیہ السلام کا مبارک نام یسع ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں  آپ بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا اوربعد میں آپ علیہ السلام کو شرف نبوت سے سرفراز فرمایا گیا ۔قرآن پاک میں دو مقامات پر آپ علیہ السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے

اوصاف اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن میں روزہ رکھتے ،رات میں کچھ دیر آرام کرتے اور بقیہ حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزارتے تھے۔ آپ علیہ السلام بردبار متحمل مزاج اور غصہ نہ کرنے والے تھے۔ آپ علیہ السلام اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت و سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اس میں کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے کام نہ لیتے تھے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: وَاذْكُرْ اسْعِيلَ وَالْيَسَع وَذَا الْكِفْلِ وَكُلُّ من الأَخْيَارِ) ترجمه: اور اسماعیل اور سیع اور ذوالکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں (پارہ 23،سورہ ص ،ایت نمبر 48)

اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: 98، 9/ 99، ملخصاً)

انعام الہی اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ فرمانِ باری تعالی ہے : وَاسْمُعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ ) 12 ترجمہ: اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو ہدایت دی اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ( پارہ 7،سورہ الانعام،86)

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 89، 2 / 33)


حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں، انہیں حضرت الیاس علیہ السلام نے   اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں بھی اللہ پاک نے نبوت سے سرفراز کیا ۔آپ علیہ السلام کا تذکرہ قران پاک میں بھی موجود ہے۔ (وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48 ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

حضرت یسع علیہ السلام کا تعارف :نام مبارک آپ علیہ السلام کا مبارک نام "یسع " ہے اور آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

:اوصاف خصوصیت آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے نبوت عطا فرمائی اور اس کے ساتھ آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن کو روزہ رکھا کرتے تھے اور رات کو کھڑے ہو کر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کو کسی بھی بات پر غصہ نہیں آتا تھا خصوصًا آپ اپنی امت کے معاملات میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ فرماتے، کسی قسم کی جلد بازی اور غصے سے فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔

:انعام الٰہی اللہ پاک نے حضرت یسع علیہ السلام کو ہدایت و نبوت سے نوازا اور منصب نبوت کے ذریعے اپنے زمانے کے تمام لوگوں پرفضیلت عطا فرمائی۔ اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے۔ وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان :اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

:وفات کے وقت جانشین کی نامزدگی مروی ہے کہ حضرت یسع علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔جب آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیں تاکہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کر سکیں۔ حضرت یسع علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دور اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی ۔پھر اس نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: تم بیٹھ جاؤ۔ آپ کی بات کا یہ مقصد تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے لیکن آپ علیہ السلام کے دوبارہ پوچھنے پر بھی وہی نوجوان کھڑا ہوا،اور اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کروائی پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا :ٹھیک ہے ،تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرو۔

(1) پہلی چیز یہ ہے کہ تم نے ساری رات عبادت میں گزارنی ہے اور رات کے کسی بھی حصے میں سونا نہیں ہے ۔

(2) دوسری چیز یہ ہے کہ تم مجھے اس بات کی ضمانت دو کہ ہر روز روزہ رکھو گے اور کبھی روزہ چھوڑو گے نہیں۔

(3) تیسری چیز یہ ہے کہ تم غصے کی حالت میں کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔

اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔


آپ علیہ السّلام کا نام مبارک یسع ہے اور آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے    آیت قرآنی سورۃ الانعام ۔ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86) ترجمۂ کنز الایمان اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے بآپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی

تفسیر صراط الجنان { وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ } ترجمہ { اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب علیہم السلام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء علیہم السلام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس علیہم السلام کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 33) اس شان سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ } ترجمہ اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: 84، 2 / 33)۔ *سورۃ ص * وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ(48) ترجمۂ کنز الایمان اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اورسب اچھے ہیں ۔

تفسیر صراط الجنان {وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل علیہم السلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔ ( خازن، ص، تحت الآیۃ: 48، 4 / 44، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں سے ہیں ،انہیں حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔ ( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: 48، 8/ 47، صاوی، ص، تحت الآیۃ: 48، 5 / 1774، ملتقطاً